حکومت کو چیتے کی رفتار سے چلنا چاہیے، وہ کچھوے کی چال چل رہی ہے، جسٹس جمال مندوخیل WhatsAppFacebookTwitter 0 21 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:(آئی پی ایس) سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت کو چیتے کی رفتار سے چلنا چاہیے، مگر وہ کچھوے کی چال چل رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کو چیتے کی رفتار سے چلنا چاہیے لیکن وہ کچھوے کی چال چل رہی ہے۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین کی تعیناتی کے لیے تیسری مرتبہ اشتہار دیا گیا ہے، جس پر جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ پہلے 2 مرتبہ اشتہار دینے کا فائدہ کیوں نہیں ہوا؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ شارٹ لسٹ کیے گئے 3 ناموں میں سے پہلے نمبر والے امیدوار کی دہری شہریت نکلی۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ کسی اعلیٰ عہدے پر دہری شہریت کا حامل شخص تعینات نہیں کیا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس اعلیٰ معیار کا بندہ آپ ڈھونڈ رہے ہیں اس کے لیے کچھ تو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ اصل مسئلہ صوبوں کا ہے، وہاں اتھارٹی کام کیسے کرے گی؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صوبوں سے اتھارٹی کے ممبران تعینات ہو چکے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کے پی کے سے فیصل امین کو ممبر موسمیاتی تبدیلی نامزد کیا گیا ہے، جو وزیراعلیٰ کے بھائی ہیں۔ بلوچستان سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ممبر بنایا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان کے رکن کو جانتا ہوں، ان کی اس شعبہ میں کوئی مہارت نہیں ہے۔ پنجاب اور سندھ سے بیوروکریٹس کو ممبر نامزد کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صوبوں کو رابطہ کریں گے کہ ٹیکنوکریٹس کو نامزد کیا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا اتھارٹی کے رولز بن گئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رولز کا مسودہ تیار ہوگیا ہے، منظوری کے لیے وزارت قانون بھیجا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سال 2017 میں قانون بنا، اب تک نہ چیئرمین مقرر ہوا نہ رولز بن سکے۔ صوبوں میں ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سربراہ کیسے تعینات ہوتے ہیں، وہ سب کو علم ہے۔

سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی ذوالفقار یونس نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ پچھلی مرتبہ 752 درخواستیں آئی تھیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن 3 ناموں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ان میں باقی 2 ناموں پر غور کیوں نہیں ہوا؟، جس پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ باقی 2 امیدوار معیار پر مکمل پورا نہیں اترتے تھے۔ کچھ ایسے امیدوار بھی درخواستیں دیتے ہیں، جو بیرون ملک ہوتے ہیں۔ انہیں پاکستان آنے میں وقت لگتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل میاں سمیع الدین نے عدالت کو بتایا کہ یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے۔ خالصتاً پاکستانی ماہر کا ملنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ 2017ء سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی غیر فعال ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟

پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور عام طور پر عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف لیا اور اب تک وہ 7 ماہ سے زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ اُنہوں نے اپنے 7 ماہ کے عرصے میں بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر کے انتظامی معاملات پر زیادہ توّجہ مرکوز کی ہے اور انتظامی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جیسا کہ کیس مینجمنٹ سسٹم میں تبدیلی، جیل اصلاحات، فوجداری مقدمات کی جلد شنوائی وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ میں عوامی سہولت مرکز کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ترجیحات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اُس میں سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی، عدالتی نظام کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ منسلکی، پیپر لیس عدالتی نظام، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت، لا اینڈ جسٹس کمیشن میں غیر سرکاری اراکین کے طور پر ریٹائرڈ ججز کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندگی، عدلیہ میں احتساب کا نظام اور جیل اصلاحات شامل ہیں۔

کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ بدلاؤ ایک اچھا فیصلہ ہے جب کہ کچھ حلقے اس امر پر شاکی نظر آتے ہیں کہ سیاسی حوالوں سے اہم مقدمات جو کہیں نہ کہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ملک میں بے چینی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے لازمی ہیں، اُن پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینی نوعیت کے سیاسی اثرات کے حامل مقدمات اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت آتے ہیں اور اُن کے فیصلوں میں براہِ راست چیف جسٹس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور پھر چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم میں دیے گئے آئینی بینچ کی تشکیل کی جس نے 14 نومبر 2024 سے باقاعدہ سماعتوں کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدالتی اصلاحات کتنی کارگر؟

21 مئی کو جاری کیے گئے سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں 52 فیصد سزائے موت کے مقدمات نمٹا دیے اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اس تیزی سے کام کیا ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔

چیف جسٹس کے 28 اکتوبر 2024 سے لے کر 21 مئی 2025 تک لگ بھگ 7 ماہ کے اندر عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے 238 مقدمات کے فیصلے کیے ہیں جو 454 زیر التوا مقدمات کا 52 فیصد بنتے ہیں۔

جب چیف جسٹس نے حلف لیا تو سزائے موت کی 410 اپیلیں زیر التوا تھیں، بعد میں 44 اور دائر ہوئیں لیکن جلد فیصلوں کی بدولت اس وقت زیر التوا اپیلوں کی تعداد 216 ہے۔

’چیف جسٹس کے پہلے 100 دن‘

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے پہلے 100 دنوں کے اندر عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا وہ الیکٹرانک بیان حلفی یا ای ’ایفی ڈیوٹ‘ کا اجرا اور فوری مصدقہ نقل کا حصول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے 100 دن میں زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی بڑی کمی کی۔ سپریم کورٹ نے 8 ہزار ایک سو چوہتر (8174) مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ چار ہزار نو سو تریسٹھ (4963) نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔

’سپریم کورٹ کے اب تک اہم فیصلے‘

اپنے اثرات کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس وقت تک جو سب سے اہم فیصلہ کیا ہے وہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے جس کو آئینی بینچ نے درست قرار دیا ہے۔ 7 مئی 2025 کو یہ فیصلہ جاری کیا گیا۔

اسی طرح سے نورمقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اہم تھا۔ 20 مئی کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت برقرار جبکہ اغوا کے مقدمے میں سزائے موت کو عمر قید سے تبدیل کردیا۔

’سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار‘

13 مارچ کو سپریم کورٹ نے 1980 سے چلے آ رہے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رولز 1980 پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ کے 4 ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس نے سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔

کمیٹی جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز پر مکمل نظرثانی کا مقصد عدالتی کارروائی کو مزید فعال، مؤثر اور شفاف بنانا تھا۔

ابتدائی طور پر اس کمیٹی نے سپریم کورٹ ججز، سپریم کورٹ رجسٹرار، بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کیں۔ اس کے بعد اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے جس میں سپریم کورٹ رولز کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر مشاورت کی گئی۔

’چیف جسٹس کی غیر ملکی وفود سے ملاقاتیں‘

11 فروری کو آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی جو کہ ملکی تاریخ کے تناظر میں ایک نیا واقعہ تھا کیونکہ اس سے قبل کسی چیف جسٹس نے کبھی آئی ایم ایف وفد سے ملاقات نہیں کی۔ ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ آئی ایم وفد نے کچھ قوانین کے حوالے سے اُن سے بات چیت کی۔ بعد ازاں آئی ایم ایف وفد نے ایک بار پھر چیف جسٹس سے ملاقات بھی کی، اور اُس کے بعد 14 فروری کو اس وفد نے پاکستان بار کونسل سے بھی ملاقات کی۔

17 فروری کو چیف جسٹس نے اٹلی کی سفیر سے ملاقات کی، اس کے بعد 14 اپریل کو ایران اور ترکیے کے سفیروں نے بھی چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ 28 اپریل کو چیف جسٹس سے ایک امریکی وفد نے بھی ملاقات کی۔

چیف جسٹس یحیٰی آفریدی 26 اپریل کو ترکیے اور چین کے دورے بھی مکمل کرکے واپس آئے۔

31 جنوری کو چیف جسٹس نے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی انسانی حقوق سے ملاقات کی، جس میں جوڈیشل بیک لاگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی سالمیت اور آزادی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔

’جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات‘

چیف جسٹس نے گزشتہ ماہ 16 مئی کو بنوں کی ضلعی عدلیہ اور بنوں جیل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قیدیوں سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل دریافت کیے اور اس سے قبل وہ پشاور ہائیکورٹ بنوں بینچ بھی گئے۔

اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں چیف جسٹس نے رحیم یار خان جیل کا دورہ بھی کیا، چیف جسٹس اب تک جیل اصلاحات کے حوالے سے کمیٹیاں قائم کر چکے ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں چیف جسٹس نے پنجاب میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں 9 مئی مقدمات میں ضمانت پر رہا خدیجہ شاہ کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔

جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں میں کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کا جائزہ لیا جائےگا۔

’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور کے تنازعات‘

موجودہ چیف جسٹس کے 7 ماہ سے زیادہ عرصے میں سامنے آنے والے تنازعات کا تعلق زیادہ تر 26ویں آئینی ترمیم سے ہے، وہ چاہے بینچز دائرہ اختیار کا معاملہ ہو یا مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کا معاملہ، اس پر تنازعات سامنے آئے۔

ایسا ہی ایک معاملہ 21 جنوری کو سامنے آیا جب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک بینچ کے سامنے کسٹم ایکٹ کا ایک معاملہ زیرسماعت آیا تو اُس پر سرکاری وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے تھا۔ اُس کے بعد مقدمے کو جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ہٹا دیا گیا تو سوال اُٹھا کہ بینچ کی منظوری کے بغیر یہ اقدام کیسے کیا گیا جس پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو معطل کر کے اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی گئی لیکن بعد ازاں 28 جنوری کو اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لیتے ہوئے اُنہیں بحال کردیا گیا۔

اسی طرح سے 10 فروری کو وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم مقدمے کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن ججز کی تقرری کے عمل کو روک دے۔ لیکن وکلا احتجاج کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹس میں ججز کو تعینات کیا۔

24 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔

26 اپریل کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پرایکشن لینے کی استدعا کی۔ خط پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچایا۔ اس موقع پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اور دیگر قیادت بھی ان کے ہمراہ تھی۔

’سپریم کورٹ اب مرکز نگاہ نہیں‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی تمام پاکستانی میڈیا کا مرکز نگاہ ہوتی تھی اور ملکی میڈیا کی زیادہ تر ہیڈلائنز وہیں سے آتی تھیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملی طور پر 2 حصوں میں بٹ چکی ہے۔ عام نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ جبکہ آئینی نوعیت کے مقدمات اب آئینی بینچ سماعت کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں سزائے موت کے 52 فیصد مقدمات نمٹا دیے

اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اُس طرح سے مرکز نگاہ نہیں جس طرح ان کے پیشرو چیف جسٹسز ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کے زمانے تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر وقت سپریم کورٹ کی جانب دیکھتی تھیں کہ نجانے کب کون سا فیصلہ آ جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

26 ویں آئینی ترمیم wenews جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس سپریم کورٹ سیاسی تاریخ عدالتی اصلاحات عدالتی تاریخ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • لیہ، زائرین کی تیز رفتار بس کو حادثہ، 3 افراد جاں بحق، 38 زخمی
  • لیہ؛ تیز رفتار مسافر بس اُلٹ گئی، 3 افراد جاں بحق، 38 زخمی
  • آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کا پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا دورہ، سکیورٹی و صفائی انتظامات کا جائزہ لیا
  • گھوٹکی: موٹروے ایم 5 پر تیز رفتار ٹرک الٹ گیا، 3 افراد جاں بحق
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا