فیصل آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 مارچ ۔2025 )فیصل آباد میں غیر معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی کے باعث پیاز کی پیداوار میں کمی آئی ہے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کاشتکار بلال احمد نے کہا کہ معیاری بیج سے لے کر کھاد تک ہر چیز مہنگی ہے، پیداوار میں کمی کا ایک اور مسئلہ خراب معیار کے بیج اور کھادوں کی بلا تعطل فراہمی ہے انہوں نے کہا کہ یہ سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ منڈی میں جعلی بیجوں اور کھادوں کے پھیلا وکو روکیں تاہم آج تک کسان اعلی معیار کے بیج اور کھاد کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں معیاری بیج اور خالص کھاد کے بغیرہم مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کر سکتے ان پٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت چھوٹے کاشتکاروں کے لیے ایک کانٹا ہے جو جدید تکنیک اپنانا چاہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ مطلوبہ نتائج اور منافع کے حصول کے لیے جدید طریقہ کار ناگزیر ہے لیکن ہمارے پاس آلات کی زیادہ قیمت اور علم کی کمی کی وجہ سے اب بھی ایسی سہولیات کا فقدان ہے.

ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسان اب بھی ذخیرہ کرنے کے روایتی طریقوں پر انحصار کر رہے ہیںجو ابھرتی ہوئی ضروریات کو پورا نہیں کر رہے انہوں نے کہا کہ ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے. انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت چھوٹے درجے کے کسانوں کو فنی تربیت اور مالی مدد فراہم کر کے ان کی مدد کرے یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے زرعی ماہر ڈاکٹر فہد احمد نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کو تباہ کر رہی ہے انہوں نے کہاکہ پاکستانی کسان اب بھی فرسودہ کاشتکاری کے طریقے استعمال کر رہے ہیں معیاری بیجوں تک رسائی نہیں ہے اور انہیں آبپاشی کے ناقص نظام کا سامنا ہے ان بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر، انہوں نے متنبہ کیا، مطلوبہ پیداوار کا حصول ایک دور کا خواب ہے.

انہوں نے تسلیم کیا کہ کسان ملک کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لیے اہم جدید طریقوں کی کمی ہے یہ صرف پیاز نہیں ہے؛ انہوں نے کہا کہ اگر ہم روایتی طریقوں پر قائم رہیں تو موسمیاتی تبدیلی ہر فصل کو متاثر کرے گی ڈاکٹر فہد نے کہا کہ شدید بارشوں اور خشک سالی کی طرح غیر متوقع موسمی نمونے کاشت کے طریقوں کو تبدیل کر رہے ہیں اور پیداوار میں کمی کا باعث بن رہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ پاکستان کسانوں کو جدید ترین زرعی ایجادات متعارف کرانے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر ہمارا سست ردعمل زراعت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچائے گا ہمیں اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے کسانوں کو جدید تربیت اور آلات سے آراستہ کرنا ہوگا ابھرتے ہوئے چیلنجوں کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسانوں، سائنسدانوں، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان تعاون ناگزیر ہے.

انہوں نے کہا کہ محض کھوکھلے نعرے لگانے کے بجائے حکومت کو زرعی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یونیورسٹیاں کسانوں کو جدید تکنیکوں میں تربیت فراہم کریں انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ کمپنیاں کسانوں کو مناسب قیمتوں پر معیاری بیج اور آلات فراہم کرنے کے انتظامات کریں انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے ایک مضبوط سپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے اور تعاون ہی واحد کلید ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پیداوار میں کمی ہے انہوں نے کہا انہوں نے کہا کہ معیاری بیج اور بیج اور کھاد کر رہے ہیں کسانوں کو فراہم کر کے لیے

پڑھیں:

سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-08-11
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور صوبے کے زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کے لیے جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے کہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ صوبے میں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت سندھ نے “کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر منصوبہ” کے تحت سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن (SWAT) پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت کسانوں کو جدید زرعی طریقے سکھائے جا رہے ہیں جن میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے، کیڑوں کے خاتمے اور کم پانی میں کاشت جیسے عملی طریقے شامل ہیں۔ یہ منصوبہ 5 سالہ ہے جو 2028 تک جاری رہے گا۔ اس دوران 180 فیلڈ اسکول قائم کیے جائیں گے اور 4500 کسانوں کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں رواں سال 750 کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں کی تربیت دی جا رہی ہے۔وزیر زراعت نے بتایا کہ ابتدائی طور پر سکھر، میرپور خاص اور بدین میں 30 ڈیمو پلاٹس اور فیلڈ اسکولز قائم کیے گئے ہیں جہاں لیزر لینڈ لیولنگ، گندم کی قطاروں میں کاشت اور متوازن کھاد کے استعمال جیسے طریقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ بدین کے کھورواہ مائنر میں زیرو ٹلج تکنیک کے تحت دھان کے بعد زمین میں بچی ہوئی نمی پر گندم اگائی گئی، جس سے اخراجات، پانی اور محنت میں نمایاں بچت ہوئی۔سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ تربیت مکمل کرنے والے کسانوں کو سبسڈی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زمینوں پر یہ جدید طریقے اپنا سکیں اور دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے جس کے باعث فصلیں متاثر ہو رہی ہیں اور کسان نقصان اٹھا رہے ہیں، اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے یہ عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی:وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محمد رضا حیات سے ایران کے سفیر رضا امیری مقدم ملاقات کررہے ہیں
  • سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر
  • وزیراعظم نے جاپان کے ساتھ صنعتی تعاون بڑھانے کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی
  • ’ایسی چیزیں قبول نہیں کروں گی‘، سیلاب زدگان کے لیے غیر معیاری سامان ملنے پر حدیقہ کیانی پھٹ پڑیں
  • سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل شدید متاثر
  • صنعتی پیداوار میں نمایاں اضافہ، جولائی میں 9 فیصد بہتری
  • کامن ویلتھ کی الیکشن رپورٹ نے بھی انتخابی دھاندلی کا پول کھول دیا. عمران خان
  • چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئی
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی ہورہی ہے: ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ
  • ملک میں تیل و گیس کی پیداوار میں ہفتہ وار کمی