جاپان میں کوڑے دان کیوں نہیں ملتے؟ حیران کن انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اگر آپ کبھی جاپان گئے ہوں یا کسی سیاح سے اس ملک کے بارے میں سنا ہو تو ایک بات ضرور سامنے آتی ہے، وہاں سڑکوں پر کوڑے دان نہیں ملتے، جی ہاں! ایک ایسا ملک جہاں ہر کام میں جدید ٹیکنالوجی، صفائی اور نظم و ضبط ہے لیکن وہاں ایک عام سی چیز یعنی ڈسٹ بن آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی، ایسا کیوں؟ یہ سوال ہر شخص کے لیے حیران کن ہے۔
صفائی جاپانی کلچر کا حصہ ہے، لیکن کوڑے دان کہیں نہیں؟
جاپانی لوگ صفائی کو اخلاقیات اور ذمہ داری کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہاں بچوں کو اسکول میں سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی استعمال کی گئی جگہ خود صاف کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی عوام اپنا کوڑا خود ٹھکانے لگاتے ہیں اور اسے دوسروں کے لیے نہیں چھوڑتے۔
آپ نے شاید سوشل میڈیا پر وہ مشہور ویڈیوز دیکھی ہوں جن میں جاپانی فٹ بال کے شائقین 2022 کے قطر ورلڈ کپ میں اسٹیڈیم کی صفائی کر رہے تھے۔ یہ صرف ایک اتفاق نہیں بلکہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔
لیکن پھر بھی، ایک ترقی یافتہ ملک میں پبلک ڈسٹ بنز کیوں نہیں؟ آئیے جانتے ہیں!
1995 کا خوفناک واقعہ جس نے جاپان کو بدل کے رکھ دیا
یہ 20 مارچ 1995 کی صبح تھی جب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کی زیرِ زمین میٹرو میں ایک خوفناک دہشت گرد حملہ ہوا۔ ایک مذہبی شدت پسند گروہ ’اوم شینریکو‘ نامی فرقے نے ’سیرین گیس‘ سے حملہ کیا۔ یہ ایک انتہائی زہریلی اور مہلک گیس ہے جو اعصاب کو مفلوج کر دیتی ہے اور چند ہی لمحوں میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ حملہ کیسے کیا گیا؟ گروہ کے پانچ افراد مختلف میٹرو ٹرینوں میں سوار ہوئے۔ ان کے پاس پلاسٹک کے تھیلوں میں زہریلی گیس موجود تھی، جسے اخبار میں لپیٹا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی چھتریوں کی نوک سے ان تھیلوں کو پھاڑا، جس کے نتیجے میں زہریلی گیس پھیلنے لگی۔ اور اسکے نتیجے میں ایک ہولناک تباہی ہوئی، 12 افراد موقع پر ہلاک ہوگئے اور ہزاروں لوگ بری طرح متاثر ہوئے۔ بہت سے لوگ عمر بھر کے لیے بینائی، سانس لینے کی صلاحیت اور دیگر صحت کے مسائل سے دوچار ہوگئے۔ یہ حملہ جاپانی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک تھا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
کوڑے دان کیسے غائب ہوگئے؟
اس واقعے کے بعد جاپانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ عوامی مقامات پر کوڑے دان رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ کوئی بھی ان میں زہریلے مواد یا بم رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا، تقریباً تمام عوامی ڈسٹ بنز ہٹا دیے گئے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکا جا سکے۔ اگرچہ کچھ خاص مقامات (جیسے ریلوے اسٹیشن) پر ڈسٹ بن موجود ہیں، لیکن ان کے ڈھکن سیل ہوتے ہیں یا ان کا ڈیزائن اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی اس میں خطرناک چیز نہ رکھ سکے۔
جاپان میں کوڑا کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے؟
اپنا کوڑا خود سنبھالیں: جاپانی لوگ زیادہ تر اپنا کوڑا اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور اسے وہاں ٹھکانے لگاتے ہیں۔
اسٹورز میں ری سائیکلنگ کا نظام: اگر آپ جاپان میں کسی اسٹور سے کافی کا کپ خریدتے ہیں تو وہ آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ وہیں پر اسے واپس کریں تاکہ وہ خود اسے صحیح طریقے سے ری سائیکل کر سکیں۔
سخت ری سائیکلنگ قوانین: جاپان میں کوڑا پھینکنے کے لیے مخصوص دن اور مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔ ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ کرنا ہوتا ہے، جیسے کہ پلاسٹک، گلاس، بایوڈیگریڈیبل کوڑا، وغیرہ۔
بڑی سوچ، بڑا ویژن، جاپان نے ایک سانحے سے ترقی کا ایسا راستہ نکالا جو قابلِ تحسین ہے
تاریخ گواہ ہے کہ بڑی سوچ اور بڑے وژن رکھنے والی قومیں مشکلات کو صرف ختم نہیں کرتیں بلکہ ان سے بہترین نتائج اخذ کرتی ہیں۔ جاپان نے بھی یہی کیا۔ 1995 کا دہشت گرد حملہ ایک تکلیف دہ واقعہ تھا، لیکن جاپان نے اس کا ردعمل صرف خوف یا محدود پابندیوں کی شکل میں نہیں دیا بلکہ ایک شاندار اور محفوظ ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے۔
انہوں نے صفائی کو ایک قانون نہیں بلکہ اپنی عوام کی فطرت میں شامل کر دیا۔ یہ وہی قوم ہے جو کسی بھی جگہ اپنا کوڑا خود ساتھ رکھتی ہے، جو نہ صرف اپنی گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھتی ہے بلکہ دنیا کو یہ سکھاتی ہے کہ ترقی صرف عمارتوں اور سڑکوں سے نہیں، بلکہ سوچ اور رویے کی بلندی سے آتی ہے۔
جاپان نے یہ ثابت کیا کہ اگر کسی مسئلے کا حل نکالا جائے تو وہ وقتی نہیں بلکہ دائمی ہونا چاہیے۔ یہی سوچ ترقی کا راز ہے ۔ مسائل سے گھبرا کر پیچھے ہٹنا نہیں بلکہ ان سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ مثبت سوچ، عملی اقدامات، اور دور اندیشی ہی کسی بھی قوم کو حقیقی کامیابی کی راہ پر ڈالتی ہے۔
ہمیں بھی جاپان کی طرح اپنے چیلنجز کو مواقع میں بدلنا ہوگا۔ کیا ہم اپنی زندگی میں، اپنے ملک میں، اور اپنی روزمرہ کی عادات میں ایسی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جاپان میں کوڑے دان جاپان نے کے لیے
پڑھیں:
عمران سیریز کا اختتام
26 مئی کی ایک شام کا اداس لمحہ تھا، جب ٹیبل لیمپ بجھا کر نظریں چھت کی طرف اٹھائیں تو لگا جیسے ایک کہانی ختم ہوئی ہو۔ وہ کہانی جو میری اپنی نہ تھی، لیکن لگتا تھا جیسے وہ میرے اندر سے نکلی ہو۔ یہ ’مظہر کلیم ایم اے‘ کی لکھی کوئی تازہ کہانی نہیں تھی، بلکہ ان کے قلم کی آخری جنبش کا احساس تھا۔ وہ جنبش جو کئی عشروں تک پاکستان کے بچوں، نوجوانوں اور والدین کی ذہنوں کو مہمیز دیتی رہی۔
ملتان کی قدیم گلیاں، جہاں مٹی اور کتابوں کی خوشبو ہوا میں گھل مل جاتی ہے، وہیں 22 جولائی 1942 کو جنم لیا۔ اصل نام مظہر نواز خان تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت، وکالت اور ادبیات کے میدان میں قدم رکھا۔ 1970 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے بطور اسکرپٹ رائٹر وابستہ ہوئے۔ کمپیئرنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ کا منفرد امتزاج انہیں ریڈیو کی معروف آواز (جمہور دی آواز) بنا گیا۔ لیکن وہ صرف آواز نہیں تھے، ایک ایسی قلمی طاقت تھے جو نوجوان ذہنوں کو تخیل، حب الوطنی، اور ذہانت کا سفر کراتی تھی۔
مظہر کلیم ایم اے نے اپنے پیشرو ابنِ صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کے ’علی عمران‘ کی شخصیت زیادہ تکنیکی، قومی سلامتی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ ایکس ٹو، صفدر، تنویر، جوزف، جولیا، سلیم، رشید اور نعمان جیسے کردار صرف نام نہ تھے، بلکہ ایسا منظر نامہ تھے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں کہانی کی طرح نقش ہو جاتے تھے۔
پاکستانی ادب میں جاسوسی اور تھرلر ناولوں کا منفرد باب ہے، جسے ابن صفی نے نہایت عمدگی سے رقم کیا۔ ابن صفی کے بعد ان کی جگہ لینا آسان نہ تھا، لیکن مظہر کلیم ایم اے نے نہ صرف خلا پر کیا بلکہ ’عمران سیریز‘ کو نئی زندگی دی۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی حقیقی روح، حب الوطنی اور سماجی حقائق کا عکس نظر آتا تھا۔ ان کے ناول صرف قصے کہانیاں نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ، احساسات، اور جذبوں کی نمائندگی تھے۔
مظہر کلیم کا ’علی عمران‘ وہ کردار تھا جو صرف جاسوس یا جاسوسی کہانی کا ہیرو نہیں تھا، بلکہ ایک قومی جذبے، سچائی کی تلاش اور ذہنی بیداری کی علامت تھا۔ ان کی تحریروں نے قاری کو محض تفریح نہیں دی بلکہ سوچنے، سمجھنے اور ملک و قوم کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کیا۔ ’عمران سیریز‘ میں شامل کردار، پلاٹ اور واقعات، حالات کے عکاس تھے۔
ان کے قلم نے دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا، دہشتگردی اور ملک دشمنی کے خلاف آواز بلند کی۔ مظہر کلیم کی تحریروں میں جاسوسی اور انٹیلی جنس کے ایسے پہلو سامنے آتے تھے جو قاری کے لیے حیرت اور معلومات کا ذریعہ بنتے۔ ان کا انداز بیان نہایت پر اثر، مگر عام فہم تھا، جو ہر طبقے تک پہنچتا تھا۔
مظہر کلیم کے تخلیقی عمل کا خاص رنگ یہ تھا کہ کبھی مکمل کہانی نہیں سوچتے تھے۔ وہ کہتے، ’میں بس کہانی شروع کرتا ہوں، پھر وہ خود ہی آگے بڑھتی ہے۔‘ یہ انداز تحریر میں تازگی اور حیرت کا تسلسل قائم رکھتا، اور قاری ہر صفحے پر اگلے پل کی پیش گوئی سے قاصر رہتا۔ یہی تو فن کی معراج اور پیش بینی کو مہارت سے شکست دینا ہے۔
دس کروڑ میں دو شیطان، ڈیشنگ تھری، گنجا بھکاری، آپریشن سینڈوچ، کیلنڈر کلر، ناقابل تسخیر مجرم، زندہ سائے، کاغذی قیامت، بلائنڈ مشن اور جیوش پاور جیسے ناول نہ صرف جاسوسی کہانیاں تھیں بلکہ ان میں قومی بیانیہ، سائنسی تخیل، اور نظریاتی تربیت پوشیدہ تھی۔
مظہر کلیم نے ’عمران سیریز‘ کے ذریعے محض سنسنی نہیں بیچی، بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ان کا ’علی عمران‘ نہ صرف ذہین تھا بلکہ ایسا ہیرو تھا جو نظریاتی، اخلاقی، اور نفسیاتی جنگ لڑتا تھا۔ مظہر کلیم کا ہنر یہی تھا کہ وہ معمولی واقعات میں بھی فلسفیانہ معنویت تلاش کر لیتے تھے۔
انہوں نے دشمن کو ہمیشہ چالاک دکھایا، لیکن عمران کو بھی مکمل برتری نہیں دی۔ جب جنگیں میدانوں میں نہ لڑی جائیں، تو وہ خیالات، نظریات اور لفظوں کی دنیا میں لڑی جاتی ہیں۔ مظہر کلیم کے ناول ایسے ہی مورچے تھے، ایسا نہیں کہ انہوں نے صرف وطن پرستی کی کہانیاں لکھیں بلکہ انہوں نے بچوں کو فکشن (چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو اور آنگلو بانگلو) کے راستے شعور سکھایا۔
26 مئی 2018 کو جب مظہر کلیم دنیا سے رخصت ہوئے، تو ’عمران سیریز‘ کا عہد ختم ہوا، جسے انہوں نے تین دہائیوں تک تحریر کیا۔ ان کی کہانیوں کا آخری باب تو شاید انہوں نے خود بھی نہ سوچا ہو۔ لیکن آج، جب ان کا قاری، جسے کبھی ’علی عمران‘ نے بچپن میں ہنسا، ڈرانا اور جگانا سکھایا تھا، وہ قاری اب خود شعور کی منزل پر ہے، تو اُسے اندازہ ہو رہا ہے کہ مظہر کلیم نے اسے کیا دیا۔
کہانی ختم ہو سکتی ہے، کردار مٹ سکتے ہیں، مگر خیالات اور تخیل کی دنیا ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ مظہر کلیم ایم اے کا ’علی عمران‘ اب شاید کسی فائل میں بند ہو چکا، لیکن ذہنوں میں اب بھی برسرپیکار ہے۔ دشمنوں کے تعاقب میں، قوم کے دفاع میں اور نوجوان نسل کے مستقبل کی آبیاری میں۔
’علی عمران‘ اجتماعی شعور کا استعارہ تھا، ایسا استعارہ جو بیدار رکھتا، خبردار کرتا، اور خواب دکھاتا ہے۔ ابن صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کی شمع جس چراغ نے روشن رکھی، وہ مظہر کلیم ایم اے ہی تھے۔ ان کے بعد کئی ہاتھوں نے یہ عَلم تھامنے کی کوشش کی، لیکن وہ جوت، وہ روانی، وہ اثر کہیں کھو گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے ’عمران سیریز‘ کا اختتام ہوچکا، ایک عہد ختم ہوا، لیکن اس کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں