ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ترقی کی ضامن
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
تبدیلی انسان کی بقاء کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تبدیلی آتی ہے، تاہم موجودہ دور میں ٹیکنالوجی نے تبدیلی کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ ہم اس وقت ڈیجیٹل تبدیلی (Digital Transformation) کے دور سے گزر رہے ہیں، جو دنیا کو تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہماری زندگی، کام کاج اور رہنے سہنے کے طور طریقوں میں ٹیکنالوجی کا انحصار بڑھ گیا ہے۔
ٹیکنالوجی معاشی و پیشہ وارانہ ترقی میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کا موجودہ انقلاب حکومتوں، معاشروں، کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے متعین کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکنالوجی کو ترقی اور خوشحالی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، وہ افراد، ادارے اور ممالک جنھوں نے ڈیجیٹل تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالا، وہ ترقی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہیں۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے کاروبار، حکومتی ادارے اور معاشرتی نظام جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر اپنے طریقہ کار کو تبدیل کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ٹیکنالوجی کے استعمال تک محدود نہیں بلکہ اس کا مطلب اپنے کام کے طریقہ کار، کاروباری حکمت عملی اور ثقافت کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل تبدیلی میں جدید ٹیکنالوجیز جیسے کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیٹا اینالیٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)، مشین لرننگ اور انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) شامل ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کے ذریعے کاروباری ادارے اپنے ڈیٹا کو موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے مختلف امورکو خودکار بناتے ہوئے صارفین کو اعلیٰ معیار کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے اس دور میں اب آئی ٹی کمپنیاں صنعتوں کو بتاتی ہیں کہ دنیا میں آپ کی انڈسٹری کس طرح کام کر رہی ہے اور آپ کو ان سے مسابقت کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اداروں کو کاروباری ماڈل میں جدت اور صنعتی ماحولیات کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرتی ہے۔ روایتی مینوفیکچرنگ اور زراعت کے شعبے میں ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کر کے معاشی ترقی کی رفتار بڑھائی جاسکتی ہے اور موجودہ نظام کو نئے سرے سے تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس میں کاروباری عمل کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں۔
بہت سے افراد اور ادارے وقت پر فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، جب کہ بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی ہمیں یہ صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈیٹا تک فوری رسائی ہوتی ہے، جس سے وقت اور سرمایہ کی بچت کے ساتھ ساتھ درست فیصلے کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کسی آسائش یا شارٹ کٹ کا نام نہیں بلکہ یہ کام کی رفتار کو تیز، محفوظ اور معیارکو بہتر بناتا ہے۔ اس کے لیے آپ کی سوچ، مقصد اور مستقبل کے منصوبوں کا ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
عام غلطی یہ ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کو کاروبار کا صرف ایک حصہ سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ پورے کاروبار کا لازمی جز ہے۔ اس عمل کو پورے کاروباری نظام کے ساتھ جوڑ کر کارکردگی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ عمل آپ کو کاروبار، صارفین اور مارکیٹ کو سمجھنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔
کاروبار میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف کارکردگی میں نمایاں بہتری آتی ہے بلکہ شفافیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے ایک مشہور ریٹیل چین کی ہے، جس نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنی خدمات کو بہتر بنایا بلکہ SAP کے ون اسٹاپ سلوشن کے ذریعے صارفین کو غلطی سے پاک سروسز فراہم کیں۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے مشہور ریٹیل چین کے 26 اسٹورز کو ایک مربوط انوینٹری، پے رول اور شیلفنگ و کوالٹی چیک کے خودکار الرٹ سسٹم سے جوڑ دیا گیا ہے، جس سے کارکردگی کی جانچ، اہداف کا حصول، نئی بھرتیوں، معاوضوں کی ادائیگی اور ملازمین کے فلاح و بہبود کے منصوبوں میں مدد ملی اور کاروبار میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے حوالے سے جرمنی کی سافٹ ویئر کمپنی SAPکے منیجنگ ڈائریکٹر برائے پاکستان، ایران، بحرین اور افغانستان ثاقب احمد کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی پیداوار میں اضافہ اور معاشی ترقی کی ضامن ہے۔
تکنیکی ترقی کے اس دور میں ایک اچھے کاروباری ادارے کا تصور نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال کے ساتھ جڑ گیا ہے، جس کے ذریعے وہ تبدیل ہوتے ہوئے کاروباری منظر نامے کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں۔ ٹیکنالوجی عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جدید سلوشنز فراہم کرتی ہے، جو دنیا سے رابطے کا بہترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری منظر نامے کے مطابق افراد اور بزنسز کو بروقت فیصلہ کرنے، کاروباری حکمت عملی بنانے اور مثبت ماحولیاتی اثرات کو فروغ دینے کے قابل بناتی ہے۔
ایک ترقی پذیر معیشت ہونے کے ناتے پاکستان ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تکنیکی مہارت، روابط کا فروغ اور تعاون کے ذریعے خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت کرسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی آج کے دور میں ترقی کا لازمی جزو بن گئی ہے۔ اس کے ذریعے کاروبار اور ادارے نہ صرف اپنے صارفین کو بہتر خدمات فراہم کر سکتے ہیں بلکہ نئے مواقع بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بدولت کمپنیاں زیادہ موثر انداز میں کام کرسکتی ہیں جب کہ کاروباری عمل کو تیز، سادہ اور کم لاگت بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بھی مختلف شعبے جیسے بینکنگ، ایجوکیشن، ہیلتھ کیئر اور حکومتی ادارے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ موبائل بینکنگ، آن لائن تعلیم اور ٹیلی میڈیسن اس کی چند مثالیں ہیں۔ حکومت اور نجی ادارے اگر مل کر ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دیں تو بہت جلد پاکستان میں بھی معاشی و اقتصادی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان خود کو تیزی سے ڈیجیٹل خطوط پر استوار کرنے یا ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے لحاظ سے دنیا کے دو سو ممالک کی فہرست میں اب پہلے دس ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے، یہ بات ایک تازہ غیر سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے فراہم کرتی ہے ٹیکنالوجی کے کے ساتھ ساتھ کے استعمال کے ذریعے کے مطابق فراہم کر میں بھی کو تیز
پڑھیں:
ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے
ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 15 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
جب سے انسانی تہذیب کا آغاز ہوا ہے، انسان جنگ و جدل کی تلخ راہوں میں الجھا رہا ہے — کبھی زمین کی توسیع کے لیے، کبھی دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے، اور کبھی مظلوموں کو آزادی دلانے کے لیے۔ ابتدائی ادوار میں فتح کا انحصار سپاہیوں کی جسمانی طاقت اور ہتھیاروں کی تیزی پر ہوتا تھا۔ تلواریں، نیزے اور تیر کمان میدانِ جنگ کی پہچان تھے۔ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا کر فیصلہ کرتے تھے کہ کون فاتح ہے، اور اس کا دار و مدار انفرادی دلیری اور طاقت پر ہوتا تھا۔
لیکن جب نویں صدی میں چین میں بارود ایجاد ہوا اور چودھویں صدی میں یورپ میں اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا، تو جنگ کی نوعیت بدلنے لگی۔
بارود کے ذریعے توپ خانے اور بندوقوں نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ تیر و کمان کی جگہ اب توپ اور بندوق نے لے لی اور فوجی ترتیب و حکمت عملی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی۔ نپولین کی جنگوں میں توپخانے، پیادہ فوج اور گھڑ سوار دستوں کا غیر معمولی اشتراک دیکھا گیا۔
بیسویں صدی، بالخصوص عالمی جنگوں کے دوران، جنگی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ ٹینک، آبدوزیں، لڑاکا طیارے اور بالآخر ایٹم بم جیسی ہلاکت خیز ایجادات منظرِ عام پر آئیں۔
1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، جنہوں نے سائنسی ترقی کے تباہ کن پہلو کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ دو لاکھ کے قریب جانیں تلف ہوئیں، اور آئندہ نسلیں بھی ان اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ جنگ اب صرف جسمانی قوت سے نہیں جیتی جا سکتی تھی، بلکہ ٹیکنالوجی کی برتری پورے شہر لمحوں میں مٹا سکتی تھی۔
اس کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ نے کھلی لڑائی کے بجائے ٹیکنالوجیکل مقابلہ بازی کو فروغ دیا۔ سیٹلائٹس، نیوکلیئر آبدوزیں، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، اور جاسوسی ڈرونز نہ صرف دفاع بلکہ خفیہ کارروائیوں کا حصہ بن گئے۔
1991 کی خلیجی جنگ پہلی بار ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی جنگ بنی، جہاں امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے سیٹلائٹ گائیڈڈ میزائلوں اور اسٹیلتھ طیاروں کے ذریعے جنگی کارروائیاں کیں۔
اکیسویں صدی میں جنگی میدان نے نیا موڑ لیا ہے۔ اب فتح کا انحصار صرف زمینی، فضائی یا بحری قوت پر نہیں بلکہ سائبر اسپیس اور خلا میں برتری پر بھی ہے۔ ڈرونز، مصنوعی ذہانت، ہائپر سونک میزائل، اور برقی مقناطیسی ہتھیار جنگی اصولوں کو ازسرنو ترتیب دے رہے ہیں۔ اب ایک انسان سے ہلکا ڈرون ہزاروں میل دور بیٹھے آپریٹر کے ذریعے ایک اہم ہدف کو مکمل درستگی سے ختم کر سکتا ہے — بغیر کسی انسانی خطرے کے۔
اس تیز رفتار تکنیکی تبدیلی کی عملی مثال پاکستان نے 7 مئی 2025 کو بھارتی جارحیت کے جواب میں دی، جب چند منٹوں میں پاکستان نے جدید فضائی دفاعی نظام استعمال کیا اور بغیر پائلٹ ڈرونز اور ہدفی میزائلوں سے بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا، جس نے بھارت کی روایتی فوجی تیاریوں کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ مختصر مگر فیصلہ کن کارروائی اس بات کا ثبوت تھی کہ آج کی جنگیں بڑی فوجی نقل و حرکت کے بجائے رفتار، درستگی اور الیکٹرانک حکمت عملی پر منحصر ہو چکی ہیں۔
دو روز قبل اسرائیل نے ایران پر ایسی ہی ایک منصوبہ بند اور تیز کارروائی کی۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے جبکہ سائبر یونٹس نے ایرانی کمیونیکیشن اور ریڈار نظام کو بیک وقت ناکارہ بنا دیا۔ یہ کارروائی مختصر ضرور تھی، مگر جدید جنگ کے ارتقاء کا ایک نیا باب ثابت ہوئی، جہاں اطلاعاتی جنگ، نگرانی کی صلاحیت، اور درستگی سے نشانہ بنانے کی قوت فوجی طاقت پر غالب آ چکی ہے۔
ان حالیہ واقعات سے ایک بات واضح ہو گئی ہےکہ بہادری، جسمانی طاقت اور براہِ راست تصادم کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ریموٹ کنٹرول سے کی جانے والی کارروائیاں، الگورِدھم پر مبنی جنگ، اور سینسرز پر انحصار نئی حقیقت ہیں۔ میدان میں لڑنے والا سپاہی آج بھی اہم ہے، مگر اب وہ جنگی نظام کے ایک پیچیدہ اور وسیع تر پہیے کا محض ایک پرزہ ہے، جسے انجینئرز، ڈیٹا سائنسدانوں اور خفیہ اداروں کے ماہرین چلاتے ہیں۔
تاہم اس تمام ترقی کے باوجود، ایک ناقابلِ تردید حقیقت اب بھی باقی ہے — جنگ تباہی ہے۔ چاہے وہ تلواروں سے لڑی جائے یا سیٹلائٹس سے، نتیجہ ہمیشہ موت، نقل مکانی اور بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مہذب معاشرے جو امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ جنگ کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ معیشتیں تباہ ہو جاتی ہیں، نسلیں متاثر ہوتی ہیں، اور سماجی ڈھانچے بکھر جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی برتری فوجی کامیابی تو دے سکتی ہے، مگر جنگ کے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتی۔
ہمارے وقت کا سب سے بڑا تضاد یہی ہےکہ وہی سائنس جو خلا میں سیٹلائٹ بھیج سکتی ہے، وہی ایک میزائل کو شہر برباد کرنے کے لیے رہنمائی دے سکتی ہے۔ انسانیت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ جنگ کیسے جیتی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسے کیسے روکا جائے۔
تاریخ نے ہمیں بارہا سکھایا ہے کہ کوئی قوم، چاہے جتنی بھی طاقتور ہو، جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔
ڈرون حملوں اور سائبر حملوں کے اس دور میں عالمی قوتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پائیدار امن صرف طاقت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ سفارتی سنجیدگی، باہمی احترام، اور بین الاقوامی تعاون بھی لازم ہے۔ بصورت دیگر، ہم اپنی عظیم ایجادات کو اپنے عظیم ترین افسوس کا سبب بنا لیں گے۔
ماضی ہمیں خون سے لکھے اسباق دے چکا ہے، اور حال ہمارے سامنے ایک آئینہ ہے، جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کیا بن سکتے ہیں۔ اگر ہم نے تاریخ کی تنبیہات کو نہ سنا، تو چاہے مستقبل کتنا ہی روشن کیوں نہ ہو، وہ اسی تاریکی میں ڈوبا رہے گا جو انسانیت پر تلواروں کے دور سے مسلط ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران: دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ پر اسرائیلی حملے کے بعد پیدوار جزوی معطل مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم