ریاض احمدچودھری
غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں 2016اور 2022کے درمیان5,400سے زائد بچے لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں سے 1500سے زائد کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 2016میں 1070بچے لاپتہ ہوئے جن میں 589لڑکے اور481لڑکیاں شامل تھیں۔2017 میں کل 725 بچے لاپتہ ہوئے جن میں 431لڑکے اور 294لڑکیاں شامل تھیں۔ 2018میں 800بچے لاپتہ ہوئے جن میں 384لڑکے اور 416 لڑکیاں شامل تھیں۔ 2019میں کل 661بچے لاپتہ ہوئے جن میں 306لڑکے اور 355لڑکیاں شامل تھیں۔ 2020میں 627بچے لاپتہ ہوئے جن میں 277لڑکے اور 350لڑکیاں شامل تھیں۔ 2021میں کل 723بچے لاپتہ ہوئے جن میں 280لڑکے اور 443لڑکیاں شامل تھیں۔اسی طرح 2022میں کل 821بچے لاپتہ ہوئے جن میں 319لڑکے اور 502لڑکیاں شامل تھیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے مقبوضہ علاقے میں لاپتہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج اور اس کی ایجنسیاں ان گمشدگیوں کی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران بچوں کو اٹھا کر بھارت میںفروخت کرتی ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بھارتی فوج اور پیراملٹری فورسز شبانہ چھاپوں کے دوران بچوں سمیت مکینوں کو ہراساں کرتے اوران کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے مایوس ہوکر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے بچوں کو غیر قانونی شکل میں گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حراست میں لئے گئے بچوں کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو غیر قانونی نظر بندیوں میں رکھا اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔متاثرہ بچوں میں سے 14 سالہ 10 ویں جماعت کے طالبعلم عفان کے والد منظور احمد غنی نے کہا ہے کہ اس کے بیٹے کو دیگر قیدیوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد بچے کو پورے جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا اور اس کی پشت پر زخموں کے نشان تھے۔ کئی دن تک جیل میں رہنے کے بعد بچہ شدید ڈپریشن کا شکار تھا اور ذہنی حوالے سے اس کی حالت بے حد خراب تھی۔گیارہ دن تک پولیس کی حراست میں رہنے والے 15 سالہ عمر نے بھی بتایا ہے کہ اسے مارا پیٹا گیا اور جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارت کی نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن نامی سول سوسائٹی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے لے کر اب تک علاقے میں 13 ہزار بچوں کو حراست میں لیا ہے۔خانپھتھ کیمپ میں تعینات 29 راشٹریہ رائفلز کے فوجی سنگھ پورہ کے علاقے میں ایک گاڑی میں گشت کر رہے تھے کہ ایک بھارتی فوجی نے ایک کمسن بچی پر بے ہودہ تبصرے کیے۔ اس لڑکی نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے شور مچایا۔ اسی اثنامیں، بہت سارے لوگ جمع ہوگئے اور آزادی کے حامی اوربھارتی فوج مخالف نعرے بلند کرنے شروع کردیئے۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اس فوجی کوفوری گرفتارکیا جائے۔ ایک بزرگ نے کہاکہ فحش گفتگو کے بعد ، سپاہی نے اسے دھمکی بھی دی۔ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔
کشمیریوں کی جانب سے احتجاج کے بعد ایس ڈی پی او ظفر مہدی اور چوکی آفیسر میرگنڈ پولیس چوکی محمد اشرف کی سربراہی میں پولیس ٹیم مظاہرین کو راضی کرنے کے لئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ ایس ڈی پی او پتن نے کہا کہ وہ اب بھی معاملے کی تصدیق کر رہے ہیں۔کہا گیا کہ اگرچہ فوج کے سپاہی نے کچھ نہیں کیا پھر بھی کمانڈنگ آفیسر نے کمال احسان کرتے ہوئے لوگوں سے معافی مانگی اور انھیں تسلی دی۔
5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔ ایسے ہی بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے گوری لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔اس وقت دنیا میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر آواز بلند کی جارہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا انتہائی شکار ہیں۔ قابض بھارتی فورسز کشمیری خواتین کی آبروریزی کے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ آبروریزی کے واقعات کے مجرم بھارتی فوجی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی مجموعی صحت پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری عورتوں میں اولاد پیدا کرنیکی صلاحیت میں کمی ہوئی ہے اور انہیں پیچیدہ نسوانی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہزاروں مظلوم و بے بس کشمیری خواتین و نوجوان لڑکیاں انہیں شدید حالات سے دوچار ہیں۔
جنوبی کشمیر میں وامہ، شوپیاں کے عوام بھارتی فوج کا نشانہ ہیں۔ شمالی کشمیر میں باندی پورا، سوپور میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ تشدد اور دباؤ کے نت نئے طریقے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ شوپیاں میں گرفتار 26 سالہ نوجوان کو جیپ سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔ راشٹریہ رائفل کیمپ میں نوجوان کو برہنہ کر کے یخ بستہ پانی میں غوطے دیے گئے۔ اس کے بعد اسے ایک بد بودار سیال مادہ پینے پر بھی مجبور کیا گیا۔ایک نوجوان کو بجلی کے کھمبے سے باندھا گیا۔ نوجوان کو تشدد کے ساتھ کرنٹ بھی لگایا جاتا رہا۔ چیل پورہ، ترن کے علاقوں میں بھی ایسی کہانیاں عام ہیں۔ نہتے اور مظلوم لوگوں نے خوف کے مارے اپنے لب سی رکھے ہیں۔ پنجورا نامی گاؤں میں لوگوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بچے لاپتہ ہوئے جن میں بھارتی فوج نوجوان کو کا نشانہ رہے ہیں بچوں کو میں کل کہا کہ
پڑھیں:
زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
معروف آزادی پسند کشمیری رہنما اورکل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بھٹ مختصر علالت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں انتقال کرگئے۔
عبدالغنی بھٹ کی عمر قریباً 90 برس تھی، وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
افسوسناک خبر ؛ مقبوضہ کشمیر کے بزرگ حریت راہنما و سابق چیئرمین کُل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بھٹ بھی آزادی کشمیر کا خواب دل میں سجائے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین pic.twitter.com/3CRwN1JJQj
— Asaad Fakharuddin???? (@AsaadFakhar) September 17, 2025
مرحوم نے فارسی، اقتصادیات اور سیاسیات میں گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کی تھیں جبکہ فارسی میں ماسٹرز بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی، جبکہ وہ فارسی کے پروفیسر بھی رہے۔
قابض بھارتی انتظامیہ نے آزادی پسند سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں بطور پروفیسر ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ مرحوم 1987 میں بننے والے آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد ’مسلم متحدہ محاذ‘ میں بھی پیش پیش رہے۔
بھارتی انتظامیہ نے1987 کے مقبوضہ علاقے کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے محاذ کے امیدواروں کو ہروا دیا تھا۔ پروفیسر عبدالغنی بھٹ کو انتخابات کے بعد گرفتار کیا گیا اور وہ کئی ماہ تک جیل میں رہے۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے 1993 میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل پر یقین رکھتے تھے اور اس مقصد کے لیے ان کی خدمات اور جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ زندگی بھر بھارتی ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار رہے، اور آزادی کا خواب آنکھوں میں لے کر ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: حریت پسند رہنما 15 سال پرانے مقدمے سے بری
کشمیری حریت رہنما کے انتقال پر وفاقی وزیر امور کشمیر انجینیئر امیر مقام، وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سمیت کشمیری قیادت نے عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور سوگواران کو صبر جمیل دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انتقال برسرپیکار بھارتی مظالم عبدالغنی بھٹ کشمیری حریت رہنما مقبوضہ کشمیر وی نیوز