ہم دریائے سندھ سے 6 کینالز نکالنے کے مخالف ہیں، عبدالغفور حیدری
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ف) کے سینئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ہم دریائے سندھ سے 6 کینالز نکالنے کے مخالف ہیں۔
کراچی سے جاری بیان میں مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ دریائے سندھ کے پانی پر چاروں صوبوں کا کوٹا متعین ہے، جے یو آئی 6 کینالز نکالنے کی مخالفت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے 6 کینال نکالنے کا منصوبہ ترک کیا جائے، اس وقت پورا سندھ اور تمام سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔
جے یو آئی رہنما نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے 6 کینال معاہدے پر دستخط کیے، وہ اب عوامی دباؤ کی وجہ سے پریشان ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ سے 6 کینال نکالنا باقی صوبوں سے زیادتی اور نفرت کا باعث بنے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: دریائے سندھ سے 6
پڑھیں:
سندھ میں پانی کا موجودہ بحران
پانی کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے زندگی کی بنیاد ہے اور پاکستان بالخصوص سندھ جیسے زرعی صوبے کے لیے پانی کا تحفظ زندگی اور معیشت کا سوال ہے، پنجاب ‘ بلوچستان ‘ خیبر پختون خواہ سمیت ملک بھر میں پانی کا بحران شدت سے سر اٹھا رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں سندھ کو پانی کے جس شدید بحران کا سامناکرنا پڑ رہا ہے، اس کے اثرات زراعت، ماحول، صحت‘ معیشت اور سماجی نظام تک پھیل چکے ہیں۔
دریائے سندھ صدیوں سے سندھ کی تہذیب اور تمدن کا مرکز رہا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب اسی دریا کے کنارے پروان چڑھی۔ یہ دریا نہ صرف پینے کے پانی، زراعت اور روزگار کا ذریعہ ہے، بلکہ ایک ثقافتی اور روحانی اہمیت بھی رکھتا ہے۔
دریائے سندھ دھرتی کی روح ہے اور صدیوں سے یہاں کے لوگوں کا اس کے ساتھ ایک گہرا روحانی تعلق رہا ہے۔ یہ صرف پانی کی ایک دھارا نہیں بلکہ زندگی، تہذیب اور شناخت کا مظہر ہے۔ سندھ کے لوگ اسے ’’ اُتم ماتا ‘‘ یعنی عظیم ماں کا درجہ دیتے ہیں،کیونکہ یہی دریا ان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، ان کی معیشت کو سہارا دیتا ہے،اور ان کی ثقافت کو جنم دیتا ہے۔
دریائے سندھ کو صوفی شاعروں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور دیگر نے اپنی شاعری میں روحانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے کلام میں سندھُو ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو فطرت سے جوڑتی ہے، دلوں کو پاک کرتی ہے اور خدا کی قربت کا وسیلہ بنتی ہے۔ سندھُو کی روانی صوفیانہ وحدت الوجود کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو ظاہر و باطن کو ملا دیتی ہے۔ تاہم، آج یہ دریا اپنی قدرتی عظمت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے دریائے سندھ پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر، پانی کے غیر منصفانہ بٹوارے اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس کی قدرتی روانی کو متاثر کیا ہے۔ سندھ کے عوام اور ماہرین اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سندھ کے آخری علاقوں، خاص طور پر ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں دریا کا پانی پہنچنا بند ہوگیا ہے۔
سندھ ڈیلٹا، جو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہے، دریائے سندھ کے پانی کے بغیر صحرا میں بدل رہا ہے۔ میٹھے پانی کی کمی کے باعث سمندر آگے بڑھ رہا ہے اورکھارے پانی کی یلغار نے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینوں کو بنجرکردیا ہے۔
سندھ کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے اور زراعت کا انحصار مکمل طور پر پانی پر ہوتا ہے۔ گندم، چاول، کپاس، گنا اور سبزیاں سندھ کی بڑی فصلیں ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں پانی کی کمی کے باعث یہ فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
نہری نظام کی زبوں حالی، پانی کی چوری، غیر مؤثر انتظام اور پرانے انفرا اسٹرکچر کے باعث کئی علاقوں کو ان کا حصہ کا پانی نہیں مل پاتا۔ چھوٹے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں،کیونکہ وہ نہ تو ٹیوب ویل لگا سکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی ٹیکنالوجی استعمال کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً، ان کی زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں، فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔
مزید برآں، پانی کی غیر موجودگی یا قلت نے مال مویشی پالنے والے افراد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جانوروں کے لیے چارہ اگانے میں دشواری، پینے کے پانی کی قلت اورگرمیوں میں پانی کا بحران ان کے لیے ایک مسلسل چیلنج ہے۔پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ پانی کی آلودگی بھی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔
دریائے سندھ اور اس سے جڑی نہریں صنعتی فضلہ، زرعی کیمیکل، سیوریج اورگھریلو کوڑا کرکٹ سے آلودہ ہو رہی ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں میں پانی کی صفائی کا مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے آلودہ پانی نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ انسانوں میں جلدی، معدے، گردے اور جگر کی بیماریاں بڑھا رہا ہے۔
پینے کا صاف پانی اکثر دیہی علاقوں میں نایاب ہو چکا ہے۔ لوگ جوہڑوں، تالابوں یا آلودہ نہری پانی پر انحصارکرتے ہیں، جس سے ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور دیگر وبائیں عام ہو چکی ہیں۔
سندھ میں خشک سالی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی نہ ہونے سے نہ صرف ماحولیاتی بحران پیدا ہوچکا ہے، جس کا اثر سندھ کے کئی اضلاع پر بھی پڑ رہا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی نے سجاول، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کی زرعی زمینوں کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندرکی نذر ہو چکی ہے۔
حال ہی میں وفاقی سطح پر چولستان کے ریگستانی علاقے میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان سندھ کو اس پانی کی مزید کمی کی صورت میں ہوگا، جو پہلے ہی ضرورت سے کم مقدار میں اسے مل رہا ہے۔
سندھ کے بیشتر اضلاع، خاص طور پر زیریں سندھ کے علاقے پہلے ہی پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں، اگر چولستان کے لیے الگ سے نہر نکالی جاتی ہے تو مزید پانی اوپر ہی روک لیا جائے گا اور سندھ کے جنوبی اضلاع جیسے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور تھرپارکر کو دریا کا پانی شاید مزید کم ملے گا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس منصوبے پر سندھ کی قیادت اور ماہرین کو اعتماد میں لیے بغیر کام شروع کیا جا رہا ہے، جو آئینی اور بین الصوبائی اتفاق رائے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم ایک نازک توازن پر قائم ہے اور اس میں کسی بھی نئی نہر کا اضافہ اس توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مزید یہ کہ چولستان میں نہر نکالنے سے ماحولیاتی اثرات بھی پیدا ہوں گے۔ پانی کی سطح میں کمی، ڈیلٹا کی مزید تباہی اور سمندرکے کھارے پانی کی پیش قدمی جیسے اثرات مزید شدید ہو سکت ے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اقدام سندھ کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور بین الصوبائی اختلافات کو بڑھا رہا ہے۔
چولستان میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ، موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک بھر میں پانی کے بٹوارے پر شفاف، منصفانہ اور آئینی اصولوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ سندھ کے بنیادی حقِ پانی کو محفوظ بنائے بغیر معیشت نہیں سنور سکتی ہے۔