وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول ایگرمینٹ طے پاگیا ہے، مخالفین نے ڈھنڈورے پیٹے کہ اب آیا منی بجٹ، لیکن الحمدللہ، منی بجٹ نہیں آیا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ عرصے میں مہنگائی، دہشت گردی سمیت کئی چیلنجز کا ہم نے بطور قوم سامنا کیا، بالخصوص عوام الناس نے مشکلات برداشت کیں، اگر ان کی قربانیاں نہ ہوتیں تو آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ ناممکن تھا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر تجارت سمیت تمام متعلقہ وزرا، اداروں اور ان کے سربراہوں، بالخصوص آرمی چیف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اپنا حصہ ڈالا، آپ سب کی محنت نہ ہوتی تو یہ معاہدہ اتنی جلدی نہ کرپاتے۔وزیراعظم نے کہا کہ کپتان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، 11 لوگوں کی ٹیم میں ایک کپتان ہوتا ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں محصولات کی وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا.

مہنگائی کی شرح میں تاریخی کمی آئی۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں کھربوں روپے کے ٹیکس کے مقدمات سالوں سے زیر التوا پڑے ہیں، اس میں قصور کس کا ہے. عدالتوں کا یا ایف بی آر کا، یہ تو وقت طے کرے گا. آپ سوچیں کہ حکومت کی کوششوں سے چند ہفتوں میں 34 ارب روپے خزانے میں آئے، اب ہم نے تمام تر توجہ ان مقدمات کو چلانے پر مختص کر دی ہے، تاکہ یہ پیسہ قومی خزانے میں آسکے اور قطرہ قطرہ کرکے سمندر بن جائے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن پر تیزی سے کام جاری ہے. اب جو ٹربیونلز کی ہائرنگ ہورہی ہے، اس میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور کارپوریٹ وکلا کو لایا جارہا ہے. مارکیٹ سے مسابقت پر ایسے لوگوں کو لایا جارہا ہے. یہ سب سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں کسی سفارش کے بغیر میرٹ پر کیا جارہا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ عدالتوں میں ٹیکس مقدمات کی پیروی کے لیے ایف بی آر کی جانب سے او ایس ڈی افسران کو بھیجا جاتا تھا. اب ہم خود اس کی نگرانی کے لیے ایک قدم آگے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی چوری کے معاملے میں شوگر سیکٹر کو میں نے خود منتخب کیا ہے.گزشتہ سال اور رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ میں 12 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کی وصولی کا فرق ہے. یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سیلز ٹیکس شوگر اندسٹری سے بڑھ کر ملا ہے  اور مالی سال کے اختتام پر 60 ارب روپے اضافی سیلز ٹیکس وصول ہونے کی توقع ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

یہ عامل اور جادوگر

لغات عرب میں لفظ ’’جن‘‘ کے معنی پوشیدہ اوجھل بتائے گئے ہیں لیکن اس میں بالکل ’’نہ دکھائی‘‘ دینے سے زیادہ کم کم اورکبھی کبھی دکھائی دینے کے ہیں چنانچہ سانپ کو بھی ’’جان‘‘ کہا گیا ہے حالانکہ سانپ کا اپنا اصلی نوعی نام ’’حثہ‘‘ ہے لیکن کم کم دکھائی دینے کی وجہ سے ’’جان‘‘ کہا گیا ہے۔

لفظ’’جن‘‘ صرف عربی لفظ نہیں بلکہ آریائی زبانوں میں بھی تقریباً انھی معنی میں ہے، اس سے بے شمار الفاظ بنتے ہیں جیسے جان (روح) جون، جیونی ، جیون، جنم جنماتر، جانی وغیرہ… چنانچہ لفظ جنگل بھی اسی سے ہے۔ جنگل خودرو، بے ترتیب اور ہر قسم کے پیڑ پودوں پر مشتمل ہوتا ہے اور باغ باترتیب پھل دار اور زیادہ تر انسانوں کا لگایا گیا ہوتا ہے، مطلب یہ خودرو نہیں ہوتا۔

 پشتو میں جو لڑکی بالغ ہوکر پردے میں چلی جاتی ہے، اسے جینئی کہتے ہیں۔ انگریزی میں جینز، جینٹک جسے الفاظ بھی یہی معنی رکھتے ہیں یعنی ایک ایسی چیز جو موجود تو ہو مگر کھلے عام نظر نہ آتی ہو، جنون بھی ایسا مرض جو دکھائی نہیں دیتا۔

گوشت خور شکاری پہلے تو قدرتی اور ان گھڑ پتھروں سے ہتھیار کا کام لیتا رہا پھر اس نے پتھر کے ہتھیار تراشنا اور بنانا شروع کیے تو پتھروں کی رگڑ سے ’’آگ‘‘ دریافت کی جو اس زمانے میں موجودہ ایٹمی ایجاد سے کچھ کم ایجاد نہیں تھی اور اس پر آج ہی کے جوہری ملکوں کی طرح ’’مخر‘‘ بھی وہیں سے شروع ہوا اور تاریخ میں تو یہی آگ اورآتش ہتھیار ہی بالاتری کی بنیاد رہے ہیں، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے بنائے جاتے پھر آگ کے ہتھیار پھر بارود، ڈائنامائیٹ اوراب ایٹم سب کے سب آتشی ہیں ۔

کائنات باقاعدہ ایک نظام، ایک قانون، ایک پروگرام کے تحت چل رہی ہے ‘ اس کائنات کی بنیاد تخلیق وتکوین اور ارتقاء کی بنیاد ’’ ازواج‘‘ پر ہے۔ اگرکوئی چیز اس کائنات میں مثبت ہے تو اس کے ساتھ اس کا منفی یقینا ہوگا۔

اور اس کائنات کاسب کچھ منفی اور مثبت کے جوڑوں پر قائم ہے، چل رہا ہے اورآگے بڑھ رہا ہے، کوئی پیدائش کوئی حرکت اورکوئی کام منفی مثبت کے ملانے اور یکجائی کے بغیر ممکن نہیں ہے اوراس پوری کائنات کی بنیاد جس جوڑے پر قائم ہے وہ ’’مادے‘‘ اور توانائی کا زوج ہے۔

مادہ جو پانچ انسانی حواس کے اندر ہے لیکن توانائی انسانی حواس سے باہر ہے مثلاً انسان یا تمام جانداروں کاجسم تو مادہ ہے، مادے سے بنتا ہے لیکن زندہ یا متحرک اس توانائی سے ہے جسے آپ روح کہیں، یا جان کہیں… جب تک ان دونوں کا ملاپ جاری رہتا ہے، وہ زندہ ہوتا ہے اور جب ’’جان‘‘ یا توانائی ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو مادی جسم میں اتنی بھی قوت نہیں رہتی کہ خود کو گلنے سڑنے اور مٹی میں ملنے سے بچا سکے اور وہ ’’جان‘‘ پھر نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی دیتی۔ 

اسے ہم مادی جسم کی وساطت سے جانتے تو ہیں لیکن اپنے پانچ حواس میں نہیں لاسکتے۔ اگر وہ زندہ وجود میں موجود بھی ہو تو ہم اس کا پتہ صرف اس جسم کی وساطت سے، اس کے کام سے اورحرکات وسکنات سے تو لگا سکتے ہیں لیکن براہ راست پتہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا ہے، کہاں ہے اورکیسی ہے۔ دوسری مثال ہم بجلی سے لے سکتے ہیں، بجلی کا کرنٹ نہ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی اور تب تک وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا جب تک اسے تاروں، کھمبوں، بلبوں، مشینوں اورآلات کا تعاون حاصل نہیں ہوتا اور تار کھمبے، بلب، مشین اور آلات بھی بے جان رہتے ہیں، جب یہ توانائی کا کرنٹ ان کے ساتھ مل نہیں جاتا یعنی دونوں کا ملاپ ضروری ہے۔

مطلب یہ کہ اس کائنات میں کوئی بھی تخلیق وتکوین حرکت ، نشوونما اور ارتقاء منفی اور مثبت کے ملاپ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آگ بھی کوئی قائم بالذات چیز نہیں ہے، اس کی پیدائش بھی ’’رگڑ‘‘ سے ہوتی ہے، اگر ایندھن نہ ہو تو آگ نہ پیدا ہوسکتی ہے، نہ زندہ رہ سکتی ہے ۔ ہمارے ہاں عامل اور جادوگر قسم کے لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس نظر نہ آنے والی قوتیں ہیں جنھیں وہ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔

ہمارے جادوگر لوگ موکلات کو پلک جھپکنے میں حاضر غائب کرتے ہیں بلکہ دوسری شکلیں بھی اختیار کرواتے ہیں، ان سے بڑے بڑے کارنامے کرواتے ہیں اور وہ بھی اتنے بااختیار اور طاقت ور ہیں کہ جب چاہیں اپنے کھیل تماشے دکھانے لگتے ہیں، یوں چالاک انسان سادہ لوح انسانوںکو طرح طرح سے پریشان کرتے، ستاتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اپنی تمام تر قوت کے ساتھ موجود ہے اورگھاس کا ایک چھوٹا پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا اور عامل وغیرہ کہتے ہیں اور کراتے ہیں، یہ سب کچھ افسانے اورکاروباری ہتھکنڈے ہیں ۔

میں نے ایسے کئی عاملوں کو چیلنج کیا ہے جو خاصے مشہور ہیں اور اپنے قبضے میں سیکڑوں ان دیکھی شکتیاں رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ تم اپنے کالی شکتیوں کو آزمالو لیکن ایک صاحب ایمان مسلمان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن کوئی بھی سامنے نہیں آہا۔ اوراب اس کالم کے ذریعے بھی وہی چیلنج دہرا رہا ہوں کہ کوئی ہے تو سامنے آئے…

متعلقہ مضامین

  • یہ عامل اور جادوگر
  • فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں، لیکن؟ وزیرِاعظم اٹلی
  • ایف بی آر کی بدانتظامی سے قومی خزانے کو 397 ارب کے نقصان کا انکشاف
  • ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم: وزیراعظم نے ایف بی آر میں ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری دیدی
  • ٹیکس بیس میں اضافے اور غیر رسمی معیشت کے خاتمے سے ہی عام آدمی کیلئے ٹیکس میں کمی کے ہدف کا حصول ممکن ہوگا،ایف بی آر کی جاری اصلاحات کے ثمرات کی بدولت معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • ایف بی آر کی بدانتظامی سے قومی خزانے کو 397ارب کے نقصان کا انکشاف
  • آئی ایم ایف نے 4 فیصد اضافی سیلز ٹیکس ختم کرنے کی اجازت دینے کے لیے کڑی شرط رکھ دی
  • آئی ایم ایف نے وزارت توانائی کا انرجی پیکج مسترد کر دیا
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • آئی ایم ایف نے پاکستان سے ایک اوربڑا مطالبہ کردیا