WE News:
2025-06-16@08:38:50 GMT

نفرت انگیزی کا مرض اور ولی دکنی کا مزار

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

ہندوستان میں انتہاپسند مطالبہ کررہے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی قبر مسمار کردی جائے، پہلے بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ ریلیز ہونے کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ اس فلم میں مغل بادشاہ اورنگزیب کو ایک سفاک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ میں اورنگزیب کے کردار پر بحث نئی نہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ کی ریلیز کے بعد اس بحث کو سیاسی اور مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر نفرت انگیزی کا بازار گرم ہے اور کہیں کہیں تو نوبت پُرتشدد مظاہروں تک جا پہنچی ہے۔ ناگپور میں مشتعل افراد کے جلاؤ گھیراؤ کے بعد گزشتہ دنوں کرفیو لگانا پڑا اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے فرمایا: ‘اورنگزیب کی تعریف کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

مودی سرکار فلم ‘چھاوا’ کی پشت پناہی کررہی ہے جس کے بعد نفرت کی یہ تازہ لہر اٹھی ہے۔ قرائن اور بی جے پی کے ماضی کو ذہن میں رکھا جائے تو اب کی بار بھی وہ اس کشیدگی سے سیاسی فائدہ کشید کرے گی۔

اورنگزیب کے مقبرے کے ڈھانے سے متعلق خبریں پڑھ کر مجھے 2002 میں نریندر مودی کے زیرِ نگیں گجرات میں منظم مسلم کش فسادات کا خیال آیا جس میں ہندو بنیاد پرستوں نے احمد آباد میں اردو غزل کے بنیاد گزار شاعر ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے دم لیا تھا۔ ولی کی یہ یادگار شہر کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا مظہر تھی۔ فروری 2002 میں پیش آنے والا یہ قابلِ مذمت اور افسوس ناک واقعہ فکشن اور نان فکشن کا موضوع بنا جس کے بہت سے حوالے میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔

ان فسادات پر نندتا داس کی فلم ‘فراق’ بھی کبھی نہیں بھولتی جس میں ولی کےمزار کے انہدام کے مسئلے کو ایک ارادت مند کی جذباتی وابستگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

فکشن کی جہاں تک بات ہے تو سب سے پہلے ارندھتی رائے کے ناول ‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’ کی طرف دھیان جاتا ہے جسے معروف مترجم ارجمند آرا نے نہایت کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی مرتبہ 2018 میں ادبی جریدے ‘آج’ کے خصوصی شمارے(103) میں شائع ہوا تھا۔

ناول میں دلی کے مشہور ہیجڑے انجم کی حضرت نظام الدین اولیا سے عقیدت کا تذکرہ ہے جو اپنے والد کے دوست ذاکر میاں کے ساتھ اجمیر شریف اور پھر وہاں سے احمد آباد میں ولی دکنی کے مزار کی زیارت کا پروگرام ترتیب دیتی ہے۔

انجم کے والد، ملاقات علی ولی دکنی کے بڑے مداح تھے۔

انہیں ولی کا یہ شعر بہت پسند تھا :

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

ناول میں صرف ایک شعر ہے یہاں اس غزل کے مزید شعر دیکھیے:

نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار

جسے عشق کی بے قراری لگے

ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں

پیاری تری بات پیاری لگے

ولی کوں کہے تو اگر یک بچن

رقیباں کے دل میں کٹاری لگے

انجم اور ذاکر میاں اجمیر سے احمد آباد روانہ ہوئے تو گجرات میں دنگے شروع ہوگئے تھے جن کے بیان میں ولی کے مزار کی توہین کاواقعہ بھی ناول میں آجاتا ہے:

‘ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر تارکول کی سڑک بنا دی گئی ہے، ایسی ہر نشانی مٹا دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ اس کا کوئی وجود بھی تھا۔ پولیس، جنونی ہجوم اور وزیراعلیٰ اس کا کیا کرتے کہ لوگ اب بھی آ آ کر تارکول کی سڑک کے بیچوں بیچ، جہاں مزار ہوا کرتا تھا، پھول چڑھا جاتے تھے۔ جب تیز دوڑتی کاروں کے نیچے کچل کر پھول پس جاتے تو پھر سے نئے پھول نمودار ہو جاتے۔ پائمال پھولوں اور شاعری کے بیچ جو تعلق ہے، اس کا کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟’

یہ تو تھی فکشن کی بات، اب ارندھتی رائے کے نان فکشن سے رجوع کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی ہمیں ‘آج’ کے 23 سال پرانے پرچے کے اوراق پلٹنا ہوں گے جس میں گجرات کے فسادات پر ان کے مضمون کا اجمل کمال کے قلم سے ہونے والا ترجمہ شامل ہے۔ اس تحریر میں ولی کے مزار کے ساتھ ساتھ استاد فیاض علی خاں کے مقبرے کی بے حرمتی کا تذکرہ بھی ہے:

‘احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کردی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی اور اس کو جلتے ہوئے ٹائروں سے ڈھک دیا گیا۔ آگ لگانے والوں نے دکانوں، مکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیوٹ کاروں کو آگ لگائی اور انہیں لوٹا، لاکھوں افراد اپنے روز گار سے محروم ہو گئے۔’

اجمل کمال کے ‘آج’ سے اب ہم آصف فرخی کے ‘دنیا زاد’ کی طرف چلتے ہیں۔

اس کے شمارہ نمبر سات (2002) میں گجرات کے فسادات سے متعلق خوشونت سنگھ کے کالم کا ترجمہ آصف فرخی نے ‘ولی کی جلاوطنی’ کے عنوان سے کیا تھا، اس میں سے ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

’28 فروری 2002 کو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ایک ہجوم نے ولی گجراتی کی درگاہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ شہری بلدیہ نے اس کے اوپر تارکول کی پختہ سڑک بچھا دی کہ اس کا نام و نشان تک مٹ جائے لیکن آج بھی ٹیکسی اور بس کے ڈرائیور اس کے اوپر سے گزر جانے کے بجائے گھوم کر جاتے ہیں کہ ان صوفی بزرگ اور شاعر کی قبر کے اوپر سے نہ جانا پڑے جس کا احترام ان کے آباؤ اجداد بھی کیا کرتے تھے اور اس مزار کی بے ادبی سے ان پر بربادی نہ آجائے۔’

خوشونت سنگھ نے سیدہ حمید کی سربراہی میں 6 خواتین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کا آغاز ولی گجراتی کے مقبرے کی تاراجی سے ہوتا ہے اور اختتام ڈبلیو بی ییٹس کی نظم ‘دی سیکنڈ کمنگ’ کی ان سطروں پر:

Things fall apart; the centre cannot hold;

Mere anarchy is loosed upon the world,

The blood-dimmed tide is loosed, and everywhere۔

The ceremony of innocence is drowned;

The best lack all conviction, while the worst

Are full of passionate intensity.

دنیا زاد کے اسی شمارے میں ہریش میندر کا فسادات کے بارے میں درد مندی سے معمور مضمون ‘اے وطن عزیز گریہ کر’ قاری کو رنج میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ولی دکنی کے مزار کی مسماری پر ‘گجراتی لیکھک منڈل’ نے بھی سخت احتجاج کیا اور اپنے ایک مشترکہ بیان میں مزار کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ کیا۔ اس بیان میں ولی کے مزار کو ہندوستان کی تہذیبی روایت اور ادب کی قابلِ فخر علامت قرار دیا گیا تھا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے رسالے اردو ادب (2002) نے یہ بیان سرورق پر شائع کیا تھا۔

ادبی حوالوں سے گزر کر اب ہم نندتا داس کی فلم ‘فراق’ پر آجاتے ہیں جس نے گجرات کے فسادات کی ہولناکی کو مجسم کردیا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں مچی ہلچل، خوف اور بداعتمادی کی عمدہ تصویر کشی کی۔

‘فراق’ میں نصیر الدین شاہ ایک مسلمان گائیک کے روپ میں سامنے آتے ہیں جنہیں ولی دکنی سے محبت ہے۔ وہ ان کے مزار کے ڈھے جانے سے بے خبر ہیں۔ ایک دن وہ رکشے میں اپنے ملازم کے ساتھ اس سڑک سے گزرتے ہیں تو مزار کو سڑک پر نہ پاکر وہ رکشے والے سے رکشہ روکنے کو کہتے ہیں اور نیچے اتر کر کہنے لگتے ہیں:

‘ مزار کہاں گیا’

‘ارے ولی کا مزار یہیں تھا’

‘ولی کا مزار۔۔۔ یہیں تھا ‘

‘نہیں نہیں۔۔۔ میں بھول ضرور جاتا ہوں لیکن وہ مزار یہیں تھا۔۔۔ ایسے کیسے غائب ہوگیا۔’

رکشے والا اصل بات بتاتا ہے تو خان صاحب کا ملازم اسے چپ کروا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ولی کا مزار دوسری سڑک پر ہے۔ وہ خان صاحب کو صدمے سے بچانے کی خاطر غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ خان صاحب عجب بے یقینی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔

فلم میں ایک ہندو ڈاکٹر خان صاحب کا قدردان ہے، اسے وہ ایک دن ولی کے مزار پر اکتوبر 1960 میں پہلی دفعہ جانے کا قصہ سناتے ہیں۔ اس دن جم کر بارش ہوئی تھی اور پنڈت جی اور خان صاحب نے ریڈیو اسٹیشن پر راگ ملہار گایا تھا۔ پنڈت جی بضد ہوئے کہ وہ خان صاحب کو گھر پہنچا دیں گے۔ راستے میں انہوں نے ولی کے مزار پر اچانک سکوٹر روک لیا اور لگے ولی کو گانے۔

کوچۂ یار عین کاسی ہے

جوگئی دل وہاں کا باسی ہے

اور وہ ولی کی شاعری میں کھو گئے جس کا مزار برسات سے دھلا اور چاندنی سے نہایا ہوا تھا۔

وہ اپنے ارادت مند ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ مزار کے پاس سے گزرتے تو فاتحہ ضرور پڑھتے تھے، باتوں باتوں میں ڈاکٹر کہتا ہے کہ ولی کے مزار کو جب توڑا گیا تو اس نے پیپر میں ان کے بارے میں پڑھا، اب ان پر وہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جس کو ان کے ملازم نے ان سے چھپایا تھا اور خان صاحب یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں: ‘مجھے معلوم تھا، مجھے معلوم تھا، صحیح جگہ پہ تھے۔’

مذکورہ بالا مثالوں سے ہم انتہا پسندوں کے مائنڈ سیٹ کو سمجھ سکتے ہیں جن کی غارت گری سے نہ جیتے جاگتے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی قبریں۔

اورنگزیب عالمگیر کے طرزِ حکمرانی کی بنیاد پر ان کی قبر کی بنیادیں ہلانے کے خواہشمند ہندوتوا کے پروانے صرف مغل حکمرانوں اور ان سے منسوب علامتوں کے درپے نہیں بلکہ فن شعر و موسیقی کی اقلیم کے وہ بے تاج بادشاہ بھی ان کے حملوں کی زد میں آئے جنہوں نے عوام کے دل و دماغ پر حکمرانی کی تھی۔ اس لیے انہوں نے ماضی میں ولی کے مزار پر دھاوا بولا اور استاد فیاض علی خاں کی قبر پر نفرت اور آگ کے شعلے بھڑکائے۔

گجرات کے سانحہ پر اہل دانش کے ردعمل سے ہم پاکستانی ظلم کے ضابطوں کے خلاف اپنی آواز کو پوری شدت اور مؤثر انداز میں اٹھانے کا چلن سیکھ سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈال کر فسادیوں کی مذمت ان لوگوں نے کی جو مسلمان نہیں تھے، تعصبات سے بالاتر ہو کر مظلوموں کی ہم نوائی کرنا شرف انسانی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے ناانصافی پر عموماً خاموشی میں عافیت سمجھی جاتی ہے، البتہ دوسرے ملکوں کی اختلافی آوازیں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔

اس مصلحت کوشی میں ہم یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ فرقہ پرست اور اقلیت دشمن گروہ کسی کے سگے نہیں ہوتے، وہ جہاں بھی ہوں، بظاہر کوئی ایک طبقہ ان کی زد میں ہوتا ہے لیکن وہ نفرت کا ایسا الاؤ بھڑکاتے ہیں کہ پورا معاشرہ جہنم بن جاتا ہے، انسانیت کے ان مجرموں کی حرکتوں کا اثر دور رس ہوتا ہے، ان کی دست برد پر ایک وقت میں خاموش رہنے والے کسی دوسرے وقت ان کا شکار بن جاتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں پاکستان سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح جتھوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ساتھ دینے والے ادارے اور افراد خود ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے جن کی کبھی انہوں نے سرپرستی کی تھی۔ انتہا پسندوں کی کارروائیاں ہوں یا ریاست کی چیرہ دستیاں ان کے بارے میں چپ سادھ لینے والے گھاٹے میں رہتے ہیں کیوں کہ جلد یا بدیر ایسے عناصر کی بھڑکائی ہوئی آگ کسی نہ کسی صورت ان تک ضرور پہنچتی ہے، اس صورت حال کو احمد مشتاق نے ایک شعر میں بیان کیا ہے:

اب جو اوروں پہ چمکتا ہے تو چپ رہتے ہو

اسی خنجر کو قریبِ رگِ جاں دیکھو گے

ہندوستان کے گجرات کا ذکر ہو تو مجھے اپنے پسندیدہ نقاد وارث علوی کی یاد ضرور آتی ہے جنہوں نے احمد آباد میں رہ کر اردو تنقید کو باثروت بنایا۔ وہ فرقہ وارانہ اور فسادات کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ بستیوں، مقبروں اور انسانی جانوں کو سیاست و اقتدار کی بھینٹ چڑھانے والوں کی ذہنیت کو وارث علوی نے برسوں پہلے اپنے ایک مضمون ‘فسادات اور فن کار’ میں بیان کیا تھا جو آج بھی حسب حال ہے:

‘یہ آج کے دور کا میکیاولی جو ہر قسم کے تخیلی، تخلیقی، روحانی اور جمالیاتی احساس سے محروم ہے، نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنے فاشی تصورات کی بلی پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قربان کروا سکتا ہے۔ اور اپنے اقدامات کے جواز میں یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ ان کی موت، ان کے غلط تصورات اور غلط سیاسی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس آدمی کو ذرا غور سے دیکھو یہ جلی ہوئی بستیوں میں جاکر اشک باری نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا کہ دو ہزار آدمی بے دردی سے مار دیے گئے۔ تین ہزار مکانات جلا دیے گئے۔ نہیں وہ ٹاﺅن ہال میں جاکر تقریر کرتا ہے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کا سبب فارسی رسم الخط، اردو زبان، چار شادیاں، تغلق اور غوری سلاطین، سرسید احمد خان، خلافت تحریک اور برقع کی رسم میں تلاش کرتا ہے۔ اس آدمی کو غور سے دیکھو کیوں کہ یہ آج کل بہت سی کتابیں اور مضامین لکھ رہا ہے جن میں پوری ایک قوم کی تاریخ مسخ کرکے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہ نتیجہ ہے اس کے پرکھوں کی حماقتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا۔ یہ آدمی جو آج کروڑوں انسانوں میں خوف، ناپائیداری اور بے چینی پیدا کررہا ہے، دوسرے انسانوں کے دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسے اقتدار پسندی اور سیاسی تصورات نے پاگل کردیا ہے۔ ‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مقبرہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز ولی دکنی کا مزار میں ولی کے مزار اس کے اوپر کے مزار کی گجرات کے جاتے ہیں مزار کے مزار کو کے ساتھ اور ان اور اس کی قبر ہے اور ہیں کہ ولی کا کے بعد

پڑھیں:

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں لیکن یہ اس کے باوجود بڑی سیاحتی کشش ہے‘ شہر کی دیوار ہر دور میں بنتی اور ٹوٹتی رہی‘ یہ آخری مرتبہ 1368میں منگ ڈائنیسٹی میں بنی اور آج تک قائم ہے‘ میں نے زندگی میں پرانے شہروں کی بیشمار دیواریں دیکھیں‘ اصفہان‘ شیراز‘ خیوا‘ استنبول‘ دمشق‘ فیض‘ غرناطہ‘ باکو اور تبلیسی کی فصیلیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور لکسر شہر کی فرعونوں کے زمانے کی دیواریں‘ پیٹرا میں حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے کی فصیلیں اور عادوثمود کی بستیوں کی قدیم دیواریں بھی دیکھنے کا موقع ملا لیکن شیان شہر کی دیوار کی کوئی مثال موجود نہیں‘ یہ واقعی دیکھنے بلکہ محسوس کرنے لائق ہے‘ ہم شہر کی مشرقی سائیڈ سے دیوار کے اندر داخل ہوئے۔

 ہمارے سامنے سرنگ نما دروازے تھے‘ یہ محراب نما تھے‘ سرنگ کے شروع میں بھی گیٹ تھا اور آخر میں بھی‘ ہم جب سرنگ سے باہر نکلے تو سامنے بڑا سا صحن تھا‘ اس کی چاروں سائیڈز پر 40فٹ بلند دیواریں تھیں‘ صحن میں بیک وقت ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکتے ہیں‘ گیٹ کے بالکل سامنے چھت پر چینی اسٹائل کی پانچ منزلہ عمارت تھی‘ اس کی ساری کھڑکیاں صحن کی طرف کھلتی تھیں‘ پرانے زمانے میں اس عمارت میں تیر انداز بیٹھتے تھے‘ عمارت کی مخالف سائیڈ پر بھی اسی نوعیت کی عمارت تھی‘ وہاں بھی یقینا تیر انداز بیٹھتے ہوں گے۔

 یہ بندوبست دشمن سے نبٹنے کے لیے تھا‘ دشمن اگر گیٹ توڑ کر اندر آ جاتا تھا تو وہ صحن میں محصور ہو کر رہ جاتا تھا اور اسے اوپر سے تیروں کی بارش کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ صحن کی دونوں سائیڈز پرسیدھی سیڑھیاں تھیں‘ سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا‘ میں نے اوپر جاتے وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس نے مجھے جوانی میں اپنی دنیا دیکھنے کی توفیق عطا کی اگر میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتا رہتا تو آج شاید میں اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکتا‘ہم اوپر دیوار پر پہنچے تو وہاں نظارہ ہی مختلف تھا‘ شہر کی بلند عمارتوں کے درمیان 39 سے 46 فٹ چوڑا واک وے تھا‘ یہ دیوار تھی‘ اس پر باقاعدہ ٹرک چلائے اور گھوڑے دوڑائے جا سکتے تھے۔

 اس کی کل لمبائی 14 کلو میٹر ہے‘ اسے پیدل عبور کرنے کے لیے تین سے چار گھنٹے درکار ہیں‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجیوں کی چوکیاں تھیں‘ ہر چوکی کے قریب ریمپ تھا‘ اس کا مقصد گھوڑوں اور پرانے زمانے کی منجنیقوں کے ساتھ اوپر نیچے آنا تھا‘ ہر چوکی سے دوسری چوکی نظر آتی تھی تاکہ سپاہی ایک دوسرے کو پیغام بھی دے سکیں اور شہر کی حفاظت بھی کر سکیں‘ شہر کے بعض حصے دیوار سے نیچے تھے‘ انھیں اوپر سے دیکھنا دل چسپ سرگرمی تھی‘ سائیڈ کی عمارتوں میں ہوٹل اور ریستوران تھے‘ بالکونیوں سے دیوار نظر آتی تھی‘ شیان کی سٹی وال چین کی گریٹ وال کا چھوٹا سا بچہ ہے‘ اس کی تعمیر میں دیوار چین جیسا مٹیریل استعمال ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر بھی دیوار چین جیسا تھا۔

شیان کی فضا میں ایک کھلا پن ہے‘ آپ کو کسی جگہ گھٹن کا احساس نہیں ہوتا‘ چین کے مختلف شہروں سے عجیب سی بدبو آتی ہے لیکن یہ بو آپ کو شیان میں محسوس نہیں ہوتی‘ موسم خوش گوار ہے‘ بارشیں ہوتی رہتی ہیں‘ ٹریفک میں نظم وضبط اور سلیقہ ہے‘ آپ کو کسی جگہ ہڑبونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی‘ حلال کھانا بھی مل جاتا ہے‘ ہم نے حلال چینی کھانا کھایا اور اسے خوب انجوائے کیا‘ یہ 12 میل کورس تھا جس میںمختلف قسم کے درجن بھر کھانے تھے‘ پورے چین میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس تین مختلف رنگوں میں ہوتی ہیں‘ گرین نمبرپلیٹ الیکٹرک گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے‘ آپ کو اگر شہر میں گرین نمبر پلیٹ نظر آئے تو اس کا مطلب ہو گا یہ گاڑی الیکٹرک ہے۔

 نیلی نمبر پلیٹ نارمل گاڑیوں کو الاٹ ہوتی ہے جب کہ سات نشستوں سے زیادہ والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پیلی ہوتی ہے اور یہ عموماً پبلک ٹرانسپورٹ یا سیاحوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں‘ سڑک پر کسی جگہ پولیس‘ فوج یا ہتھیار نظر نہیں آتے‘ میں نے گائیڈ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا پورا ملک اسمارٹ کیمروں سے منسلک ہے‘ پولیس فورس سارا دن کیمروں سے شہریوں کو دیکھتی رہتی ہے‘ حکومت نے ظاہری کیمروں کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ چین میں کوئی شخص ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ دوسرا تمام شہریوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے‘ چین کا کوئی شہری اگر کسی کیمرے میں آ گیا تو پھر اسے تلاش کرنے میں چند سیکنڈز لگتے ہیں‘ سیاحوں کو بھی بار بار کیمروں سے گزرنا پڑتا ہے۔

 ان کے پاسپورٹ بھی ہر پبلک مقام پر سکین ہوتے ہیں‘ یہ حکومت کی نظروں سے نہیں بچ سکتے چنانچہ پھر پولیس کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ گائیڈ کا کہنا تھا ہاں البتہ پولیس نے مارکیٹوں میں سفید کپڑوں میں اپنے اہلکار چھوڑ رکھے ہیں‘ یہ عوام کو چھوٹے بڑے فراڈز یا چوری چکاری سے بچاتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کے پااسپورٹس کو ٹکٹ میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ کسی بھی سیاحتی مقام کا آن لائین ٹکٹ خریدیں‘ آپ کا پاسپورٹ آپ کا ٹکٹ بن جائے گا‘ آپ پاسپورٹ سکین کرینگے اور گیٹ کھلتے چلے جائینگے‘ ہمیں ائیرپورٹ پر ایک نیا تجربہ بھی ہوا‘ تمام بڑے ائیرپورٹس پر اسکرینیں لگی ہیں‘ آپ کسی اسکرین کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیمرہ آپ کی تصویر لے گا اور اسکرین پر آپ کی اگلی فلائیٹ کا نمبر‘ ٹرمینل اور وہاں سے اس کا فاصلہ آ جائے گا‘ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے لیکن چوری چکاری کا کوئی تصور نہیں‘ اس کی وجہ ایمان داری نہیں بلکہ سسٹم ہے۔

 شہریوں کو معلوم ہے ہم نے اگر چوری کی تو حکومت سے بچ نہیں سکیں گے‘ پولیس ہمیں پاتال سے بھی نکال لے گی‘ شیان میں حلال کھانوں کی دکانوں پر چینی زبان میں سبز رنگ میں حلال لکھا ہوتا ہے‘ ہم چینی زبان نہیں جانتے تھے لیکن ہم سبز رنگ سے اندازہ کر لیتے تھے تاہم تصدیق کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے اور دکاندار جواب میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر کھانے کے حلال ہونے کی تصدیق کر دیتا تھا‘ ہمیں مرکزی مسجد میں چار پاکستانی طالبعلم ملے‘ یہ محکمہ زراعت کے ملازمین تھے اور حکومت کے وظیفے پر ٹریننگ کے لیے شیان آئے تھے۔

 ان میں لسبیلہ کا نوجوان یوسف بھی تھا‘ ہمیں ان طالب علموں نے بتایا میاں شہباز شریف نے چاروں صوبوں کے 300 زرعی ماہرین کو ٹریننگ کے لیے شیان بھجوایا‘ ان میں سے کچھ زراعت میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور کچھ لائیو اسٹاک میں‘ یہ پہلا بیچ ہے‘ دوسرا بیچ جولائی میں شیان آئے گا‘کل ہزار پروفیشنلز ٹریننگ لیں گے‘ یہ لوگ حکومت کے اس اقدام پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا ہماری ٹریننگ سے پاکستان میں زراعت اور لائیواسٹاک میں بہت فرق پڑے گا‘ شیان میں 75 یونیورسٹیاں ہیں‘ جن میں چیاؤ تھونگ یونیورسٹی (Jiao Tong) 1896 میں بنی تھی‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ تو یہ غلط نہیں تھا‘ آپؐ جانتے تھے شیان ماضی میں بھی علم کا گڑھ تھا اور یہ مستقبل میں بھی علمی مرکز ہوگا۔

ہم چین کو بدقسمتی سے 1949سے دیکھتے ہیں اور افسوس سے کہتے ہیں چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن یہ کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں پھنس کر رہ گئے‘یہ موازنہ غلط ہے‘ آپ نے اگر چین کو دیکھنا ہے تو پھر آپ کو اسے دیوار چین‘ ٹیراکوٹا وارئیرز‘ شاہراہ ریشم‘ بارود کی قدیم انڈسٹری‘ کاغذ‘ کرنسی نوٹ‘ ہاٹ ائیربیلونز اور ریشم کے کیڑوں سے دیکھنا اورپرکھنا چاہیے‘ چین قدیم زمانے سے کیپٹلسٹ (سرمایہ کار) اور بزنس فرینڈلی ملک ہے۔

 یہ لوگ قبل مسیح سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں‘ یہ ٹیکنالوجی اور علم میں بھی باقی دنیا سے بہت آگے تھے چناں چہ کام‘ سرمایہ اکٹھا کرنا اور مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے‘ مستقل مزاجی اور ان تھک کام بھی ان کے اعصاب کا حصہ ہے‘ آپ چینیوں کو کسی کام پر لگا دیں یہ صدیوں تک وہ کام کرتے رہیں گے شاید اس کی وجہ ان کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پانچ رنگ کے انسان پیدا کیے ہیں‘ یہ رنگ ان انسانوں کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں‘ سیاہ فام لوگ جسمانی طور پر تگڑے ہوتے ہیں‘ یہ بہت اچھے ملازم اور غلام ثابت ہوتے ہیں‘ سفید فام ذہنی طور پر چست اور چالاک ہوتے ہیں‘ یہ سسٹم بنانے اور چلانے کے ماہر ہوتے ہیں‘دنیا کی زیادہ تر ایجادات بھی سفید فام لوگوں نے کیں اور تحقیق بھی‘ سرخ فام بدمعاش ہوتے ہیں‘ دوسروں پر یلغار کرنا‘ انھیں اپنے گھٹنے کے نیچے رکھنا‘ لمبی جنگیں اور وسائل پر قبضہ ان کی فطرت ہوتی ہے‘آپ امریکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سرخ فام ہیں‘ پیلی رنگت کے لوگ ان تھک ہوتے ہیں۔

 یہ کوئی بھی کام پوری زندگی دائیں بائیں دیکھے بغیر کر سکتے ہیں اور پانچ ہم جیسے براؤن لوگ‘ ہم لوگ ٹک کر جم کر نہیں بیٹھ سکتے‘ ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہوتی‘ ہم ایک کام شروع کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ کر دوسرے کام میں لگ جائیں گے‘ ہم سیدھے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ کھڑے ہو سکتے ہیں‘ ہم چند منٹ کے بعد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیں گے یا میز پر سر ٹکا کر بیٹھ جائیں گے یا پھر ہمیں کام کے دوران پیشاب آ جائے گا اور ہم کام چھوڑ کر واش روم تلاش کرنا شروع کر دیں گے شاید اسی لیے ہم دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔

میں اگلے کالم میں آپ کو بیجنگ لے جاؤں گا۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی تھنک ٹینک کی شر انگیزی
  • ساحر
  • بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
  • ہم سب قصور وار ہیں
  • شیان میں آخری دن
  • بجٹ اور ہم
  • سنت ابراہیمی
  • حضرت عبداللہ شاہ غازی کا 1295 واں عرس ، تمام انتظامات مکمل
  • روس کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت:حملے خطرناک اشتعال انگیزی ہیں‘پورے خطے پر تباہ کن اثرات ہونگے.صدرپوٹن
  • ایران پر اسرائیلی حملہ کھلی اشتعال انگیزی ہے، نیتن یاہو خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں: ترک صدر