اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کا مقصد امریکی محکمہ تعلیم کو مکمل طور پر "ختم کرنا" ہے۔

محکمہ تعلیم پر "سانس لینے میں ناکامی" کا الزام لگاتے ہوئے، ریپبلکن صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس محکمے کی رقم کو انفرادی ریاستوں کو واپس کر دیں گے۔

انہوں نے کہا، "ہم اسے جلد از جلد بند کرنے جا رہے ہیں۔ میزوں پر بیٹھے طلباء سے گھرا ہوا، یہ محکمہ ہمارے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کر رہا ہے۔"

ٹرمپ نے سیکریٹری تعلیم لنڈا میک موہن سے مطالبہ کیا کہ وہ محکمہ کو بند کرنے کے لیے تمام قانونی اقدامات کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فی الوقت محکمہ تعلیم کے زیر انتظام، جو اہم پروگرام ہیں، انہیں دوسری ایجنسیوں میں منتقل کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

صدر نے کہا کہ اس محکمے کو ختم کر دینے سے تعلیم سے متعلق تمام فیصلے ملکی ریاستوں کو واپس منتقل ہو جائیں گے۔

محکمہ تعلیم کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس سے قانون سازی کرنا ہو گی۔ تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ ٹرمپ کو ایسا قانون منظور کرنے کے لیے کافی قانون سازوں کی حمایت حاصل ہو سکے گی۔

امریکی عدالت نے بھارتی اسکالر بدر خان سوری کی ملک بدری روک دی

جمہوریت پسندوں اور ماہرین تعلیم کی مذمت

سینیٹ میں چوٹی کے ڈیموکریٹ رہنما چک شومر نے اس اقدام کو "طاقت کا ظالمانہ قبضہ" اور "ڈونلڈ ٹرمپ کے اب تک کے سب سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک اقدامات میں سے ایک" قرار دیا۔

تعلیم امریکہ کی ثقافتی جنگوں میں کئی دہائیوں سے میدان جنگ رہی ہے اور ریپبلکن طویل عرصے سے وفاقی حکومت سے اس کا کنٹرول ہٹانا چاہتے تھے۔

روایتی طور پر امریکی حکومت کا تعلیم میں محدود کردار رہا ہے، جس میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے لیے صرف 13 فیصد فنڈز وفاقی خزانے سے آتے ہیں، باقی فنڈز ریاستوں اور مقامی کمیونٹیز کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔

لیکن وفاقی فنڈنگ ​​کم آمدن والے اسکولوں اور خصوصی ضروریات والے طلباء کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت طلبہ کے لیے کلیدی شہری حقوق کے تحفظات کو نافذ کرنے کے لیے بھی بہت اہم رہی ہے۔

ٹرمپ نے کینیڈی کے قتل سے متعلق ہزاروں فائلیں جاری کر دیں

فلسطینی حامی بھارتی طالب علم کی ملک بدری پر روک

اس دوران ایک امریکی جج نے امیگریشن حکام کو حکم دیا ہے کہ امریکہ میں فیلوشپ پر زیر تعلیم بھارتی ریسرچ اسکالر بدر خان سوری کو اس وقت تک ملک بدر نہ کیا جائے، جب تک عدالت کو اس پر فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمہ نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو سوری کو پیر کے روز امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ قرار دے کر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ محکمے نے کہا کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سوری اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن کی شادی ایک ایسی امریکی شہری سے ہوئی ہے، جو غزہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

فری پریس ٹرمپ کے ایجنڈے پر نہیں، ڈی ڈبلیو کے سربراہ کا موقف

مسک کی ٹیم کو نجی ڈیٹا تک 'بے لگام رسائی' سے روکا گیا

ایک امریکی جج نے ارب پتی ایلون مسک اور اور لاگت کم کرنے سے متعلق ادارے (ڈی او جی ای) پر سوشل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن کے حساس ڈیٹا تک رسائی پر عارضی پابندی لگا دی ہے۔

میری لینڈ کے ڈسٹرکٹ جج ایلن لپٹن ہولینڈر نے جمعرات کو کہا کہ سوشل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے ممکنہ طور پر ڈی او جی ای کو لاکھوں امریکیوں کے ڈیٹا تک "بے لگام رسائی" دے کر رازداری کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

ٹرمپ نے 'وائس آف امریکہ' کو خاموش کر دیا

جج نے کہا کہ ڈی او جی ای حکومتی بوجھ کم کرنے کی کوشش کے حصے کے طور پر "لاکھوں امریکیوں کے ذاتی معاملات" میں مداخلت کر رہا ہے۔

ایس ایس اے کے پاس لاکھوں امریکیوں کا حساس ڈیٹا ہوتا ہے، جس میں میڈیکل ریکارڈ، آمدن کی تاریخ اور سوشل سیکورٹی نمبر شامل ہوتا ہے۔

تدوین جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محکمہ تعلیم کرنے کے لیے ملک بدر نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر عائد کردہ اپنے انتہائی مہنگے ٹیرف کو کم کرنے کے ارادے کا اعادہ کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ کسی بھی ریلیف کی ٹائم لائن بیجنگ پر منحصر ہوگی۔

دوسری جانب ریاست ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹی کٹ، الینوائے اور نیویارک سمیت 12 امریکی ریاستوں کے ایک گروپ نے امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر ٹیرف لگانے کے صدر ٹرمپ کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔

بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں چین سمیت امریکی تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف کی نئی شرحوں کا اعلان کر سکتے ہیں، یہ دوسرے ممالک کے ساتھ امریکی انتظامیہ کے مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

صدر ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ وہ کتنی جلدی 145 فیصد ٹیرف کو کم کر سکتے ہیں جو انہوں نے زیادہ تر چینی اشیا پر عائد کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان پر منحصر ہے، ہمارے پاس ایک ایسی صورتحال ہے, جہاں ہمارے پاس ایک بہت اچھی جگہ ہے، جسے امریکا کہا جاتا ہے اور جسے برسہا برس سے لوٹا گیا ہے۔

’آخر میں، میرے خیال میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت اچھی ڈیلز ہوں گی، اور ویسے اگر ہمارا کسی کمپنی یا ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو ہم ان کے ساتھ ٹیرف طے کرنے جا رہے ہیں۔‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ’بہت اچھی طرح‘ رہے ہیں، اور وہ امید کرتے ہیں کہ فریقین ایک معاہدے تک پہنچیں گے۔’ورنہ، ہم قیمت مقرر کریں گے۔‘

مزید پڑھیں:

کیا امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ ’فعال طریقے سے‘ بات کر رہی ہے، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سب کچھ فعال ہے، ہر کوئی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے جو ہم کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب وال اسٹریٹ میں اس امید پر دوسرے دن کاروبار مثبت رہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ تناؤ کو کم کریں گے جو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان ایک موثر تجارتی پابندی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

بینچ مارک ایس اینڈ پی 500 گزشتہ روز 1.67 فیصد زائد پر بند ہوا، جب کہ ٹیک ہیوی نیس ڈیک کمپوزٹ 2.50 فیصد بڑھ گیا، جس نے گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے تبصروں سے حوصلہ پکڑا کہ چین کے ساتھ تجارت ’غیر پائیدار‘ تھی۔

مزید پڑھیں:

بدھ کے روز، وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے چینی سامان پر 50 سے 60 فیصد تک ٹیرف کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

میڈیا رپورٹ میں اس معاملے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ڈیوٹی میں نرمی کے لیے کئی آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن توقع کریں گے کہ بیجنگ اس کے بدلے میں امریکی اشیا پر 125 ٹیرف کم کرے گا۔

منگل کو، صدر ٹرمپ نے عوامی طور پر تسلیم کیا کہ چین پر ان کا 145 فیصد ٹیرف ’بہت زیادہ‘ ہے اور کسی وقت یہ شرح کافی حد تک نیچے آئے گی۔

مزید پڑھیں:

چین نے کہا ہے کہ وہ محصولات جیسے تحفظ پسندانہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے، لیکن اگر امریکا اپنے تجارتی تحفظات کو بڑھانے کا خواہاں ہے تو وہ ’آخر تک لڑنے‘ کے لیے تیار ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے بدھ کے روز باقاعدہ میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ چین جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم اس سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں۔

’اگر امریکا بات کرنا چاہتا ہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں، اگر امریکا واقعی بات چیت سے حل چاہتا ہے تو اسے چین کو دھمکیاں دینا اور بلیک میل کرنا بند کردینا چاہیے اور برابری، احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر بات چیت کرنی چاہیے۔‘

امریکا چین تجارتی جنگ نے عالمی اقتصادی سست روی کا خدشہ بڑھا دیا ہے، اس ہفتے کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنی 2025 کی شرح نمو کی پیش گوئی کو 3.3 فیصد سے کم کر کے 2.8 فیصد کر دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسکاٹ بیسنٹ امریکا امریکی صدر بیجنگ تجارتی جنگ ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ سیکریٹری خزانہ شرح نمو واشنگٹن وال اسٹریٹ

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • جموں و کشمیر کے معاملے پر امریکا کی کوئی پوزیشن نہیں، ترجمان محکمہ خارجہ
  • صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • امریکی محکمہ خارجہ کا اپنے 100 سے زائد دفاتر کو بند کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • سندھ حکومت کا محکمہ تعلیم میں 90 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • صدر ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید ‘مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں نمایاں کمی
  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ