ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری سے فارما سیکٹر میں اہم پالیسی کا نفاذ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی معاونت سے فارما انڈسٹری میں ڈیریگولیشن پالیسی کا نفاذ ملکی معیشت کے لیے مثبت پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔
فارماسیوٹیکل قیمتوں کی ڈی ریگولیشن سے اس اہم شعبے کا منافع 210 فیصد اضافے کے ساتھ 13.5 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
ڈی ریگولیشن پالیسی کے نفاذ کے بعد فارما سیکٹر کی 3 اہم کمپنیوں کے منافع میں 44 فیصد سے لے کر 339 فیصد تک زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
2024 میں فارما سیکٹر کی مجموعی آمدن 21.
ڈی ریگولیشن سے ادویات کی دستیابی بہتر، پیناڈول سمیت اہم ادویات کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی فارما انڈسٹری مزید پرکشش، عالمی سرمایہ کاری کے امکانات روشن، اور سالانہ برآمدات 5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
ڈیریگولیشن سے ادویات کی قیمتوں میں شفافیت، مسابقت میں اضافہ اور معیاری ادویات تک رسائی ممکن بنائی جا رہی ہے۔
پالیسی کے تحت کمپنیوں کو نئی ادویات پر جدید تحقیق بڑھانے کی ترغیب، معیاری ادویات کی تیاری میں مزید بہتری متوقع ہے۔
اس اہم حکومتی اقدام کی بدولت غیر معیاری اور مہنگی ادویات کی روک تھام بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔
ایس آئی ایف سی کے تعاون سے پاکستانی فارما انڈسٹری کا ترقی کی راہ پر گامزن ہونا معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایس آئی ایف سی ڈیریگولیشن فارما انڈسٹریذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایس ا ئی ایف سی ڈیریگولیشن فارما انڈسٹری فارما انڈسٹری ادویات کی ایف سی
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔