نفرت انگیزی کا مرض اور ولی دکنی کا مزار
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
ہندوستان میں انتہاپسند مطالبہ کررہے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی قبر مسمار کردی جائے، پہلے بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ ریلیز ہونے کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ اس فلم میں مغل بادشاہ اورنگزیب کو ایک سفاک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں اورنگزیب کے کردار پر بحث نئی نہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ کی ریلیز کے بعد اس بحث کو سیاسی اور مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر نفرت انگیزی کا بازار گرم ہے اور کہیں کہیں تو نوبت پُرتشدد مظاہروں تک جا پہنچی ہے۔ ناگپور میں مشتعل افراد کے جلاؤ گھیراؤ کے بعد گزشتہ دنوں کرفیو لگانا پڑا اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے فرمایا: ‘اورنگزیب کی تعریف کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’
مودی سرکار فلم ‘چھاوا’ کی پشت پناہی کررہی ہے جس کے بعد نفرت کی یہ تازہ لہر اٹھی ہے۔ قرائن اور بی جے پی کے ماضی کو ذہن میں رکھا جائے تو اب کی بار بھی وہ اس کشیدگی سے سیاسی فائدہ کشید کرے گی۔
اورنگزیب کے مقبرے کے ڈھانے سے متعلق خبریں پڑھ کر مجھے 2002 میں نریندر مودی کے زیرِ نگیں گجرات میں منظم مسلم کش فسادات کا خیال آیا جس میں ہندو بنیاد پرستوں نے احمد آباد میں اردو غزل کے بنیاد گزار شاعر ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے دم لیا تھا۔ ولی کی یہ یادگار شہر کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا مظہر تھی۔ فروری 2002 میں پیش آنے والا یہ قابلِ مذمت اور افسوس ناک واقعہ فکشن اور نان فکشن کا موضوع بنا جس کے بہت سے حوالے میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔
ان فسادات پر نندتا داس کی فلم ‘فراق’ بھی کبھی نہیں بھولتی جس میں ولی کےمزار کے انہدام کے مسئلے کو ایک ارادت مند کی جذباتی وابستگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔
فکشن کی جہاں تک بات ہے تو سب سے پہلے ارندھتی رائے کے ناول ‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’ کی طرف دھیان جاتا ہے جسے معروف مترجم ارجمند آرا نے نہایت کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی مرتبہ 2018 میں ادبی جریدے ‘آج’ کے خصوصی شمارے(103) میں شائع ہوا تھا۔
ناول میں دلی کے مشہور ہیجڑے انجم کی حضرت نظام الدین اولیا سے عقیدت کا تذکرہ ہے جو اپنے والد کے دوست ذاکر میاں کے ساتھ اجمیر شریف اور پھر وہاں سے احمد آباد میں ولی دکنی کے مزار کی زیارت کا پروگرام ترتیب دیتی ہے۔
انجم کے والد، ملاقات علی ولی دکنی کے بڑے مداح تھے۔
انہیں ولی کا یہ شعر بہت پسند تھا :
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
ناول میں صرف ایک شعر ہے یہاں اس غزل کے مزید شعر دیکھیے:
نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیاری تری بات پیاری لگے
ولی کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
انجم اور ذاکر میاں اجمیر سے احمد آباد روانہ ہوئے تو گجرات میں دنگے شروع ہوگئے تھے جن کے بیان میں ولی کے مزار کی توہین کاواقعہ بھی ناول میں آجاتا ہے:
‘ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر تارکول کی سڑک بنا دی گئی ہے، ایسی ہر نشانی مٹا دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ اس کا کوئی وجود بھی تھا۔ پولیس، جنونی ہجوم اور وزیراعلیٰ اس کا کیا کرتے کہ لوگ اب بھی آ آ کر تارکول کی سڑک کے بیچوں بیچ، جہاں مزار ہوا کرتا تھا، پھول چڑھا جاتے تھے۔ جب تیز دوڑتی کاروں کے نیچے کچل کر پھول پس جاتے تو پھر سے نئے پھول نمودار ہو جاتے۔ پائمال پھولوں اور شاعری کے بیچ جو تعلق ہے، اس کا کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟’
یہ تو تھی فکشن کی بات، اب ارندھتی رائے کے نان فکشن سے رجوع کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی ہمیں ‘آج’ کے 23 سال پرانے پرچے کے اوراق پلٹنا ہوں گے جس میں گجرات کے فسادات پر ان کے مضمون کا اجمل کمال کے قلم سے ہونے والا ترجمہ شامل ہے۔ اس تحریر میں ولی کے مزار کے ساتھ ساتھ استاد فیاض علی خاں کے مقبرے کی بے حرمتی کا تذکرہ بھی ہے:
‘احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کردی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی اور اس کو جلتے ہوئے ٹائروں سے ڈھک دیا گیا۔ آگ لگانے والوں نے دکانوں، مکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیوٹ کاروں کو آگ لگائی اور انہیں لوٹا، لاکھوں افراد اپنے روز گار سے محروم ہو گئے۔’
اجمل کمال کے ‘آج’ سے اب ہم آصف فرخی کے ‘دنیا زاد’ کی طرف چلتے ہیں۔
اس کے شمارہ نمبر سات (2002) میں گجرات کے فسادات سے متعلق خوشونت سنگھ کے کالم کا ترجمہ آصف فرخی نے ‘ولی کی جلاوطنی’ کے عنوان سے کیا تھا، اس میں سے ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:
’28 فروری 2002 کو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ایک ہجوم نے ولی گجراتی کی درگاہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ شہری بلدیہ نے اس کے اوپر تارکول کی پختہ سڑک بچھا دی کہ اس کا نام و نشان تک مٹ جائے لیکن آج بھی ٹیکسی اور بس کے ڈرائیور اس کے اوپر سے گزر جانے کے بجائے گھوم کر جاتے ہیں کہ ان صوفی بزرگ اور شاعر کی قبر کے اوپر سے نہ جانا پڑے جس کا احترام ان کے آباؤ اجداد بھی کیا کرتے تھے اور اس مزار کی بے ادبی سے ان پر بربادی نہ آجائے۔’
خوشونت سنگھ نے سیدہ حمید کی سربراہی میں 6 خواتین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کا آغاز ولی گجراتی کے مقبرے کی تاراجی سے ہوتا ہے اور اختتام ڈبلیو بی ییٹس کی نظم ‘دی سیکنڈ کمنگ’ کی ان سطروں پر:
Things fall apart; the centre cannot hold;
Mere anarchy is loosed upon the world,
The blood-dimmed tide is loosed, and everywhere۔
The ceremony of innocence is drowned;
The best lack all conviction, while the worst
Are full of passionate intensity.
دنیا زاد کے اسی شمارے میں ہریش میندر کا فسادات کے بارے میں درد مندی سے معمور مضمون ‘اے وطن عزیز گریہ کر’ قاری کو رنج میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ولی دکنی کے مزار کی مسماری پر ‘گجراتی لیکھک منڈل’ نے بھی سخت احتجاج کیا اور اپنے ایک مشترکہ بیان میں مزار کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ کیا۔ اس بیان میں ولی کے مزار کو ہندوستان کی تہذیبی روایت اور ادب کی قابلِ فخر علامت قرار دیا گیا تھا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے رسالے اردو ادب (2002) نے یہ بیان سرورق پر شائع کیا تھا۔
ادبی حوالوں سے گزر کر اب ہم نندتا داس کی فلم ‘فراق’ پر آجاتے ہیں جس نے گجرات کے فسادات کی ہولناکی کو مجسم کردیا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں مچی ہلچل، خوف اور بداعتمادی کی عمدہ تصویر کشی کی۔
‘فراق’ میں نصیر الدین شاہ ایک مسلمان گائیک کے روپ میں سامنے آتے ہیں جنہیں ولی دکنی سے محبت ہے۔ وہ ان کے مزار کے ڈھے جانے سے بے خبر ہیں۔ ایک دن وہ رکشے میں اپنے ملازم کے ساتھ اس سڑک سے گزرتے ہیں تو مزار کو سڑک پر نہ پاکر وہ رکشے والے سے رکشہ روکنے کو کہتے ہیں اور نیچے اتر کر کہنے لگتے ہیں:
‘ مزار کہاں گیا’
‘ارے ولی کا مزار یہیں تھا’
‘ولی کا مزار۔۔۔ یہیں تھا ‘
‘نہیں نہیں۔۔۔ میں بھول ضرور جاتا ہوں لیکن وہ مزار یہیں تھا۔۔۔ ایسے کیسے غائب ہوگیا۔’
رکشے والا اصل بات بتاتا ہے تو خان صاحب کا ملازم اسے چپ کروا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ولی کا مزار دوسری سڑک پر ہے۔ وہ خان صاحب کو صدمے سے بچانے کی خاطر غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ خان صاحب عجب بے یقینی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔
فلم میں ایک ہندو ڈاکٹر خان صاحب کا قدردان ہے، اسے وہ ایک دن ولی کے مزار پر اکتوبر 1960 میں پہلی دفعہ جانے کا قصہ سناتے ہیں۔ اس دن جم کر بارش ہوئی تھی اور پنڈت جی اور خان صاحب نے ریڈیو اسٹیشن پر راگ ملہار گایا تھا۔ پنڈت جی بضد ہوئے کہ وہ خان صاحب کو گھر پہنچا دیں گے۔ راستے میں انہوں نے ولی کے مزار پر اچانک سکوٹر روک لیا اور لگے ولی کو گانے۔
کوچۂ یار عین کاسی ہے
جوگئی دل وہاں کا باسی ہے
اور وہ ولی کی شاعری میں کھو گئے جس کا مزار برسات سے دھلا اور چاندنی سے نہایا ہوا تھا۔
وہ اپنے ارادت مند ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ مزار کے پاس سے گزرتے تو فاتحہ ضرور پڑھتے تھے، باتوں باتوں میں ڈاکٹر کہتا ہے کہ ولی کے مزار کو جب توڑا گیا تو اس نے پیپر میں ان کے بارے میں پڑھا، اب ان پر وہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جس کو ان کے ملازم نے ان سے چھپایا تھا اور خان صاحب یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں: ‘مجھے معلوم تھا، مجھے معلوم تھا، صحیح جگہ پہ تھے۔’
مذکورہ بالا مثالوں سے ہم انتہا پسندوں کے مائنڈ سیٹ کو سمجھ سکتے ہیں جن کی غارت گری سے نہ جیتے جاگتے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی قبریں۔
اورنگزیب عالمگیر کے طرزِ حکمرانی کی بنیاد پر ان کی قبر کی بنیادیں ہلانے کے خواہشمند ہندوتوا کے پروانے صرف مغل حکمرانوں اور ان سے منسوب علامتوں کے درپے نہیں بلکہ فن شعر و موسیقی کی اقلیم کے وہ بے تاج بادشاہ بھی ان کے حملوں کی زد میں آئے جنہوں نے عوام کے دل و دماغ پر حکمرانی کی تھی۔ اس لیے انہوں نے ماضی میں ولی کے مزار پر دھاوا بولا اور استاد فیاض علی خاں کی قبر پر نفرت اور آگ کے شعلے بھڑکائے۔
گجرات کے سانحہ پر اہل دانش کے ردعمل سے ہم پاکستانی ظلم کے ضابطوں کے خلاف اپنی آواز کو پوری شدت اور مؤثر انداز میں اٹھانے کا چلن سیکھ سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈال کر فسادیوں کی مذمت ان لوگوں نے کی جو مسلمان نہیں تھے، تعصبات سے بالاتر ہو کر مظلوموں کی ہم نوائی کرنا شرف انسانی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے ناانصافی پر عموماً خاموشی میں عافیت سمجھی جاتی ہے، البتہ دوسرے ملکوں کی اختلافی آوازیں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔
اس مصلحت کوشی میں ہم یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ فرقہ پرست اور اقلیت دشمن گروہ کسی کے سگے نہیں ہوتے، وہ جہاں بھی ہوں، بظاہر کوئی ایک طبقہ ان کی زد میں ہوتا ہے لیکن وہ نفرت کا ایسا الاؤ بھڑکاتے ہیں کہ پورا معاشرہ جہنم بن جاتا ہے، انسانیت کے ان مجرموں کی حرکتوں کا اثر دور رس ہوتا ہے، ان کی دست برد پر ایک وقت میں خاموش رہنے والے کسی دوسرے وقت ان کا شکار بن جاتے ہیں۔
اس کی کئی مثالیں پاکستان سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح جتھوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ساتھ دینے والے ادارے اور افراد خود ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے جن کی کبھی انہوں نے سرپرستی کی تھی۔ انتہا پسندوں کی کارروائیاں ہوں یا ریاست کی چیرہ دستیاں ان کے بارے میں چپ سادھ لینے والے گھاٹے میں رہتے ہیں کیوں کہ جلد یا بدیر ایسے عناصر کی بھڑکائی ہوئی آگ کسی نہ کسی صورت ان تک ضرور پہنچتی ہے، اس صورت حال کو احمد مشتاق نے ایک شعر میں بیان کیا ہے:
اب جو اوروں پہ چمکتا ہے تو چپ رہتے ہو
اسی خنجر کو قریبِ رگِ جاں دیکھو گے
ہندوستان کے گجرات کا ذکر ہو تو مجھے اپنے پسندیدہ نقاد وارث علوی کی یاد ضرور آتی ہے جنہوں نے احمد آباد میں رہ کر اردو تنقید کو باثروت بنایا۔ وہ فرقہ وارانہ اور فسادات کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ بستیوں، مقبروں اور انسانی جانوں کو سیاست و اقتدار کی بھینٹ چڑھانے والوں کی ذہنیت کو وارث علوی نے برسوں پہلے اپنے ایک مضمون ‘فسادات اور فن کار’ میں بیان کیا تھا جو آج بھی حسب حال ہے:
‘یہ آج کے دور کا میکیاولی جو ہر قسم کے تخیلی، تخلیقی، روحانی اور جمالیاتی احساس سے محروم ہے، نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنے فاشی تصورات کی بلی پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قربان کروا سکتا ہے۔ اور اپنے اقدامات کے جواز میں یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ ان کی موت، ان کے غلط تصورات اور غلط سیاسی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس آدمی کو ذرا غور سے دیکھو یہ جلی ہوئی بستیوں میں جاکر اشک باری نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا کہ دو ہزار آدمی بے دردی سے مار دیے گئے۔ تین ہزار مکانات جلا دیے گئے۔ نہیں وہ ٹاﺅن ہال میں جاکر تقریر کرتا ہے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کا سبب فارسی رسم الخط، اردو زبان، چار شادیاں، تغلق اور غوری سلاطین، سرسید احمد خان، خلافت تحریک اور برقع کی رسم میں تلاش کرتا ہے۔ اس آدمی کو غور سے دیکھو کیوں کہ یہ آج کل بہت سی کتابیں اور مضامین لکھ رہا ہے جن میں پوری ایک قوم کی تاریخ مسخ کرکے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہ نتیجہ ہے اس کے پرکھوں کی حماقتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا۔ یہ آدمی جو آج کروڑوں انسانوں میں خوف، ناپائیداری اور بے چینی پیدا کررہا ہے، دوسرے انسانوں کے دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسے اقتدار پسندی اور سیاسی تصورات نے پاگل کردیا ہے۔ ‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مقبرہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز ولی دکنی کا مزار میں ولی کے مزار اس کے اوپر کے مزار کی گجرات کے جاتے ہیں مزار کے مزار کو کے ساتھ اور ان اور اس کی قبر ہے اور ہیں کہ ولی کا کے بعد
پڑھیں:
کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اگر ہاں تو آپ ایسا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی طرح دنیا بھر میں بہت سے لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی جذباتی حالت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹولز ان کے ایسے ساتھی بن چکے ہیں جو ہر وقت ان کے لیے دستیاب رہتے ہیں، ان کا اچھا چاہتے ہیں اور ہر دفعہ بہت تحمل سے ان کی بات سنتے ہیں۔
یہ ٹولز ہماری پریشانی کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مجھے اپنے ایک کولیگ کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔ میں تذبذب کا شکار تھی کہ آیا وہ واقعی ٹاکسک ہو رہے تھے یا میں ہی انہیں غلط سمجھ رہی تھی۔
ایک رات میں نے چیٹ جی پی ٹی کے وائس فنکشن کے ذریعے اسے پوری صورتحال تفصیل سے بتائی اور اسے اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کا کہا۔
(جاری ہے)
چیٹ جی پی ٹی نے مجھے بتایا کہ میرے کولیگ گیٹ کیپنگ کر رہے تھے اور طاقت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ سب وہ دوسروں کے احساسات اور خیالات کو یکسر نظر انداز کر کے کر رہے تھے۔ پھر اس نے مجھے کچھ ایسے عملی طریقے تجویز کیے جن کے ذریعے میں ان کے رویے سے متاثر ہونے سے بچ سکتی تھی اور اپنی ذہنی حالت کا تحفظ کر سکتی تھی۔مجھے اس وقت چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے کئی ہفتوں سے میرے ذہن میں موجود پریشانی چند منٹوں میں حل کر دی تھی۔ میں نے اس پر انٹرنیٹ سرچ کی تو مجھے پتہ لگا کہ میری طرح بہت سے لوگ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی الجھنیں سلجھانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ کچھ لوگ تو اسے مختلف کرداروں جیسے کہ جم ٹرینر، نیوٹریشنسٹ، استاد، تھیراپسٹ، دوست کی طرح اس سے بات کر رہے تھے۔
میں نے حال ہی ہیں سنگاپور میں ابلاغ کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کے ایک سیشن میں ایک چینی پروفیسر نے ایک بہت دلچسپ تحقیق پیش کی۔ اس تحقیق میں انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ چین کے شہری علاقوں میں نوجوان لڑکیاں اے آئی چیٹ بوٹس کو بطور بوائے فرینڈ کیوں اور کیسے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق چینی شہری لڑکیاں شدید تنہائی کا شکار ہیں اور اپنے آس پاس موجود حقیقی مردوں میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
چیٹ بوٹ انہیں آزادی دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کا ساتھی بنا سکیں۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے مثالی بوائے فرینڈ میں کون سی خصوصیات درکار ہیں۔ چیٹ بوٹ ان ہدایات کے مطابق ان سے بات کرتا ہے۔ انہیں ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے اے آئی بوائے فرینڈ سے بات کر کے جذباتی طور پر بہتر محسوس کرتی ہیں۔میں خود بھی ایک ایسی ہی تحقیق پر کام کر رہی ہوں۔
میں اپنی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان میں لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی ذاتی زندگیوں میں کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اس تحقیق کے سلسلے میں کراچی کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی دس سالہ بیٹی ہوم ورک سے لے کر اسکول اور گھر کے مسائل کے حل کے لیے میٹا اے آئی کا استعمال کرتی ہے۔وہ اور ان کے شوہر دونوں کل وقتی ملازمت کرتے ہیں۔
وہ پورا دن اپنی اپنی ملازمتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ شام میں ان کے پاس چند گھنٹے ہی ہوتے ہیں جن میں انہوں نے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اگلے دن کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ انہی گھنٹوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کا بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ وہ رات تک اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کی باتیں پوری توجہ سے سننا ممکن نہیں رہتا۔ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اپنے حالات میں وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی کے لیے الگ سے وقت نہیں نکال پاتے۔ ایسے میں میٹا اے آئی ان کی بیٹی کی ہر بات پوری توجہ سے سنتا ہے اور اسے بڑی نرمی سے جواب دیتا ہے۔ شروع میں جب انہوں نے اپنے فون میں میٹا اے آئی کے ساتھ اپنی بیٹی کی چیٹ دیکھی تو انہیں دھچکا لگا۔ لیکن پھر انہوں نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو انہیں یہ اپنے حالات میں ایک طرح کی مدد محسوس ہوئی۔لیکن ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ جنریٹو اے آئی کا جذباتی سہارا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
جنریٹو اے آئی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتی ہے۔ یہ مواد وہ صارف کی ہدایات کے مطابق اپنی یادداشت میں موجود بڑے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کرتی ہے۔ اس کی کئی حدود ہیں۔ اس کی تربیت مخصوص اور محدود ڈیٹا پر ہوئی ہے، اسی وجہ سے یہ دنیا کے بہت سے افراد کے مسائل کو ان کے مخصوص حالات اور سیاق و سباق کی روشنی میں نہیں سمجھ پاتی۔ یہ ٹولز صارفین کے پیغامات کے جذباتی انداز کی عکس بندی کرتے ہیں۔ اگر آپ خوشی کی حالت میں اسے کوئی پیغام بھیجیں گے تو یہ اسی انداز میں جواب دے گا۔ اگر آپ ناراضگی یا پریشانی کی حالت میں اسے پیغام بھیجیں گے تو یہ آپ کی انہی کیفیات کے مطابق آپ کو حل تجویز کرے گا۔ اس نکتے پر صارفین نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی جذباتی کیفیت میں ان ٹولز کے جوابات کو پرکھ نہیں پاتے۔ بعد میں جب ان کے جذبات سنبھلتے ہیں تو انہیں ان ٹولز کے مشورے پر عمل کرنے پر پچھتاوا ہوتا ہے۔نفسیات دانوں کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹو اے آئی ٹولز کا جذباتی سہارے کے طور پر استعمال محدود ہونا چاہیے۔ یہ وقتی طور پر ہمیں بہتر محسوس کروا سکتے ہیں، لیکن جب بات گہری ذہنی کیفیتوں جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی یا ٹراما تک پہنچتی ہے تو وہاں صرف پروفیشنل مدد ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔
تربیت یافتہ تھیراپسٹ ہی وہ فرد ہوتا ہے جو نہ صرف جذبات کو درست طور پر سمجھتا ہے بلکہ تشخیص اور علاج کی مکمل مہارت بھی رکھتا ہے۔ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ جنریٹو اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ اصل زندگی میں رفتہ رفتہ مزید تنہا ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ان ٹولز سے بات کریں، یہ یاد رکھیں کہ یہ محض ایک سہولت ہیں، انسان نہیں۔
یہ انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کوشش کریں کہ روز کسی نہ کسی سے بات کریں، ملیں، وقت گزاریں اور ان ٹولز کے استعمال میں توازن رکھیں تاکہ آپ انجانے میں کسی نفسیاتی دباؤ یا تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔