امریکی سینیٹر کوری بُوکر نے سینیٹ میں طویل ترین تقریر کا ریکارڈ توڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر کوری بُوکر کی طویل تقریر نے انہیں ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کیلئے نمایاں کر دیا ہے۔ سینیٹر کوری بُوکر 2020ء میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں ناکام رہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے سینیٹر کوری بُوکر کی سینیٹ میں 24 گھنٹے سے میراتھون تقریر جاری ہے، سینیٹر نے طویل ترین تقریر کا ریکارڈ توڑ دیا، اس سے پہلے جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر اسٹارم تھرمنڈ نے امریکی سینیٹ میں طویل ترین تقریر کی تھی۔ ینیٹر اسٹارم تھرمنڈ نے1857ء میں سول رائٹس ایکٹ پر 24 گھنٹے 18 منٹ تقریر کی تھی۔ سینیٹر کوری بُوکر ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید کر رہے ہیں، سینیٹر کوری ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیوجرسی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کوری بُوکر نے پیر کی شام سات بجے تقریر شروع کی تھی، جنھیں اب 24 گھنٹے سے زائد کا وقت ہوگیا ہے۔
سینیٹر کوری بُوکر میراتھون تقریر کے دوران سینیٹرز کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں، کہا جب تک جسمانی طور پر قابل رہا، بولتا رہوں گا۔ امریکی عوام اور امریکی جمہوریت کو سنگین اور فوری خطرات لاحق ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر کوری بُوکر کی طویل تقریر نے انہیں ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کیلئے نمایاں کر دیا ہے۔ سینیٹر کوری بُوکر 2020ء میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں ناکام رہے تھے۔ کوری بُوکر نیوجرسی کے سب سے بڑی شہر نیویارک کے 2006ء سے 2013ء تک میئر رہ چکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سینیٹر کوری ب وکر صدارتی امیدوار
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔