حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی فاروق رحمانی کی جائیداد کی ضبطگی کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
مشتاق احمد بٹ نے اسلام آباد سے جاری بیان میں کہا کہ اس سے پہلے بھی سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں قابض انتظامیہ سربمہر کر چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ نے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض انتظامیہ کی جانب سے سینئر حریت رہنما محمد فاروق رحمانی کی کروڑوں روپے مالیت کی آبائی جائیداد ضبط کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سراسر غیر قانونی، غیر آئینی اور جبرواستبداد پر مبنی اقدامات ہیں اور کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا تسلسل ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سکریٹری اطلاعات مشتاق احمد بٹ نے اسلام آباد سے جاری بیان میں کہا کہ اس سے پہلے بھی سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں قابض انتظامیہ سربمہر کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے عظیم و مقدس مہینے میں بھی بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے حریت قائددین و کارکنوں، ذرایع ابلاغ کے کشمیری نمائندوں اور انسانی حقوق سے وابستہ افراد کے گھروں پر مسلسل چھاپوں کی وجہ سے پوری وادی کو دہشت زدہ بنا دیا گیا ہے، چادر اور چار دیواری کا تقدس اس عظیم مہینے میں بھی پامال کیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی قابل افسوس ہے۔
انہوں نے بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں، گھروں اور زمینوں سے مکینوں کو بے دخل کرنے اور کشمیریوں کی زمینیں غیر ریاستی باشندوں کو دینے پر نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانیں کی خلاف ورزی ہے جس کا اقوام متحدہ کو فوری نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو ایسا کرنے سے باز رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کشمیری ایک امن پسند قوم ہے اور بھارت انہیں محض اس وجہ سے نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے پیدائشی حق، حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ بھارتی حکمران مذہبی تعصب کی بنیاد پر کشمیریوں کی پرامن تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کے لیے انتہائی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت اوچھے ہتکھنڈوں سے آزادی پسند کشمیری عوام کی آواز کو ہرگز دبا نہیں سکتا، کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ شہداء کے مشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ انہوں نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ کشمیر میں جاری وحشیانہ بھارتی مظالم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیلئے بھارت پر دباﺅ ڈالیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حریت کانفرنس آزاد کشمیریوں کی انہوں نے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
متین فکری
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادی کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ثالثی کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ کشمیری عوام اور خود پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ مجلس شوریٰ کو یہ قرار داد منظور کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ کے بعد کشمیر کا مسئلہ خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ دونوں ملکوں کو سیز فائر کے بعد مذاکرات کی میز پر لائیں گے اور کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کرائیں گے۔ ان کی ثالثی کس نوعیت کیا ہوگی، ابھی واضح نہیں ہے۔ ایران اور اسرائیل کی موجودہ جنگ نے حالات کا رُخ ہی بدل دیا ہے۔ اب نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کب ہوں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان پانی، دہشت گردی اور کشمیر سمیت دیرینہ تنازعات طے کرنے میں کیا پیش رفت ممکن ہوسکے گی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کو آج نہیں تو کل مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔
پاکستانی قیادت کے نزدیک بھارت سے تین تصفیہ طلب مسائل کا حل ناگزیر ہے، ان کے بغیر نہ خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دونوں ملک چین سے رہ سکتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ کشمیرکا ہے، اگرچہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کو یکطرفہ طور پر بھارتی یونین میں ضم کرکے اپنی دانست میں مسئلہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرلیا تھا لیکن زمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے، نہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے یکطرفہ غیر قانونی اقدام کے مقابلے میں حق خودارادیت پر مبنی اپنی قرار دادیں واپس لی ہیں نہ کسی پہلو سے بھی بھارتی کارروائی کو جائز قرار دیا ہے۔ یعنی بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود مسئلہ کشمیر پر عالمی ادارے کا موقف وہی ہے جو آج سے ستر سال پہلے تھا اور کشمیری عوام کو حق خود ارادی دے کر ہی مسئلہ کشمیر کو پائیدار بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے۔ بھارت اگرچہ یکطرفہ طور پر مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کررہا ہے اس نے لاکھوں ہندوئوں کو ریاست کشمیر کو ڈومیسائل دے دیا ہے، وہ وہاں جائداد خرید سکتے ہیں اور ریاستی باشندے کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے باوجود بھارت کو یقین نہیں ہے کہ اگر آج آزادانہ استصواب رائے کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے حق میں برآمد ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرف آتا ہی نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ازخود مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانے کی جو پیش کش کی ہے اس کے بارے میں ماہرین امور کشمیر کی رائے یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں وہ مسئلہ کشمیر کو بھی ایک کاروباری تنازع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ زمین کا جھگڑا ہے، بھارت نے کشمیر کے زیادہ حصے پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے اب ثالثی کے ذریعے کشمیر کے کچھ حصے پر سے اسے اپنا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، حالانکہ تنازع کشمیر پر ناجائز قبضے کا نہیں، کشمیری عوام کے حق خود ارادی کا ہے جس سے انہیں تقسیم ہندوستان کے وقت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ماہرین امور کشمیر کی رائے کے مطابق پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ وہ صدر ٹرمپ کی ثالثی قبول کرنے سے معذرت کرلیں کہ اس سے مسئلہ کشمیر کو فائدہ پہنچنے کے بجائے اُلٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ رہا بھارت تو وہ کسی قسم کی ثالثی کے حق میں ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے جارحانہ سفارتی کوششیں بروئے کار لائے اور بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کردے۔