UrduPoint:
2025-06-09@19:26:13 GMT

جرمنی میں نسل پرستی، استثنا نہیں معمول

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

جرمنی میں نسل پرستی، استثنا نہیں معمول

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2025ء) فاطمہ برلن میں ایک نرسری اسکول ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کام پر جاتے ہوئے صبح ہی سے امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے، ''‘‘دوسرے ڈرائیور مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘

وہ اسٹائلش لباس پہنتی ہیں اور سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ ''میری نرسری ٹیچنگ ٹریننگ پروگرام کی ایک انسٹرکٹر نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ ان کی نظر میں سر پر اسکارف پہننا حفظانِ صحت کے خلاف ہے۔

‘‘

فاطمہ نے اپنی ٹریننگ بہترین نمبروں کے ساتھ مکمل کی لیکن پھر بھی انہیں ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ حالانکہ جرمنی بالخصوص برلن میں نرسری اسکول ٹیچرز کی شدید ضرورت ہے، مگر انہیں لگتا ہے کہ اسکارف پہننے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ہانا بھی برلن میں ہی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں کچھ علاقوں میں جانے کی ہمت ہی نہیں کرتی۔

‘‘

جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ میٹرو میں سفر کرتی ہیں تو ان کے بچوں اور ان کےسیاہ بالوں کی وجہ سے انہیں اکثر ''احمقانہ جملوں‘‘ کا سامنا ہوتا ہے۔ ''لوگ کہتے ہیں کہ اپنے ملک واپس جاؤ۔‘‘

’’نسل پرستی اتفاقیہ نہیں ہوتی‘‘

جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ کی جانب سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کی شریک مصنفہ آئلین مینگی کہتی ہیں، ''امتیازی سلوک کے واقعات اتفاقیہ نہیں ہوتے۔

‘‘ یہ جرمنی میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے حوالے سے کی جانے والی سب سے جامع تحقیقات میں سے ایک ہے، جس میں ملک بھر سے تقریباً دس ہزار افراد شامل کیے گئے۔

مارچ 2025 کی اس رپورٹ کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کو ظاہری طور پر مسلمان یا تارکِ وطن لگتے ہیں، وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، خواہ وہ حقیقتاً تارکِ وطن ہوں یا نہ ہوں۔

کچھ لوگ اسکارف پہننے کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں، جیسے فاطمہ، اور کچھ لوگ اپنی جلد کے رنگ یا ہانا کی طرح اپنے سیاہ بالوں کی وجہ سے، ان امتیازی رویوں کا سامنا کرتے ہیں۔

اس تحفیق میں شامل نصف سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں ماہانہ کم از کم ایک بار امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نسل پرستی مزید واضح ہوتی جا رہی ہے

مسلمان خواتین اور سیاہ فام افراد اس رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 60 فیصد سے زائد لوگ روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا باقاعدگی سے شکار ہوتے ہیں۔ ریسزم مانیٹر کے سربراہ جہان سینانوغلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمن معاشرے میں امتیازی سلوک کے تجربات متنوع انداز سے تقسیم ہیں۔ نسل پرستی اب مزید واضح شکل اختیار کر رہی ہے اور معاشرتی رویوں کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہے۔

‘‘

سنانوغلو نے تحقیق کے نتائج کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جرمن معاشرے میں اکثریت سمجھتی ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتیں بہت زیادہ سیاسی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض سماجی گروہوں کو اب بھی سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘ سینانوغلو کے مطابق جرمنی کی آبادی کے پانچویں حصے میں نسل پرستانہ نظریات جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔

نسل پرستی نفسیاتی تکلیف کا باعث بنتی ہے سنانوغلو کہتے ہیں کہ تعصب اور سماجی بے دخلی کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ''امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا سامنا جتنا زیادہ ہوگا، بے چینی اور ڈپریشن اتنا ہی بڑھے گا۔ سماجی اداروں پر اعتماد بھی کم ہوتا جاتا ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے مصنفین نے تنقید کی کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں اکثر نسل پرستی کو ایک معمولی مسئلہ قرار دے کر نظرانداز کر دیتی ہیں۔

ریسرچ سینٹر کی سربراہ نائیکا فوروٹان کہتی ہیں، '' جرمنی میں ہر تیسرا خاندان تارکینِ وطن کی تاریخ سے جڑا ہے۔ امتیازی تجربات معاشرے کے ایک بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘

وفاقی کمشنر برائے امتیازی رویہ فیردا آٹامن کے مطابق '' یہ تحقیق واضح طور پر سیاست دانوں کے لیے ایک ٹاسک ہے۔ جرمنی میں امتیازی رویوں کے انسداد سے متعلق قوانین انتہائی کمزور ہیں۔ اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو بہتر تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘

ع ت، ک م (ہانس فائفر )

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امتیازی سلوک نسل پرستی کی وجہ سے کا سامنا کے مطابق ہوتا ہے

پڑھیں:

نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے

قومی ٹیم کے نوجوان اوپنر صائم ایوب بھی اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر بول اُٹھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے یوٹیوب پر جاری کردہ خصوصی عید شو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جارح مزاج اوپنر صائم ایوب نے ہوسٹ محمد حارث کے ساتھ مزاحیہ واقعہ شیئر کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ 

بائیں ہاتھ کے بلےباز بتایا کہ انجری کے بعد قومی ٹیم اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں واپسی ہوئی تو فارم میں نہیں تھا، ایسے میں ایک میسج آیا، اس پیغام میں لکھا تھا کہ نو لُک شاٹ کی طرح کہیں نہ نظر آنے والا کھانا بھی کھارہے ہیں کیونکہ اب چھکے نہیں لگ رہے؟۔

مزید پڑھیں: وسیم اکرم کا مجسمہ دیکھ کر میمز کا طوفان اُمڈ آیا

صائم ایوب نے کہا کہ مجھے اس میسج پر غصہ نہیں آیا بلکہ خوب ہنسی آئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ ہمیں محبت اور سپورٹ کرتے ہیں، انہیں فکر ہوتی ہے اور بات کرتے ہیں، اس لیے ایسی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُسے مثبت انداز میں لیتا ہوں۔ 

مزید پڑھیں: بابر، رضوان، شاہین کا مستقبل کیا؟ سابق کرکٹر نے بتادیا

جارح مزاج اوپنر نے کہا کہ میں نے اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید کو کبھی منفی انداز میں نہیں لیا، یہ لوگوں کے پیار دکھانے کا طریقہ ہے اور یہی اسٹورک میری انٹرنیشنل کرکٹ میں پہنچان کا سبب بھی بنا ہے۔
 

 

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ملک کے بیشتر شہروں میں سورج آگ اگلتا رہا، اسلام آباد و لاہور میں بھی معمول سے زیادہ گرمی
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟