Daily Ausaf:
2025-04-25@06:09:47 GMT

جمعۃ الوداع ‘ اللہ کو راضی کریں

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرائض کے برابر ہے اور اس ماہ مبارک کے ایک فرض کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستّر فرائض کے برابر ہے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پوری زندگی نوافل پڑھتا رہے تو ایک فرض کے ثواب کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اللہ تعالی اس ماہ مبارک میں عبادات کا ماحول بنا دیتے ہیں اور سارے دنوں میں جمعہ کے دن کو بہت فضیلت حاصل ہے اس ماہ مبارک کے جمعہ کو بھی 70 گناہ فضیلت حاصل ہے اور رمضان المبارک کا آخری جمعہ جس کو جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے …چونکہ انسان پورے مہینہ میں تراویح تلاوت قرآن روزہ اور دیگر عبادات میں منہمک رہتا ہے اور جمعہ کے دن قبولیت دعا کے بہترین لمحات ہوتے ہیں ہیں اس لئے اس ماہ مبارک کے جمعہ کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا ذریعہ بنانا چاہیے اور جمعتہ الوداع اس وجہ سے اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ آخری جمعہ ہوتا ہے جس کے بعد رمضان المبارک ہم سے جدا ہو جاتا ہے جمعتہ الوداع میں انسان اللہ کی عبادت و ریاضت دعا استغفار کثرت سے کرے کیونکہ پورے مہینہ کے حق کو ہم ادا نہیں کر سکے اب اللہ جمعتہ الوداع میں ہمارے لیے مغفرت کا اعلان فرما دے ہمارے روزوں کوقبول فرمائے ہماری تراویح کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے محبوب لوگوں میں شامل کر لے اور پورا سال ہمیں اسی طرح عبادت کی توفیق عطا فرما دے علماء نے لکھا ہے جو انسان جمعتہ الوداع میں توبہ استغفار اور عاجزی میں مصروف رہے گا اللہ اس کے رمضان کی کمیوں کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں گے اور اسے پورا سال اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلیں گے جمعہ کے دن کی حدیث میں بہت فضیلت آئی ہے …ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے دنوں کو پیدا کرکے جمعہ کو ان میں سے چن لیا اور پسند فرمایا اور میری امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی اور ان کے لیے جمعہ کو مقرر فرمایا جو نیک عمل انسان جمعہ کو کرتا ہے اس کے لیے باقی دنوں کی نسبت ستر گناہ ثواب بڑھا دیا جاتا ہے اور روایات میں آتا ہے جو شخص جمعہ کے دن یا شب جمعہ کو انتقال کرتا ہے… اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اور دنیا سے مغفور لوگوں کی طرح ہوجاتا ہے طبرانی کے اندر حدیث موجود ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں جو شخص جمعہ، شب جمعہ کو انتقال کرتا ہے قیامت میں عذاب خداوندی سے پناہ میں رہتا ہے اور اس پر شہیدوں کی مہر لگ جاتی ہے آپ اندازہ فرمائیں کہ جمعہ کے دن نیکی ستر گنا بڑھ جاتی ہے ہے اور عام دنوں میں دس گنا بڑھتی ہے اور رمضان میں نوافل فرائض کے برابر اجر لکھ دیئے جاتے ہیں۔ نزہ المجالس میں ایک روایت موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا… اے عمرؓ نماز جمعہ اپنے اوپر لازم کرو خطاؤں سے ایسے صاف ہو جاؤ گے جیسے تم اپنے گھروں سے مٹی صاف کرتے ہو اور اے عمرؓ کوئی بندہ ایسا نہیں جو جمعہ کے روز نماز کے لئے غسل کرتا ہے اور پھر بھی گناہوں سے پاک ہو جائے اللہ اس کے سارے گناہ معاف کرتا ہے اور وہ ایسے ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوا یعنی جمعہ کے دن استغفار اور دعا سے انسان کے گناہ سارے بخش دیئے جاتے ہیں-
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا عمرؓ کوئی بندہ ایسا نہیں جو نماز جمعہ کے لیے اپنے گھر سے نکلے پھر بھی اس کے لئے تمام پتھر شہادت نہ دیں جن پتھروں اور مٹی کے ذرات سے اس نمازی کا گزر ہوتا ہے وہ سارے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور جو شخص جمعہ کے لیے جاتے ہوئے صاف ستھرے کپڑے پہن کر مسجد کے لئے جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت کرتے ہیں اور اس کی حاجات کو پورا فرماتے ہیں اس کی پریشانیوں کو دور فرما تے ہیں نبی علیہ السلام نے فرمایا …عمر ؓبے شک اللہ جمعہ کے روز فرشتوں کو دنیا کی طرف نازل کرتا ہے پس وہ اس شہر میں اذان تک دوڑتے پھرتے ہیں اور جب موذن اذان کہتا ہے تو وہ مسجد کی طرف چلتے ہیں اور مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگتے ہیں اور دیکھتے ہیں اذان سے پہلے کون کون لوگ اندر آ گئے تھے پھر جب وہ لوگ سجدہ کرتے ہیں تو یہ فرشتے اعلان کرتے ہیں کہ اللہ نے تم سب کو معاف کر دیا اور بخش دیا اور مسجد کے دروازے پر یہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ انسانوں کو گنتے رہتے ہیں اور جو نماز پڑھنے آتے ہیں ہیں فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور جب امام ممبر پر خطبہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو وہ صفوں کے درمیان بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کے لئے استغفار کرتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ان لوگوں کی نمازوں کو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نماز کے خزانے میں جمع کر لو اب قیامت تک وہ خزانہ میں محفوظ رہے گی نز ہ المجالس میں یہ حدیث موجود ہے‘ ایک حدیث میں آتا ہے جمعہ کے دن صبح کی نماز با جماعت پڑھنے سے افضل نمازوں میں کوئی نماز نہیں ہے… نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتا ہے تو جہاں وہ پڑھتا ہے وہاں سے لے کر مکہ تک خدا اس کو نور عنایت فرماتے ہیں اور دوسرے جمعہ تک اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اور اس کے لئے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس انسان کو برص و جذام اور فتنہ دجال سے محفوظ کردیا جاتا ہے… حضور علیہ السلام نے فرمایا جمعہ سے افضل میری امت کی کوئی عید نہیں جمعہ کو سفید کپڑے پہننا افضل ہے حضور ﷺنے فرمایا تم سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ وہ نہایت پاکیزہ اور صاف ستھرا لباس ہے اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اس ماہ مبارک کرتے ہیں اور علیہ السلام اللہ تعالی فرماتے ہیں جمعہ کے دن نے فرمایا ہے اور اس رضی اللہ جاتے ہیں جاتا ہے جمعہ کو کرتا ہے کے لئے کے لیے ہیں کہ کی طرف

پڑھیں:

مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری

ڈاکٹر محمد حمید اللہ  دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:

پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛

دفاعی جنگیں؛

ہمدردانہ جنگیں؛

سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور

نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔  گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔

ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟

ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ  کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘  ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟

فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟

مظلوم کی مدد کےلیے جنگ

مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور  مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔

رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے  اور  اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)

(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)

’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘

بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو،  یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا  ’انسانی ہمدردی‘  کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔

مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ

ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔

تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘  ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں،  تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حج ایک مقدس فریضہ ہے جسکے لئے بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے،چیئرمین سی ڈی اے
  • فضائی کمپنی نے مسافر کو جہاز سے اترجانے کے لیے 3 ہزار ڈالر کی پیشکش کیوں کی؟
  • امن اور مکالمہ ہماری ترجیح  ، قومی سلامتی یا وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،امیر مقام
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  • ٓئندہ جمعہ کی صبح آسمان پر چاند، زہرہ، زحل اور عطارد کی ملاقات
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • حریت کانفرنس کی کشمیریوں سے جمعہ کو مکمل ہڑتال کی اپیل