کیپرا نے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 37.37 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کر لیے
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی ( کیپرا) نے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 37.37 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کر لیے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہیں۔
ترجمان کیپرا کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں 26.58 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کیے گئے تھے جبکہ اس سال ادارے کے محاصل میں 10.
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا؛ صوبائی حکومت نے ایکشن پلان میں 18 موضوعات پر 84 اقدامات تجویزکردیے
رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں 28.8 ارب روپے جبکہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سس کی مد میں 8.57 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کیے گئے۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں کیپرا نے سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں 22.8 ارب روپے جبکہ انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سس کی مد میں 3.74 ارب روپے جمع کیے گئے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں 26 فیصد جبکہ انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سس کی مد میں 129 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ ادارے کی غیر معمولی کارکردگی کا ثبوت ہے۔
ڈائریکٹر جنرل کیپرا فوزیہ اقبال نے ادارے کے افسران اور عملے کی محنت اور لگن کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر یہی جوش و جذبہ برقرار رہا تو جون کے اختتام تک ہم نہ صرف رواں مالی سال کے لیے مقررہ 47 ارب روپے کے ہدف کو حاصل کریں گے بلکہ اس سے زائد محاصل اکٹھے کرکے سرخرو ہوں گے۔ انہوں نے ٹیکس دہندگان کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے کیپرا پر اعتماد کیا اور بھرپور تعاون فراہم کیا جس سے خیبر پختونخوا کو مالی طور پر خودمختار بنانے کے ہدف کی تکمیل میں مدد ملی۔
انہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، جناب علی امین گنڈاپور، اور مشیر برائے خزانہ، جناب مزمل اسلم، کا بھی شکریہ ادا کیا، جن کی رہنمائی اور تعاون نے کیپرا کو مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے میں مدد دی اور ادارے کو اپنے اہداف کے حصول کی راہ پر گامزن کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں رواں مالی سال کے کی مد میں
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔