تیمور جھگڑا اور علی امین گنڈاپور میں جھگڑا کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی قیادت پارٹی میں کسی بھی گروپ بندی سے انکاری ہے، پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر نے پارٹی کی صوبائی حکومت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے گوربا چوف، جے یو آئی نے فضل الرحمان کے خلاف بیان پر وضاحت مانگ لی
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نےتقریباً 10 کروڑ روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں اور وزیراعلیٰ کے مطابق انہوں نےایک سال میں پارٹی پر 75 کروڑ روپے خرچ کیے لیکن احتساب کمیٹی وزیراعلیٰ کی اس بات پر غور کیوں نہیں کر رہی؟
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کو مجھے کے پی کابینہ میں شامل کرنےکا کہا تاہم وزیراعلیٰ نے تجویز دی کہ پارٹی کی انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی کمیٹی سےمیری کلیئرنس ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے مجھ پر مبینہ کرپشن کا معاملہ باربار اٹھایا گیا۔میرے معاملے پر کمیٹی کسی بھی نتیجے پر پہنچےگی تو میری طرف سے مشکوک سمجھا جائےگا۔
یہ بھی پڑھیں:9 مئی توڑ پھوڑ: تیمور جھگڑا، ارکان اسمبلی سمیت 115 پر فرد جرم عائد
واضح رہے کہ تیمور جھگڑا پر ان کی اپنی پارٹی کی جانب سے 36 ارب کی خورد بردکا الزام ہے، اس مبینہ خورد برد پر پی ٹی آئی احتساب کمیٹی نے تیمور جھگڑا سےجواب طلب کیا ہے۔
تیمور جھگڑا نے پارٹی کی انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی کمیٹی کے سوالنامے پر تحریری ردعمل بھجوادیا ہے اور کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہےکہ انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی کمیٹی کا سوالنامہ منفی اور سیاسی بدنیتی پرمبنی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھےصوبائی کابینہ کا حصہ بننے کی کوئی خواہش نہیں تاہم میں اپنا جواب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور مرکزی جنرل سیکرٹری کو پیش کروں گا۔
تیمور جھگڑا نے صوبائی حکومت سے سوال کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کےکہنےکے باوجود وہ 9 مئی کے واقعات کی انکوائری کرانے میں ناکام کیوں ہے؟
ان کا یہ بھی سوال ہے کہ کے پی حکومت دھاندلی کی انکوائری کرانے میں کیوں ناکام رہی؟ نیز یہ کہ کے پی حکومت نےمفت آٹے کی تقسیم کےمعاملے پر انکوائری کیوں شروع نہیں کی؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انترنل اکاؤنٹیبیلیٹی تیمور جھگڑا علی امین گنڈاپور عمران خان کرپشن کے پی حکومت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تیمور جھگڑا علی امین گنڈاپور کے پی حکومت تیمور جھگڑا پی ٹی آئی پارٹی کی کیا ہے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔