WE News:
2025-06-01@07:15:47 GMT

نفرت انگیزی کا مرض اور ولی دکنی کا مزار

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

ہندوستان میں انتہاپسند مطالبہ کررہے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی قبر مسمار کردی جائے، پہلے بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ ریلیز ہونے کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ اس فلم میں مغل بادشاہ اورنگزیب کو ایک سفاک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ میں اورنگزیب کے کردار پر بحث نئی نہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ کی ریلیز کے بعد اس بحث کو سیاسی اور مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر نفرت انگیزی کا بازار گرم ہے اور کہیں کہیں تو نوبت پُرتشدد مظاہروں تک جا پہنچی ہے۔ ناگپور میں مشتعل افراد کے جلاؤ گھیراؤ کے بعد گزشتہ دنوں کرفیو لگانا پڑا اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے فرمایا: ‘اورنگزیب کی تعریف کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

مودی سرکار فلم ‘چھاوا’ کی پشت پناہی کررہی ہے جس کے بعد نفرت کی یہ تازہ لہر اٹھی ہے۔ قرائن اور بی جے پی کے ماضی کو ذہن میں رکھا جائے تو اب کی بار بھی وہ اس کشیدگی سے سیاسی فائدہ کشید کرے گی۔

اورنگزیب کے مقبرے کے ڈھانے سے متعلق خبریں پڑھ کر مجھے 2002 میں نریندر مودی کے زیرِ نگیں گجرات میں منظم مسلم کش فسادات کا خیال آیا جس میں ہندو بنیاد پرستوں نے احمد آباد میں اردو غزل کے بنیاد گزار شاعر ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے دم لیا تھا۔ ولی کی یہ یادگار شہر کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا مظہر تھی۔ فروری 2002 میں پیش آنے والا یہ قابلِ مذمت اور افسوس ناک واقعہ فکشن اور نان فکشن کا موضوع بنا جس کے بہت سے حوالے میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔

ان فسادات پر نندتا داس کی فلم ‘فراق’ بھی کبھی نہیں بھولتی جس میں ولی کےمزار کے انہدام کے مسئلے کو ایک ارادت مند کی جذباتی وابستگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔

فکشن کی جہاں تک بات ہے تو سب سے پہلے ارندھتی رائے کے ناول ‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’ کی طرف دھیان جاتا ہے جسے معروف مترجم ارجمند آرا نے نہایت کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی مرتبہ 2018 میں ادبی جریدے ‘آج’ کے خصوصی شمارے(103) میں شائع ہوا تھا۔

ناول میں دلی کے مشہور ہیجڑے انجم کی حضرت نظام الدین اولیا سے عقیدت کا تذکرہ ہے جو اپنے والد کے دوست ذاکر میاں کے ساتھ اجمیر شریف اور پھر وہاں سے احمد آباد میں ولی دکنی کے مزار کی زیارت کا پروگرام ترتیب دیتی ہے۔

انجم کے والد، ملاقات علی ولی دکنی کے بڑے مداح تھے۔

انہیں ولی کا یہ شعر بہت پسند تھا :

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

ناول میں صرف ایک شعر ہے یہاں اس غزل کے مزید شعر دیکھیے:

نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار

جسے عشق کی بے قراری لگے

ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں

پیاری تری بات پیاری لگے

ولی کوں کہے تو اگر یک بچن

رقیباں کے دل میں کٹاری لگے

انجم اور ذاکر میاں اجمیر سے احمد آباد روانہ ہوئے تو گجرات میں دنگے شروع ہوگئے تھے جن کے بیان میں ولی کے مزار کی توہین کاواقعہ بھی ناول میں آجاتا ہے:

‘ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر تارکول کی سڑک بنا دی گئی ہے، ایسی ہر نشانی مٹا دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ اس کا کوئی وجود بھی تھا۔ پولیس، جنونی ہجوم اور وزیراعلیٰ اس کا کیا کرتے کہ لوگ اب بھی آ آ کر تارکول کی سڑک کے بیچوں بیچ، جہاں مزار ہوا کرتا تھا، پھول چڑھا جاتے تھے۔ جب تیز دوڑتی کاروں کے نیچے کچل کر پھول پس جاتے تو پھر سے نئے پھول نمودار ہو جاتے۔ پائمال پھولوں اور شاعری کے بیچ جو تعلق ہے، اس کا کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟’

یہ تو تھی فکشن کی بات، اب ارندھتی رائے کے نان فکشن سے رجوع کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی ہمیں ‘آج’ کے 23 سال پرانے پرچے کے اوراق پلٹنا ہوں گے جس میں گجرات کے فسادات پر ان کے مضمون کا اجمل کمال کے قلم سے ہونے والا ترجمہ شامل ہے۔ اس تحریر میں ولی کے مزار کے ساتھ ساتھ استاد فیاض علی خاں کے مقبرے کی بے حرمتی کا تذکرہ بھی ہے:

‘احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کردی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی اور اس کو جلتے ہوئے ٹائروں سے ڈھک دیا گیا۔ آگ لگانے والوں نے دکانوں، مکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیوٹ کاروں کو آگ لگائی اور انہیں لوٹا، لاکھوں افراد اپنے روز گار سے محروم ہو گئے۔’

اجمل کمال کے ‘آج’ سے اب ہم آصف فرخی کے ‘دنیا زاد’ کی طرف چلتے ہیں۔

اس کے شمارہ نمبر سات (2002) میں گجرات کے فسادات سے متعلق خوشونت سنگھ کے کالم کا ترجمہ آصف فرخی نے ‘ولی کی جلاوطنی’ کے عنوان سے کیا تھا، اس میں سے ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

’28 فروری 2002 کو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ایک ہجوم نے ولی گجراتی کی درگاہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ شہری بلدیہ نے اس کے اوپر تارکول کی پختہ سڑک بچھا دی کہ اس کا نام و نشان تک مٹ جائے لیکن آج بھی ٹیکسی اور بس کے ڈرائیور اس کے اوپر سے گزر جانے کے بجائے گھوم کر جاتے ہیں کہ ان صوفی بزرگ اور شاعر کی قبر کے اوپر سے نہ جانا پڑے جس کا احترام ان کے آباؤ اجداد بھی کیا کرتے تھے اور اس مزار کی بے ادبی سے ان پر بربادی نہ آجائے۔’

خوشونت سنگھ نے سیدہ حمید کی سربراہی میں 6 خواتین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کا آغاز ولی گجراتی کے مقبرے کی تاراجی سے ہوتا ہے اور اختتام ڈبلیو بی ییٹس کی نظم ‘دی سیکنڈ کمنگ’ کی ان سطروں پر:

Things fall apart; the centre cannot hold;

Mere anarchy is loosed upon the world,

The blood-dimmed tide is loosed, and everywhere۔

The ceremony of innocence is drowned;

The best lack all conviction, while the worst

Are full of passionate intensity.

دنیا زاد کے اسی شمارے میں ہریش میندر کا فسادات کے بارے میں درد مندی سے معمور مضمون ‘اے وطن عزیز گریہ کر’ قاری کو رنج میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ولی دکنی کے مزار کی مسماری پر ‘گجراتی لیکھک منڈل’ نے بھی سخت احتجاج کیا اور اپنے ایک مشترکہ بیان میں مزار کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ کیا۔ اس بیان میں ولی کے مزار کو ہندوستان کی تہذیبی روایت اور ادب کی قابلِ فخر علامت قرار دیا گیا تھا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے رسالے اردو ادب (2002) نے یہ بیان سرورق پر شائع کیا تھا۔

ادبی حوالوں سے گزر کر اب ہم نندتا داس کی فلم ‘فراق’ پر آجاتے ہیں جس نے گجرات کے فسادات کی ہولناکی کو مجسم کردیا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں مچی ہلچل، خوف اور بداعتمادی کی عمدہ تصویر کشی کی۔

‘فراق’ میں نصیر الدین شاہ ایک مسلمان گائیک کے روپ میں سامنے آتے ہیں جنہیں ولی دکنی سے محبت ہے۔ وہ ان کے مزار کے ڈھے جانے سے بے خبر ہیں۔ ایک دن وہ رکشے میں اپنے ملازم کے ساتھ اس سڑک سے گزرتے ہیں تو مزار کو سڑک پر نہ پاکر وہ رکشے والے سے رکشہ روکنے کو کہتے ہیں اور نیچے اتر کر کہنے لگتے ہیں:

‘ مزار کہاں گیا’

‘ارے ولی کا مزار یہیں تھا’

‘ولی کا مزار۔۔۔ یہیں تھا ‘

‘نہیں نہیں۔۔۔ میں بھول ضرور جاتا ہوں لیکن وہ مزار یہیں تھا۔۔۔ ایسے کیسے غائب ہوگیا۔’

رکشے والا اصل بات بتاتا ہے تو خان صاحب کا ملازم اسے چپ کروا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ولی کا مزار دوسری سڑک پر ہے۔ وہ خان صاحب کو صدمے سے بچانے کی خاطر غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ خان صاحب عجب بے یقینی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔

فلم میں ایک ہندو ڈاکٹر خان صاحب کا قدردان ہے، اسے وہ ایک دن ولی کے مزار پر اکتوبر 1960 میں پہلی دفعہ جانے کا قصہ سناتے ہیں۔ اس دن جم کر بارش ہوئی تھی اور پنڈت جی اور خان صاحب نے ریڈیو اسٹیشن پر راگ ملہار گایا تھا۔ پنڈت جی بضد ہوئے کہ وہ خان صاحب کو گھر پہنچا دیں گے۔ راستے میں انہوں نے ولی کے مزار پر اچانک سکوٹر روک لیا اور لگے ولی کو گانے۔

کوچۂ یار عین کاسی ہے

جوگئی دل وہاں کا باسی ہے

اور وہ ولی کی شاعری میں کھو گئے جس کا مزار برسات سے دھلا اور چاندنی سے نہایا ہوا تھا۔

وہ اپنے ارادت مند ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ مزار کے پاس سے گزرتے تو فاتحہ ضرور پڑھتے تھے، باتوں باتوں میں ڈاکٹر کہتا ہے کہ ولی کے مزار کو جب توڑا گیا تو اس نے پیپر میں ان کے بارے میں پڑھا، اب ان پر وہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جس کو ان کے ملازم نے ان سے چھپایا تھا اور خان صاحب یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں: ‘مجھے معلوم تھا، مجھے معلوم تھا، صحیح جگہ پہ تھے۔’

مذکورہ بالا مثالوں سے ہم انتہا پسندوں کے مائنڈ سیٹ کو سمجھ سکتے ہیں جن کی غارت گری سے نہ جیتے جاگتے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی قبریں۔

اورنگزیب عالمگیر کے طرزِ حکمرانی کی بنیاد پر ان کی قبر کی بنیادیں ہلانے کے خواہشمند ہندوتوا کے پروانے صرف مغل حکمرانوں اور ان سے منسوب علامتوں کے درپے نہیں بلکہ فن شعر و موسیقی کی اقلیم کے وہ بے تاج بادشاہ بھی ان کے حملوں کی زد میں آئے جنہوں نے عوام کے دل و دماغ پر حکمرانی کی تھی۔ اس لیے انہوں نے ماضی میں ولی کے مزار پر دھاوا بولا اور استاد فیاض علی خاں کی قبر پر نفرت اور آگ کے شعلے بھڑکائے۔

گجرات کے سانحہ پر اہل دانش کے ردعمل سے ہم پاکستانی ظلم کے ضابطوں کے خلاف اپنی آواز کو پوری شدت اور مؤثر انداز میں اٹھانے کا چلن سیکھ سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈال کر فسادیوں کی مذمت ان لوگوں نے کی جو مسلمان نہیں تھے، تعصبات سے بالاتر ہو کر مظلوموں کی ہم نوائی کرنا شرف انسانی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے ناانصافی پر عموماً خاموشی میں عافیت سمجھی جاتی ہے، البتہ دوسرے ملکوں کی اختلافی آوازیں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔

اس مصلحت کوشی میں ہم یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ فرقہ پرست اور اقلیت دشمن گروہ کسی کے سگے نہیں ہوتے، وہ جہاں بھی ہوں، بظاہر کوئی ایک طبقہ ان کی زد میں ہوتا ہے لیکن وہ نفرت کا ایسا الاؤ بھڑکاتے ہیں کہ پورا معاشرہ جہنم بن جاتا ہے، انسانیت کے ان مجرموں کی حرکتوں کا اثر دور رس ہوتا ہے، ان کی دست برد پر ایک وقت میں خاموش رہنے والے کسی دوسرے وقت ان کا شکار بن جاتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں پاکستان سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح جتھوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ساتھ دینے والے ادارے اور افراد خود ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے جن کی کبھی انہوں نے سرپرستی کی تھی۔ انتہا پسندوں کی کارروائیاں ہوں یا ریاست کی چیرہ دستیاں ان کے بارے میں چپ سادھ لینے والے گھاٹے میں رہتے ہیں کیوں کہ جلد یا بدیر ایسے عناصر کی بھڑکائی ہوئی آگ کسی نہ کسی صورت ان تک ضرور پہنچتی ہے، اس صورت حال کو احمد مشتاق نے ایک شعر میں بیان کیا ہے:

اب جو اوروں پہ چمکتا ہے تو چپ رہتے ہو

اسی خنجر کو قریبِ رگِ جاں دیکھو گے

ہندوستان کے گجرات کا ذکر ہو تو مجھے اپنے پسندیدہ نقاد وارث علوی کی یاد ضرور آتی ہے جنہوں نے احمد آباد میں رہ کر اردو تنقید کو باثروت بنایا۔ وہ فرقہ وارانہ اور فسادات کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ بستیوں، مقبروں اور انسانی جانوں کو سیاست و اقتدار کی بھینٹ چڑھانے والوں کی ذہنیت کو وارث علوی نے برسوں پہلے اپنے ایک مضمون ‘فسادات اور فن کار’ میں بیان کیا تھا جو آج بھی حسب حال ہے:

‘یہ آج کے دور کا میکیاولی جو ہر قسم کے تخیلی، تخلیقی، روحانی اور جمالیاتی احساس سے محروم ہے، نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنے فاشی تصورات کی بلی پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قربان کروا سکتا ہے۔ اور اپنے اقدامات کے جواز میں یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ ان کی موت، ان کے غلط تصورات اور غلط سیاسی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس آدمی کو ذرا غور سے دیکھو یہ جلی ہوئی بستیوں میں جاکر اشک باری نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا کہ دو ہزار آدمی بے دردی سے مار دیے گئے۔ تین ہزار مکانات جلا دیے گئے۔ نہیں وہ ٹاﺅن ہال میں جاکر تقریر کرتا ہے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کا سبب فارسی رسم الخط، اردو زبان، چار شادیاں، تغلق اور غوری سلاطین، سرسید احمد خان، خلافت تحریک اور برقع کی رسم میں تلاش کرتا ہے۔ اس آدمی کو غور سے دیکھو کیوں کہ یہ آج کل بہت سی کتابیں اور مضامین لکھ رہا ہے جن میں پوری ایک قوم کی تاریخ مسخ کرکے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہ نتیجہ ہے اس کے پرکھوں کی حماقتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا۔ یہ آدمی جو آج کروڑوں انسانوں میں خوف، ناپائیداری اور بے چینی پیدا کررہا ہے، دوسرے انسانوں کے دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسے اقتدار پسندی اور سیاسی تصورات نے پاگل کردیا ہے۔ ‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مقبرہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز ولی دکنی کا مزار میں ولی کے مزار اس کے اوپر کے مزار کی گجرات کے جاتے ہیں مزار کے مزار کو کے ساتھ اور ان اور اس کی قبر ہے اور ہیں کہ ولی کا کے بعد

پڑھیں:

چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل

انگریزی کے نامور ادیب امیتابھ گھوش نے اپنی کتاب ’سموک اینڈ ایشز‘ میں برطانیہ، چین، انڈیا اور باقی دنیا پر افیون کی تجارت کے معاشی و سماجی اثرات کو موضوع بنایا ہے۔ یہ کتاب افیون کی مخفی تاریخ اور اس دھندے سے فائدہ سمیٹنے والوں کی داستان سناتی ہے، اس کے پہلو بہ پہلو اور بھی قصے چلتے ہیں۔ ایک جگہ ہندوستان میں چائے کے ارتقا کی تاریخ بھی بیان ہوئی جس میں مصنف نے اپنی اور اپنے خاندان کی چائے سے رغبت کے بارے میں بھی بتایا ہے، ان کا کہنا ہے وہ واقعتاً اس کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

یہی حال ان کی والدہ کا تھا بلکہ شعور کی منزلیں طے کرتے انہوں نے اپنے آس پاس قریباً ہر کسی کو اسی حال میں پایا، ان کی دانست میں چائے نہ صرف ان کی صحت مندی کے لیے لازمی تھی بلکہ اسے انڈین شناخت کا اہم عنصر سمجھا جانے لگا تھا۔ ان کے خیال میں بہت سے دوسرے انڈینز کی طرح چائے اب ان کے لیے ناگزیر اور آئینی ضرورت بن چکی ہے اور ان کے بقول آج انڈیا میں چائے کا درجہ وہی ہے جو امریکیوں کے لیے ایپل پائی کا ہے۔

امیتابھ گھوش کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے زیادہ تر ہندوستانی چائے کو ناپسند کرتے اور اسے شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن پھر اشتہاروں کے ذریعے ان کے ذہن بدلے گئے۔ 40 کی دہائی میں برصغیر میں چائے کو مقبولیت حاصل ہوئی تو یہ جدید انڈیا کی شاید سب سے شاندار اشتہاری مہم کا نتیجہ تھی جس میں چوٹی کے آرٹسٹوں اور ڈیزائنرز نے حصہ لیا اور عظیم فلم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے اور انڈیا میں کمرشل ڈیزائن کے بانی آنند منشی کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔

امیتابھ گھوش نے کتاب میں آنند منشی کی ایک تصویر شامل کی ہے جس میں چرخہ کاتنے کی مشین کے ساتھ ساڑھی میں ملبوس ہندوستانی خاتون کو چائے نوش کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کا کیپشن ہے: ’چائے سو فیصد سودیشی ہے۔‘ اس سے لوگوں کے ذہن میں چرخے اور مدر انڈیا جیسی ٹھوس علامتوں کو چائے سے رلا ملا کر بدیشی مال کو دیسی مال قرار دیا گیا تھا۔

یہ اشتہار کی اس قوت کا ابتدائی زمانہ ہے جس کی انتہا ہم اب دیکھ رہے ہیں جس میں اشتہار نے انسان کی خود مختاری اور خود اختیاری پر کاری ضرب لگا کر اس کے دل و دماغ کو مٹھی میں کر رکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف برانڈز کی چائے کے اشتہارات اب بھی عام ہیں جس کی ایک بڑی مثال کرکٹ میچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ میدان میں چائے پینے کے لیے ایک گوشہ مختص کر کے اسے تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وقفے وقفے سے اس کے اشتہارات چلتے رہتے ہیں۔ چائے کا کرکٹ سےدیرینہ رشتہ ہے اور ٹیسٹ میچ کی ایک خوب صورتی چائے کا وقفہ بھی ہے، کسی زمانے میں چائے کھلاڑیوں کو میدان میں ہی ’سرو‘ کی جاتی تھی۔

بات کرکٹ اور چائے کے اشتہارات کی ہو رہی تھی تو یہ کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ چائے اور دیگر اشیا کے اشتہاروں کی پیہم یلغار نے ٹی وی پر میچ دیکھنے کا لطف غارت کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے آپ میچ نہیں اشتہار نامہ دیکھ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا عمدہ تجزیہ معروف مارکسسٹ دانشور اعجاز احمد نے اپنے خطبے ’عالمی ادب اور ذرائع ابلاغ‘ میں کیا تھا جس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’کرکٹ میں آپ ایک وقت میں ایک اوور دیکھتے ہیں، اسی پر کمنٹری سنتے ہیں، اوور کے بیچ میں چار اشتہار دیکھتے ہیں، ہر کھلاڑی کا لباس اشتہار ہوتا ہے، کھیل کا میدان اشتہارات سے بھرا ہوتا ہے، وکٹ گرتی ہے تو پھر کارپوریٹ کیپیٹل کی عیش ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ پھر آپ کو 10 اشتہار دکھا دے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کس کی وکٹ گری! وہ آسٹریلین ٹیم کی ہو، انڈین ٹیم کی ہو، پاکستانی کی ہو۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرکٹ کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کا بنیادی مقصد تو اسے اشیا کے اشتہار کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آپ کے جو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں وہ چلتی پھرتی اشیا ہیں۔ وہ اشتہار کی مدد سے اشیا بیچتے ہیں۔ ان سب کا اشیائے صرف میں بدل جانا آپ زندگی کے ہر شعبے میں دیکھ سکتے ہیں۔‘ ( بحوالہ ادبی کتابی سلسلہ ’لاہور‘، ہندی سے ترجمہ: ارجمند آرا)

اب دوبارہ چائے کی طرف چلتے ہیں، اس کے اشتہاروں میں ہم نے اپنے زمانے کے مشہور لوگوں کو تو دیکھ ہی لیا ہے اب ہم آپ کو پرانے وقتوں کی دو مثالوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق علامہ اقبال سے ہے۔ یہ بات پروفیسر سی ایم نعیم کی کتاب ’منتخب مضامین‘ میں شامل مضمون ’پرانے اخبار اور رسائل‘ کے ذریعے میرے علم میں آئی ہے اور یہ آپ کو بھی دلچسپ معلوم ہوگی:

’ان پرانے اشتہاروں میں کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی نظر آجاتی ہیں جن کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔ ’تہذیب نسواں‘ کے 14 مارچ 1931 کے شمارے میں ’سبز چائے‘ یا ’گرین ٹی‘ کے ایک لاہوری تاجر کا اشتہار شائع ہوا تھا، جسے میں نے ’نیرنگِ خیال‘ کے کسی شمارے میں بھی دیکھا تھا، اوپر موٹے حروف میں ’اعلیٰ سبز چائے‘ لکھ کر جلی حروف میں یہ عبارت درج کی گئی تھی :

کیا فرماتے ہیں ملک الشعرا جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اس کی تعریف میں کہ :

چائے سبز است کیمیائے شباب

پیر صد سالہ را جواں سازد

اشتہار کے شعر میں علامہ کی حس ظرافت کی جو جھلک ملتی ہے اسے عرصے سے ہم نے تصور کرنا بھی چھوڑ دیا ہے حالاں کہ ’بانگِ درا‘ میں اپنا ظریفانہ کلام شامل کرنے میں خود اقبال نے دریغ نہیں کیا تھا۔

شاعری میں علامہ اقبال کی شہرت برصغیر کے اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی تو گلوکاری میں کے ایل سہگل کی آواز کا ہندوستان میں ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ ایک طرزِ احساس کے نمائندہ بن گئے تھے۔ ایسے میں ان کی نگر نگر پھیلی مقبولیت سے چائے والوں نے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔

اردو کے ادبی رسائل میں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔

تقسیم سے پہلے کے رسالے میری دلچسپی کا خاص محور ہیں، ایک دن 1946 کے ’ادبی دنیا‘ کے ایک شمارے میں انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ کے اشتہار میں کے ایل سہگل کا بھرپور طریقے سے ’استعمال‘ دیکھ کر میں رک گیا، اس میں ان کا سکیچ ہے اور تعارف بھی لیکن چیزے دیگری چائے کے آرٹ سے سمبندھ کو اجاگر کرتی لائنوں کے بعد سہگل کا چائے کے بارے میں قول زریں ہے، آپ یہ دونوں ملاحظہ کرکے جان سکتے ہیں کہ برصغیر میں چائے کی تشہیری مہم کے کیا رنگ ڈھنگ رہے ہیں:

’ساری دنیا کے بڑے بڑے آرٹسٹوں نے چائے کے حسن و خوبی سے محبت کرنا سیکھ لیا ہے، کوئی بھی دوسری چیز دماغ میں آرٹ کے تخلیق کرنے کی صلاحیت کو اتنا زیادہ متحرک نہیں کرتی۔ سنہری آواز والے سہگل کیا فرماتے ہیں، پڑھیے: میں بتاتا ہوں کہ چائے سے مجھے اتنی رغبت کیوں ہے، وجہ یہ ہے کہ گانا، ایکٹنگ اور ہر وہ کام جس سے مجھے اصلی خوشی حاصل ہوتی ہے، چائے میری طبیعت کو موزوں کر دیتی ہے۔‘

گلوکاروں کے چائے کی تشہیری مہم میں حصہ بننے کی ایک مثال ہیرا بائی بڑودیکر کی بھی ہے جو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے استاد عبدالکریم خاں صاحب کی صاحبزادی تھیں، ان کے بارے میں داؤد رہبر نے ’باتیں کچھ سریلی سی‘ میں لکھا ہے کہ غم کی دولت انہیں باپ سے ورثے میں ملی تھی، اس لیے وہ جوانی میں بھی اداس اداس گانا گاتی تھیں۔ 1947 میں معروف جریدے ’عالمگیر‘ (لاہور) میں چائے کے اشتہار میں ہیرا بائی بڑودیکر کی چائے کے بارے میں رائے نقل ہوئی ہے جس کے بعد کا رائٹ اپ بھی مزے کا ہے :

’فن موسیقی کی بے نظیر استادِ وقت فرماتی ہیں کہ ’مجھ کو چائے سے بے حد رغبت ہے اس لیے کہ میں نے تجربے سے اس کو خوشگوار متحرک دماغ جانا۔ گانے والوں کے لیے یہ نہایت ہی اہم اور ضروری شے ہے۔‘

ساری دنیا کے لوگ اور بالخصوص آرٹسٹوں کو اس کا تجربہ ہوگیا ہے کہ چائے کے مقابلہ میں کوئی بھی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو دماغ کو اتنا زیادہ تازہ زرخیز اور بار آور بنا سکتی ہے۔

برصغیر کے عوام کو چائے کی لت لگانے کے لیے اشتہارات کے ساتھ ساتھ دوسرے طریقے بھی اختیار کیے گئے۔ مثلاً اس کی پڑیاں گھر گھر پھینکی گئیں اور اسے بہت ارزاں قیمت پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس طریقہ واردات کی ایک جھلک پران نول کی کتاب ’لاہور اے سینٹی مینٹل جرنی‘ میں دیکھی جاسکتی ہے:

’تیس کی دہائی کے دوران انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ نے چائے کو مقبول بنانے کے لیے ایک زبردست مہم چلائی، لاہور کے بازاروں اور گلیوں میں نمایاں جگہوں پر موبائل ٹی اسٹال بنائے گئے جس میں چائے کی تیاری کا عملی مظاہرہ پیش کیا جاتا۔ چائے کے گرما گرم کپ مفت تقسیم کیے جاتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک چھوٹا پیکٹ مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا جس کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ جلد ہی چینی کے برتنوں میں چائے پینا نوجوان نسل کا فیشن بن گیا.’(ترجمہ: نعیم احسن)

صاحبو! چائے نے اشتہارات کے بل بوتے پر برصغیر میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر لی ہیں کہ اب یہ پینے والوں کی ’بشری کمزوری‘ بن چکی ہے۔ اس لیے جب تین سال پہلے وفاقی وزیر احسن اقبال نے قوم کو چائے کم پینے کا مشورہ دیا تو چائے کے ’شیدائیوں‘ نے ان کی خوب خبر لی تھی، کیوں کہ آخر ہم پاکستانی بھی تو امیتابھ گھوش کی طرح چائے کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews احسن اقبال اشتہار افیون امیتابھ گھوش برصغیر بھارت چائے علامہ اقبال کرکٹ محمودالحسن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں
  • بھارتی عوام مودی سرکار کی نفرت کی سیاست کے خلاف یک زبان
  • چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل
  • حقیقتیں
  • ’’انصاف‘‘
  • جنگی اذیتیں
  • آئی ایم ایف ہی کی سن لیں
  • ہمسایہ ملک کی اشتعال انگیزی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے، اسحق ڈار
  • ہمسایہ ملک کی اشتعال انگیزی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے، اسحاق ڈار
  • نیتن یاہو کی اشتعال انگیزی، مشرقی بیت المقدس پر قبضے کی متنازع ویڈیو جاری کردی