Express News:
2025-07-26@10:45:31 GMT

عید کے دن

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

لٹے پٹے فلسطین پر زخمی اذیت ناک حالتوں میں لوٹتے لوگوں کی خواہشات پُر امید تھیں پر یہ کیا۔۔۔ فضا ایک بار پھر بارود کی خوشبو سے رچ گئی، شعلے چاروں جانب سے ابلنے لگے کہ ایک قیامت ابھی باقی ہے۔

کیا انسان پیش گوئیوں پر یقین کر سکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو اس پیش گوئی کو بنانے بگاڑنے میں خود اس کا کتنا عمل دخل ہے۔ یہ طے تھا کہ ستمبر 2023 کے بعد فلسطین آگ و خون کی جنگ کی نذر ہوگا پر ایک بار پھر اسی علاقے پر یہ جنگ زبردستی مسلط کر دی جائے گی یہ پیش گوئی یا خواب بہت اذیت ناک تھا جو دیکھنے میں ہی دہلا دینے والا تھا پر اس کی حقیقت اس سے بھی زیادہ المناک ہے۔

ولادی میر پیوتن نے دنیا کو خبردار کر دیا تھا کہ اگر کسی بھی ملک نے روس پر ایٹمی حملہ کیا تو اسے زمین کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔ یہ ایک کھلا پیغام تھا دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے جو روس کے لیے منفی انداز میں سوچتے ہیں۔’’یوکرین کی جنگ یا تو روس کی فتح کے ساتھ یا پھر دنیا کے تباہ ہونے سے ختم ہوگی۔‘‘

 الیگزینڈر ڈوگین ممتاز روسی فلسفی جن کا دماغ دراصل پیوتن کا دماغ کہلایا جاتا ہے ان کے ایک خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے اس قسم کے جذبات یہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی حال میں بھی ہار نہیں چاہتے۔

پچھلے کئی مہینوں سے فلسطین میں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں چلتا رہا، اس عجیب بے ہنگم جنگ سے کون واقف نہیں کہ ایک خطہ سلگ رہا ہے تو دوسرے خطے میں سکون و عیاشی کا دور جاری ہے کہ بگل کس کے ہاتھ میں ہے۔

بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے لیکن زمینی حقائق بھی وہی ہوتے ہیں جنھیں ہم جیسے چلتے پھرتے انسان ہی کسی نہ کسی طرح تخلیق کرتے ہیں۔ فلسطین کے لیے پہلے جنگ بندی کا رنگین رومال اور پھر وطن لوٹنے والوں پر ایک نیا عذاب کیا کسی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے کہ روئے زمین سے ہی مٹا دیے جائیں کہ پھر زمین کے لیے کلیم کرنے والے ہی نہ ہوں گے۔

روس کی تندی اور سختی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی طرف جھکنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہ ان کی اپنی سفاکی ہے کہ وہ مظلوم کے بجائے عہد فرعونیت کے ٹھپے کے ساتھ ظالم سے جڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کو تمام تر ظلم، بے ایمانیوں، جبر اور بددیانتی کے ساتھ گلے لگا کر ثابت کر دیا کہ ان کی تمام نیک تمنائیں جو کبھی نیک ہی نہ تھیں ایک مکر و فریب سے لپٹے جابر کے ساتھ ہیں۔

یہ ایک سانحہ ہے جو دنیا نے دیکھا کہ زخمی، غموں کے مارے مجبور بے کس بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر جو پہلے ہی اپنوں کی جدائی کے غم میں سسک رہے تھے ایک بار پھر گولوں کی نذر کر دیا گیا۔

اور دنیا خاموش ہے عرب کی زمین خاموش ہے کہ بولنا کفر سمجھ لیا ہے جیسے اور کوئی طاقت ان کو بولنے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی، سوائے ان کے اپنے اندر اس جابر نفس کے جو عود کرکرتا ہے اور سارے احساسات و جذبات کو مادہ پرستی، تعصب اور دشمنی کی آگ میں بھسم کر دیتا ہے۔

ہم رمضان کے اس الوداعی دور میں دیکھ رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی خون میں رنگے عید کی مبارک باد کیسے دے سکتے ہیں جب ہمارے اپنے ہی بھائی نفیس، ریشمی پوشاک میں سجے مہنگے خوشبویات میں بسے ایک دوسرے میں گلے لگ کر عید کی مبارک باد دیتے رب العزت کی جانب سے عطا کیے گئے اس پرمسرت موقع کو منا رہے ہیں تو کس کے لیے اورکیوں؟

یہ موقعہ یہ خوشی، یہ تہوار عیدالفطر تو ہمیں ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا گیا ہے، ایسا مذہب ایسے دین کے علم بردار ہیں جو ہمیں مساوات، رواداری، اخوت، بھائی چارگی کے پیغام کو سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے اور عمل کرنے پر زور دیتا ہے۔

پر یہ کیسی بے بسی ہے کہ ہم اسی دین کے ماننے والے اپنے رب کے عطا کردہ اس تہوار کو اپنے ہی بھائیوں کی بے کسی، مجبوری، دکھ، اذیت اور تکلیفوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی دوغلی چال ہے، کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارا رب ہمارے اندر، باہر، حال، مستقبل، ماضی سب سے باخبر ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے وہ بھی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

جو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو دنیا کی اتنی بڑی طاقت کا حکمراں بنا سکتا ہے۔ بوٹے سے قد کے پیوتن کو اتنا جوشیلا اور لیڈر بنا سکتا ہے کہ جو دنیا کو تباہ کرنے کی خواہش بھی کر سکتا ہے تو وہ رب کیا کچھ نہیں کر سکتا۔

 عید سعید کے اس پرنور موقع پر ہم اپنے تمام بہن بھائیوں کے لیے دل سے دعاگو ہیں کہ وہ اس عید کے اصل پیغام کو سمجھیں، اس کی روح کو جانیں کہ یہ عیش، عیاشی اور مستیوں کا تہوار نہیں بلکہ ہمارے رب العزت کی جانب سے دی گئی خوشیوں کا دن ہے تو کیا ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت اپنی خوشی کی دعاؤں میں اپنے بہن بھائیوں کو یاد رکھ کر کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سکتا ہے کر سکتا کے ساتھ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں

غزہ کی بدنصیب مائیں رات بھر جاگ کر بس یہ دیکھتی رہتی ہیں کہ ان کے غذائی قلت کے شکار بچے سانس لے بھی رہے ہیں یا نہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے نمائندوں نے غزہ میں ان بے چین اور مضطرب ماؤں سے ملاقاتیں کیں جن کے جگر گوشے بھوک سے موت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی غزہ پر جاری مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث لاکھوں فلسطینی مہلک فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔

بچے کثیر تعداد غذائی قلت کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ایسے بچوں کی تعداد 300 سے زائد ہیں جب کہ 9 لاکھ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے CNN کے نمائندوں کو ایک ماں نے بتایا کہ اسپتال کے صرف اس کمرے میں 4 بچے غذائی قلت سے مر چکے ہیں۔

غم زدہ ماں نے خوف کے عالم میں کپکپاتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میری بیٹی پانچویں ہوگی جس کا وزن دائمی اسہال کے باعث صرف 3 کلوگرام رہ گیا ہے۔

بےکس و لاچار ماں نے بتایا کہ میں خود کمزور ہوں اور اپنی ننھی پری کو دودھ پلانے سے قاصر ہوں۔ رات میں چار یا پانچ بار اُٹھ کر دیکھتی ہوں، بیٹی کی سانسیں چل رہی ہیں یا وہ مجھے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ گئی۔

غزہ میں کئی ماؤں نے سی این این کو بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کافی دودھ نہیں مل رہا ہے۔ فارمولا دودھ دستیاب نہیں۔ لوگ چائے یا پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ماں ہدایہ المتواق نے اپنے 3 سالہ بیٹے محمد کو غزہ شہر کے العہلی العربی ہسپتال کے قریب ایک خیمے کے اندر پالا ہے۔

جس کا وزن اب صرف 6 کلوگرام (تقریباً 13 پاؤنڈ) ہے جو چند ماہ قبل 9 کلوگرام تھا۔

جبر کی ماری ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا 3 سالہ بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر کھانا ہے تو ہم کھاتے ہیں اگر نہیں تو اللہ پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی کچھ نہیں۔

سی این این کے نمائندوں نے بتایا کہ غزہ کے پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں کے ہر کمرے میں یہی منظر ہے۔ بچوں کی آنکھیں دھنسی ہوئی اور پسلیاں نکلی ہوئی ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • یہ کوئی نرسری نہیں، یہ رنگوں اور خوشبوؤں کی ایک دنیا ہے
  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق، دنیا کو بتائیں والد کو کرپشن پر سزا ہوئی: عطا تارڑ
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟