جرمنی میں نسل پرستی، استثنا نہیں معمول
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2025ء) فاطمہ برلن میں ایک نرسری اسکول ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کام پر جاتے ہوئے صبح ہی سے امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے، ''‘‘دوسرے ڈرائیور مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘
وہ اسٹائلش لباس پہنتی ہیں اور سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ ''میری نرسری ٹیچنگ ٹریننگ پروگرام کی ایک انسٹرکٹر نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ ان کی نظر میں سر پر اسکارف پہننا حفظانِ صحت کے خلاف ہے۔
‘‘فاطمہ نے اپنی ٹریننگ بہترین نمبروں کے ساتھ مکمل کی لیکن پھر بھی انہیں ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ حالانکہ جرمنی بالخصوص برلن میں نرسری اسکول ٹیچرز کی شدید ضرورت ہے، مگر انہیں لگتا ہے کہ اسکارف پہننے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
ہانا بھی برلن میں ہی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں کچھ علاقوں میں جانے کی ہمت ہی نہیں کرتی۔
‘‘جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ میٹرو میں سفر کرتی ہیں تو ان کے بچوں اور ان کےسیاہ بالوں کی وجہ سے انہیں اکثر ''احمقانہ جملوں‘‘ کا سامنا ہوتا ہے۔ ''لوگ کہتے ہیں کہ اپنے ملک واپس جاؤ۔‘‘
’’نسل پرستی اتفاقیہ نہیں ہوتی‘‘جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ کی جانب سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کی شریک مصنفہ آئلین مینگی کہتی ہیں، ''امتیازی سلوک کے واقعات اتفاقیہ نہیں ہوتے۔
‘‘ یہ جرمنی میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے حوالے سے کی جانے والی سب سے جامع تحقیقات میں سے ایک ہے، جس میں ملک بھر سے تقریباً دس ہزار افراد شامل کیے گئے۔مارچ 2025 کی اس رپورٹ کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کو ظاہری طور پر مسلمان یا تارکِ وطن لگتے ہیں، وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، خواہ وہ حقیقتاً تارکِ وطن ہوں یا نہ ہوں۔
کچھ لوگ اسکارف پہننے کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں، جیسے فاطمہ، اور کچھ لوگ اپنی جلد کے رنگ یا ہانا کی طرح اپنے سیاہ بالوں کی وجہ سے، ان امتیازی رویوں کا سامنا کرتے ہیں۔اس تحفیق میں شامل نصف سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں ماہانہ کم از کم ایک بار امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نسل پرستی مزید واضح ہوتی جا رہی ہےمسلمان خواتین اور سیاہ فام افراد اس رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 60 فیصد سے زائد لوگ روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا باقاعدگی سے شکار ہوتے ہیں۔ ریسزم مانیٹر کے سربراہ جہان سینانوغلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمن معاشرے میں امتیازی سلوک کے تجربات متنوع انداز سے تقسیم ہیں۔ نسل پرستی اب مزید واضح شکل اختیار کر رہی ہے اور معاشرتی رویوں کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہے۔‘‘سنانوغلو نے تحقیق کے نتائج کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جرمن معاشرے میں اکثریت سمجھتی ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتیں بہت زیادہ سیاسی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض سماجی گروہوں کو اب بھی سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘ سینانوغلو کے مطابق جرمنی کی آبادی کے پانچویں حصے میں نسل پرستانہ نظریات جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔
نسل پرستی نفسیاتی تکلیف کا باعث بنتی ہے سنانوغلو کہتے ہیں کہ تعصب اور سماجی بے دخلی کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ''امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا سامنا جتنا زیادہ ہوگا، بے چینی اور ڈپریشن اتنا ہی بڑھے گا۔ سماجی اداروں پر اعتماد بھی کم ہوتا جاتا ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے مصنفین نے تنقید کی کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں اکثر نسل پرستی کو ایک معمولی مسئلہ قرار دے کر نظرانداز کر دیتی ہیں۔
ریسرچ سینٹر کی سربراہ نائیکا فوروٹان کہتی ہیں، '' جرمنی میں ہر تیسرا خاندان تارکینِ وطن کی تاریخ سے جڑا ہے۔ امتیازی تجربات معاشرے کے ایک بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘وفاقی کمشنر برائے امتیازی رویہ فیردا آٹامن کے مطابق '' یہ تحقیق واضح طور پر سیاست دانوں کے لیے ایک ٹاسک ہے۔ جرمنی میں امتیازی رویوں کے انسداد سے متعلق قوانین انتہائی کمزور ہیں۔ اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو بہتر تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘
ع ت، ک م (ہانس فائفر )
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امتیازی سلوک نسل پرستی کی وجہ سے کا سامنا کے مطابق ہوتا ہے
پڑھیں:
ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
اسلام ٹائمز: یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!) تحریر: سیدہ زہراء عباس
ظلم کا لفظ کم پڑ گیا ہے۔ غزہ اور فلسطین میں ایسے مظالم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کو سن کر شرمائے گی۔ ظالم صہیونی اپنی درندگی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، لیکن۔۔۔۔ نہ کوئی روکنے والا ہے، نہ پوچھنے والا۔ خالی باتیں، جلوس، ریلیاں، کانفرنسیں۔۔۔۔ اور عمل؟ آہ! کیسا ظلم ہے یہ کہ روحیں کانپ جاتی ہیں، دل دہل جاتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک اسکول میں موجود بےگھر فلسطینی خاندانوں پر جب اسرائیلی فضائی حملہ ہوا، تو ایک بچے کا بازو اس کے جسم سے الگ ہوگیا۔۔۔۔ وہ بچہ اذیت میں تڑپتا رہا، بلکتا رہا، لیکن انصاف ساکت و صامت رہا۔
مسلمانوں! کیا تمہیں ان معصوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا بچوں کی کٹی ہوئی لاشیں، ان کی سسکیاں، ان کی رُکتی سانسیں تمہارے دل پر دستک نہیں دیتیں۔؟ (رونے کی بھی ہمت ختم ہوچکی ہے) ظلم پر ظلم۔۔۔۔ دھماکے۔۔۔ تباہی۔۔۔ بھوک، پیاس، قحط۔۔۔۔ کون سی ایسی اذیت باقی رہ گئی ہے، جس سے وہ نہیں گزرے۔؟ الفاظ بے بس ہیں۔ کبھی کسی ماں کو گولی لگی، کہیں کوئی بچہ دم توڑتا رہا۔۔۔۔ اور غزہ کے بچے سوال کرتے ہیں: "امتِ مسلمہ کہاں ہے۔؟" معصوم لاشیں ہم سے پوچھتی ہیں: "مسلمانوں، تم کب جاگو گے۔؟" اوہ مجالس و ماتم برپا کرنے والو! یہ ظلم تمہیں نظر نہیں آرہا۔؟ کیا یہی درسِ کربلا ہے۔؟ کیا یہی پیغامِ مولا حسینؑ ہے۔؟
کربلا تو ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے، مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ مجالس میں رو دھو کر، ماتم کرکے، چند لوگوں میں نذر و نیاز بانٹ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا؟ کہ ہم نے مولا کو راضی کر لیا۔ نہیں! کربلا کو سمجھو۔۔۔ اگر مقصدِ کربلا سمجھ آ جاتا، تو ہم آج ہر ظالم کے خلاف اور ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ "ظالم کے آگے خاموش رہنا، ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے!" امام حسینؑ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ آج ظلم کی سیاہ چادر غزہ کے افق پر چھا چکی ہے۔ غزہ میں تقریباً 2.1 ملین انسان رہ رہے ہیں۔ ان میں سے 96%، یعنی 2.13 ملین افراد شدید قحط اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔
4700,000 ہزار افراد ایسے ہیں، جو مکمل فاقے اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 71,000 بچے اور 17,000 مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور موت کے خطرے میں ہیں۔ غزہ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس مظلوم خطے میں لوگ درد، ظلم، تباہی، بھوک، افلاس، قحط میں گھرے ہیں بچے، عورتیں، بوڑھے بزرگ سب اپنے بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کی چیخ و پکار عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ آج جب پوری دنیا میں آزادی اور حقوق انسانی اور جمہوریت کی بات ہوتی ہے، کسی کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم نظر نہیں آرہے، کہاں ہیں وہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار؟ جس کا قیام اور مقصد انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔
یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!)