زرمبادلہ کے ذخائر اور معیشت کی سمت
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
ان دنوں زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت کو قدرے حوصلہ افزا قرار دیا جا رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر جتنے بھی زیادہ ہوں اس وقت اس کے منفی اثرات زیادہ معلوم دے رہے ہوتے ہیں جب درآمدات کی مالیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ایسی صورت میں معمول کے مطابق زرمبادلہ کی سطح بھی معیشت کے استحکام کو ناکام کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کبھی دو ماہ اور کبھی 4 ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر اس کی سطح میں کمی آ جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی معیشت پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ملکی کرنسی اپنے حواس کھو کر نیچے گرنے لگتی ہے اور ڈالر کو پَر لگ جاتے ہیں اور غربت کی کھائی وسیع ہوتی چلی جاتی ہے جس میں غربا ہی بڑی تعداد میں گرتے چلے جاتے ہیں۔
غربت میں کمی لانے کے لیے بہت سے ممالک اپنے غریب عوام کے لیے لاتعداد فلاحی، معاشی منصوبے شروع کر دیتے ہیں البتہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی سطح پر بہت سے ترقیاتی، فلاحی پروجیکٹ پر کام شروع کیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ غریب عوام کو چند ماہ یا ایک دو سال کے لیے روزگار فراہم کیا جائے تاکہ ان کی غربت میں کمی لائی جاسکے۔ انھی دنوں ہندوستان میں بھی کئی تعلیمی، فلاحی منصوبے شروع کیے گئے۔
امریکا کے ساتھ کئی جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے معاہدے ہوئے اور ان کے لاکھوں نوجوانوں نے جدید دورکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کی اور بیرون ملک لاکھوں کی تعداد میں پھیل گئے اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتے رہے۔
پاکستان میں گزشتہ ہفتے تک مرکزی بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈیڑھ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے تھے جسے حکومت نے نہایت ہی اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے معیشت کو استحکام بخشنے کا ذریعہ بتایا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
گزشتہ برس 11 اکتوبر کی بات ہے جب یہ معلوم ہوا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 11 کروڑ13 لاکھ ڈالر سے زائد ہیں جب ہی حکومت نے کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ اب تقریباً 6 ماہ بعد یقینی طور پر قرض بھی ادا ہوتے رہے اورکئی ملین ڈالرزکا وقتاً فوقتاً اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ مثلاً 17 جنوری 2025، 276 ملین ڈالر قرض ادا کیا گیا اور ماہ جنوری کے آخر میں 46 ملین ڈالرز کا اضافہ بھی ہوا۔
یہ گزشتہ برس اکتوبر کی 11 تاریخ کی بات ہے جب پاکستانی حکام بھی آئی ایم ایف کے بیانیے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی معیشت کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ درست سمت میں جا رہی ہے کیونکہ اس سے قبل 26 ستمبر کو آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ معیشت درست سمت میں جا رہی ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ حکومت امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کی مدد کر رہی ہے، اس کے ساتھ ہی 7 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکیج ریلیف کی بھی منظوری دی گئی۔
امیروں سے ٹیکس لینے کی بات آئی ایم ایف نے کہی تو شاید درست ہی کہی ہوگی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کتنا ہی تسلی بخش قرار دیا جائے اور معیشت کو درست سمت کی جانب گامزن کہا جائے لیکن درآمدات میں اضافہ ساری سمت کو غلط رخ پر ڈال سکتا ہے، کیونکہ ڈالر ریٹ میں اگرچہ بہت کم اضافہ ہو رہا ہے لیکن پھر بھی یہ معمولی اضافہ خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی طرف سے بہت سی شرائط کو من و عن پورا کرنے کا تقاضا اور درآمدات بھی بڑھ رہی ہیں۔ مثلاً جولائی تا فروری 2025 کی کل درآمدی مالیت 37 ارب 87 کروڑ46 لاکھ ڈالرز گزشتہ مالی سال کے اسی مدت میں 35 ارب 19 کروڑ89 لاکھ روپے کی درآمدات کے ساتھ 7.
اب آئی ایم ایف نے کاروں کی درآمد پر ٹیکس اور دیگر کسٹم ڈیوٹیز اور ٹیرف میں کمی لانے کا کہہ دیا ہے لہٰذا امپورٹ بل اب بڑھتا چلا جائے گا لہٰذا حکومت بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرے تاکہ معیشت کے درست سمت میں جانے کے عمل کو قدغن نہ لگ جائے۔ اس کے ساتھ ڈالر کو بھی پَر لگ جاتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زرمبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف اس کے ساتھ کے لیے رہا ہے تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان اسٹیل کی نجکاری ملکی معیشت کیلیے نقصان دہ ہے ‘ منعم ظفر خان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے کہا ہے کہ ملک کے واحد فولاد ساز ادارے پاکستان اسٹیل کی نجکاری ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے،اسٹیل مل میں پہلے بے تحاشا سیاسی بھرتیوں کے سبب اسے تباہی کے کنارے پر دھکیل دیا گیا اور آج نجکاری کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مزدور اور کسان اپنی بے لوث جد و جہد کے ذریعے ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر ان کو اس کا صلہ نہیں ملتا اور مزدور زبوں حالی کاشکار رہتے ہیں،صنعتی اداروں میں ایسے افراد کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے جو اسلامی تحریک اور اس کے نظریات کے فروغ کو آگے بڑھائیں اوراپنا کردار ادا کریں، پاشاگل کی جدو جہد اور کردار اس مشن کو آگے بڑھانے کی روشن مثال ہے وہ مزدور تحریک کی جان اور درخشندہ ستارہ تھے اس مشن کو آگے بڑھانے والوں نے ہی اسلامی تحریک کو مزدوروں میں کا میابی سے ہمکنار کیا اور سرخ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کاراستہ روکا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پروگرام آرگنائزنگ کمیٹی شہید پاشا گل،پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ (وی ٹرسٹ) کے اشتراک سے ’’پاشا احمد گل۔مزدور تحریک کا لازوال کردار‘‘ کے عنوان سے ممتازمزدور رہنمااور پاکستان اسٹیل کی ٹریڈ یونین پاسلو اور آفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ’’پاشا احمد گل کے23 ویں یوم شہادت‘‘ کے موقع پر منعقدہ’’تقریب‘‘سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں شرکاء کی جانب سے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کرے جوکرپشن، چوریوں اور بد انتظامیوں کی تحقیقات کرے اور اسٹیل مل کے دوبارہ فعال ہونے کا قابل عمل منصوبہ تیارکرے،مل کی بندش سے پیدا ہونے والے مالی نقصانات کا آزادنہ آڈٹ کرایا جائے اور اس کی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائے،ملک کے قومی اداروں کی نجکاری یا بندش پارلیمنٹ کے فیصلوں سے مشروط کی جائے،مل کو دوبارہ فعال کرنے کے عمل میں ملازمین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ شفاف اور قابل قبول فیصلے ہوں،اسٹیل ٹاؤن میں گیس، پانی، بجلی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات بحال کی جائیں،گلشن حدید فیز 1اور 2میں پاکستان اسٹیل گزشتہ 45سال سے پانی فراہم کر رہا تھا اب اس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے اور گزشتہ 4ماہ سے پانی کی فراہمی معطل ہے، لہٰذا پاکستان اسٹیل فوری طور پر پانی کی فراہمی کے نظام کو بحال کرے۔ منعم ظفر خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد نے ہمیشہ تحریک کے مقاصد کے حصول کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، اسی راہ میں پاشا احمد گل نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس بات کو ثابت کیا کہ عقیدے کی بنیاد پر جان تو دی جاسکتی ہے سر نہیں جھکایا جا سکتا، آج ہم اس شہر میں جس جگہ گھڑے ہیں اس میں پاشا گل اور ان جیسے دوستوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ظلم کے نظام کو بد لنے کے لیے 84سال سے برسر پیکار ہے اس لیے آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہوں اسلامی تحریک سے وابستہ رہیں اس لیے کہ نظریے کے ساتھ مضبوط کمنٹ منٹ رکھنے والوں کو اللہ کبھی مایوس نہیں کرتا۔قرار داد میں مزید مطالبہ کیا گیا کہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور سہولیات بحال کی جائیں،ریٹائرڈ ملازمین کے تمام واجبات بشمول گریجوٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور پینشن کی ادائیگی کو فوری اور یقینی بنائی جائے،پاکستان اسٹیل کی ملکیت میں اب بھی وسیع رہائشی زمین ہے، لہٰذا جو ملازمین گلشن حدید فیز 1،2 اور 3میں پلاٹ حاصل نہیں کر سکے ہیں ایسے تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے گلشن حدید فیز 4کا اجرا کر کے انہیں پلاٹ دیے جائیں،برطرف ملازمین کو بحال کیا جائے بصورت دیگر ان کی برطرفی کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ریٹائرمنٹ تصور کیا جائے۔ تقریب سے پاشا گل کے بڑے بھائی غلام محی الدین،پروگرام کی آرگنا ئزنگ کمیٹی چیئر مین زاہد عسکری، پاشا گل کے صاحبزادے عمار گل، پاسلو و ٹاپس کے سابق صدر حاجی خان لاشاری،نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفرخان،پا سلو کے صدعاصم بھٹی، ٹاپس کے صد رحسین احمد زیدی، پیاسی یونین کے سابق رہنما چودھری اشرف، پاکستان نیشنل شیپنگ کارپوریشن اسٹاف یونین کے سابق رہنما محمد خالق عثمانی، کراچی شپ یارڈ شمع یونین کے سابق رہنما نسیم احمد، پاشا گل کے ساتھیوں فدا خان،عشرت رضوی، غلام سرور کھوسو، قیصر عباس،سلمان صابر کے علاوہ پاشا گل کے اہل خانہ اور دیگر احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ پا سلو کے صدعاصم بھٹی نے پاکستان اسٹیل کی بحالی اور مسائل سے متعلق قرارداد پیش کی۔ تقریب میں پا سلو اور ٹاپس کے مرحوم رہنماؤں حبیب خان آفریدی،محمد رحیم تھیم،شیخ عبد الوہاب، عادل خان، شفیع الرحمن اور دیگر مرحومین کے لیے دعا مغفرت کی گئی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر ، پاشاگل کے بڑے بھائی غلام محی الدین ، چیئرمین پروگرام آرگنائزنگ کمیٹی زاہد عسکری، پاشا گل کے صاحبزادے عمار گل، حاجی خان لاشاری،ظفر خان، عاصم بھٹی، حسین احمد زیدی مقامی لان میں پاشا احمد گل کے 23ویں یوم شہادت پر منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے ہیں