ریاست بہاول پور (دوسری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
مزید محلات دیکھنے کی کوئی صورت اب نہ تھی۔ وقت ضائع کرنے کی بجائے ہم نے قلعہ ڈیراور کی جانب جانا مناسب سمجھا۔ گاڑی سے باہر ٹھیک ٹھاک سردی تھی۔ دھند تھی اور ہم گاڑی میں قلعہ ڈیراور جانے والی شاہراہ پر تھے۔ گاڑی میں موسم کی شدت کا ذرا بھی اندازہ نہ ہوتا تھا۔
ہیٹر چپ رہا تھا۔ مجھے تب اندازہ ہوا کہ موسم کی کوئی اہمیت نہیں اگر آپ کے آسائشیں موجود ہیں۔ کچھ مال و دولت موجود ہے تو ٹھنڈا موسم بھی گرم ہوجاتا ہے اور گرم موسم بھی ٹھنڈا۔ گاڑی میں ہی فیض صاحب مجھے قلعہ ڈیراور کی تاریخ بتانے لگے کہ اتنے میں ہم قلعہ ڈیراور پہنچ گئے۔ یہ 1733 سے پہلے کی بات ہے جب شکارپور، اوچ شریف اور ان کے اطراف میں عباسی خاندان کے صادق خان کی حکومت تھی جو بعد میں نواب صادق خان اول کہلائے۔ اسی زمانے میں جیسل میر کا راول صحرا چولستان کے سب سے بڑے قلعے دراوڑ پر قابض تھا۔ نواب صادق خان ایک بار اپنے ہی معاملات کی وجہ سے اپنے مرکز سے دور تھے۔
جیسل میر کے راول کو اس بارے خبر ہوئی تو اس نے اوچ شریف پر حملہ کردیا اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا، تاہم وہ اوچ شریف پر قبضہ نہ کرسکا۔ 1733 میں گورگیج قبیلے کے سردار خیر محمد نے صادق خان سے فوجی مدد کی درخواست کی۔ سردار خیر محمد اور جیسل میر کے راول کی آپس میں اچھی دوستی تھی۔ نواب صادق خان نے فوجی مدد دینے سے معذرت کرلی بلکہ الٹا مشورہ دیا کہ وہ اپنے دوست جیسل میر کے راول سے مدد حاصل کریں۔ خیر محمد نے ایسا ہی کیا۔
ان دنوں جیسل میر اور بیکانیر پہلے سے ہی حالت جنگ میں تھے مگر پھر بھی جیسل میر کے راول نے اپنے دوست اور گورگیج قبیلے کے سردار خیر محمد کو فوجی مدد فراہم کی جس کی وجہ سے قلعہ دراوڑ میں فوج کی کمی ہوگئی۔ اس فوجی کمی کا فائد اٹھاتے ہوئے نواب صادق خان اول نے اپنا پرانا بدلہ لیا اور قلعہ دراوڑ پر حملہ کردیا۔ جیسل میر کی افواج کی مدد کے لیے ملتان سے بھی فوج آئی مگر صادق خان اول کی فوج نے ملتان کی فوج کو قریب بھی نہ آنے دیا۔ قلعے کی فصیل میں ایک بڑا سا سوراخ کر کے اسے دھماکاخیز مواد سے اڑا دیا گیا اور یوں پہلی بار قلعہ دراوڑ براہ راست عباسی خاندان کے قبضے میں چلا گیا۔
بعد میں یہ قلعہ ایک بار پھر سے جیسل میر کے راول کے پاس چلا گیا مگر نوابوں نے اسے پھر حاصل کرلیا۔ کچھ عرصہ یہ افغانوں کے پاس بھی رہا مگر 1759 میں نواب مبارک عباسی نے اسے ایک معاہدے کے تحت بغیر کسی جنگ کے حاصل کرلیا۔ تب سے اب تک یہ عباسی خاندان کی ہی ملکیت ہے۔ کہتے ہیں کہ عباسی خاندان کے پاس آنے کے بعد جب قلعہ کی فصیل کو بلند کیا گیا تو چھوٹی اینٹ اوچ شریف سے منگوائی گئی۔ قلعہ سے اوچ شریف تک تقریباً ستر کلو میٹر لمبی انسانی ہاتھوں سے ایک زنجیر بنائی گئی اور اس طرح اوچ شریف سے اینٹوں کو قلعہ لایا گیا۔ جب پہلی بار قلعہ راول سے عباسی خاندان کے پاس آیا تو راجا راول نوعمر تھا۔
قلعے کی شکست کے آثار دیکھے تو ماں کے ساتھ قلعے کے اندر موجود سرنگ کے ذریعے بھاگنے کی کوشش کی مگر پکڑا گیا۔ ملکہ کے اصرار اور بیش بہا دولت کی پیش کش کے باوجود فاتح نواب نے فتح کے نشے میں چُور ہونے کی وجہ سے راجا کی گردن اڑا دی اور پھر ملکہ کو بھی قتل کردیا۔ تین نواب مستقل طور پر قلعہ ڈیراور/ ڈراور میں قیام پذیر رہے مگر پھر نوابوں نے اپنی رہائش کو بہاول پور منتقل کردیا۔ 1955 تک نواب صادق محمد خان عباسی کبھی کبھار قلعہ ڈیراور جاتے رہے۔
تب تک عباسی خاندان کے 250 محافظ بھی قلعے میں تعینات ہوتے تھے مگر بعد میں عباسی خاندان نے یہاں آنا چھوڑ دیا اور یوں قلعے کی ویران سے ویران تر ہونے کے ساتھ ساتھ تباہی حال بھی ہونے لگا۔ ضلع بہاول پور میں واقع قلعہ ڈیراور صحرائے چولستان کا ایک اہم سنگِ میل اور فنِ تعمیر کا عظیم شاہ کار ہے۔ یہ قلعہ نواں ویں صدی عیسوی سے ایک قبل ایک قدیم قلعہ خیال کیا جاتا ہے۔ غیرمصدقہ تحریری حوالوں کے مطابق ایک ہندو راجپوت رائے ججہ بھٹی جو ڈیرہ سدہ جسے دیو راول بی کہا جاتا تھا، اس علاقے کا حکم راں تھا۔ قلعے کا نام ابتدائی طور پر دیو راول کے نام پر رکھا گیا تھا جو بعد میں دیر۔را۔وڑ اور پھر دراوڑ ہوگیا۔
موجودہ قلعہ صادق محمد خان اول نواب آف بہاول پور نے 1733 میں بنوایا جو مختلف اوقات میں 1966 تک ریاست بہاول پور کے حکم راں کے زیرتسلط رہا۔ یہ قلعہ تقریبا مربع شکل میں انتہائی شان دار وسیع الوجود ڈھانچے پر مشتمل ہے۔ قلعے کی بیرونی دیواریں 674 سے 684 فٹ تک لمبی ہیں، جو زمین سے تقریباً 11 فٹ تک بلند ہیں۔ تمام 39 بلند برج اور بیرونی دیواروں کو اندر اور باہر دونوں جانب چھوٹے سائز کی پختہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے جب کہ دیواروں کی موٹائی کے درمیانی حصے میں چھوٹے سائز کی کچی مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔
تاہم تمام کچی اور پکی اینٹوں کی بنائی کے لیے مٹی کا گارا استعمال کیا گیا ہے۔ قلعے کے بیرونی جانب مشرق میں ایک شاہی قبرستان واقع ہے جس کے ساتھ ہی سنگ مرمر سے مزید ایک شاہی مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ تاریخی اور فنی تعمیر کے لحاظ سے شان دار اہمیت کا حامل ہونے کی وجہ سے 2005 میں نفاست اعلیٰ آثارقدیمہ نے نوادات ایکٹ کے تحت قلع کو محفوظ قرار دیا۔ بعد ازآں 2016 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو نے قلعے کو دنیا کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا۔ 1966 میں نواب صادق محمد خان عباسی کی وفات کے بعد مرمت اور دیکھ پال نہ ہونے کی وجہ سے قلعہ خستہ حال ہونا شروع ہوگیا۔ بعد ازآں کو نظامت اعلیٰ آثار قدیمہ حکومت پنجاب نے قلعے کی تحفظ و بحالی کے کام کا آغاز کیا، جس کے تحت مشرقی برجوں اور بیرونی دیواروں، پلیٹ فارم، بارہ دری، مرکزی داخلی دروازہ، گودام اور قدیم مسجد پر کام جاری ہے۔
قلعہ ڈیراور میں ایک پرانا جال کا درخت بھی جسے پرانا کی بجائے قدیم کہنا زیادہ مناسب رہے گا۔ سینہ بہ سینہ جو کہانیاں منتقل ہوئی ہیں، ان کے مطابق یہ جال کا درخت دریائے ہاکڑا کے کنارے تھا یعنی دریائے ہاکڑا کسی زمانے میں عین وہی سے گزرتا تھا جہاں آج قلعہ ڈیراور ہے۔ اسی درخت کے نیچے ایک جوگی بیٹھا کرتا تھا۔ روایت ہے کہ ایک بار ایک بچہ بیمار ہوا جس کا مرض کسی طبیب کا سمجھ نہ آتا تھا۔ بچے کے ماں باپ نے اسی درخت کے نیچے بیٹھے جوگی سے دعا کروائی تو بچہ ٹھیک ہوگیا۔ دیکھا دیکھی دور دور سے ماں باپ اپنے بیمار بچوں کو لے کر اس جوگی کے پاس دعا کے لیے آنے لگے۔ یہ علاقہ جو پہلے اجاڑ تھا، رفتہ رفتہ آباد ہونے لگا۔ لوگوں نے جھونپڑے تعمیر کرنا شروع کر دیے۔ ایک چھوٹا سا شہر وجود میں آنے لگا۔
شہر کی چاردیواری کی گئی اور درخت کے گرد مٹی ڈال دی گئی۔ درخت پھر رفتہ رفتہ اوپر کی جانب بڑھنے لگا۔ جوں جوں شہر کی آبادی بڑھی یا قلعہ کو دیواروں کو بلند کیا جانے لگا، توں توں درخت کے گرد مٹی ڈالی جاتی رہی جس سے درخت بھی بڑھتا رہا۔ آج بھی قلعہ کے بیچوں بیچ جو جال کا درخت ہے، اس کو اسی جوگی بادشاہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آج قلعہ دراوڑ باہر سے جتنا خوب صورت اور دیوہیکل نظر آتا ہے، اندر سے اتنا ہی تباہ حال اور قابلِ رحم ہے۔ قلعے کا شاید ہی کوئی حصہ ہو جو اس وقت سلامت ہو۔ 1955 کے بعد جب نوابوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا تو قلعہ مسلسل گراوٹ کی طرف بڑھتا گیا۔ قلعے میں ایک مسجد ہے جس کی مرمت آج کل کی جا رہی ہے۔ نواب صاحب کا ٹوٹا پھوٹا حرم بھی ہے جس کی نگرانی خواجہ سرا کیا کرتے تھے۔
حرم کے درمیان میں گزرنے کے لیے گلی تھی اور دونوں طرف کمرے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب نواب صاحب قلعہ میں تشریف لاتے تو کنیزیں دروازوں پر کھڑی ہوجاتی تھیں۔ نواب صاحب سب کو دیکھتے، کسی ایک کو پسند کرتے اور پھر ساری رات اسی سے باتیں کرتے۔ قلعہ ڈیراور میں ایک جیل بھی ہے اور پھانسی گھاٹ بھی۔ ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ نواب صاحب کی خلوت گاہ کے بالکل ساتھ ہی موت کے منتظر قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ وجہ بس یہ تھی کہ نواب صاحب کو مرنا بھی یاد رہے۔
قلعہ ڈیراور میں زیرِزمین سُرنگوں کا جال تھا۔ سخت گرمی اور سخت سردی سے بچنے کے لیے نواب زیرِزمین چلے جاتے۔ اس مقصد کے لیے ریل کی پٹری بھی بچھائی گئی تھی جسے چرخی یا مضبوط انسانوں کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ قلعے سے ہی ایک سرنگ کے دہلی جانے کی بھی کہانی مشہور ہے مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اب قلعے کی تمام سرنگوں کو بند کردیا گیا ہے۔ یہاں بہاول پور کے ہی مظہر بھٹی صاحب کا دریائے سرسوتی کے بارے میں مضمون شامل کرنا ضروری ہے جو دریائے سرسوتی جو کبھی اسی علاقے میں بہتا تھا، کے بارے میں ایک منفرد رائے رکھتے ہیں۔ مظہر بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ سرسوتی دریا ایک ہوائی کہانی ہے۔ ایسا کوئی دریا نہیں تھا۔
یہ کوئی حقیقت نہیں ہے کہ سرسوتی نام کا کوئی دریا سندھ یا راجستھان میں بہتا ہو۔ رگ وید کے مطابق جس دریا کا ذکر ہے وہ کوئی اور دریا ہو سکتا ہے کیوںکہ رگ وید نے نہ تو دریا کے مقام بارے ذکر ہے اور نہ اس کی کسی سمت کا ذکر کیا ہے۔ مزید پانیوں کا حجم،جغرافیائی مطالعہ اور ستلج کا بھربھری مٹی میں بے لگام بہاؤ اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ کبھی یہاں ستلج تو بہتا تھا لیکن سرسوتی نہیں۔ ممکن ہے رگ وید ستلج کو ہی سرسوتی کہتی ہو۔ مظہر بھٹی کے مطالعہ کے مطابق یہاں کوئی ایسا ویسا دریا نہیں رہا۔ یہ دریا ہاکڑا اور ستلج کا مشترکہ بہاؤ تھا جس کو آج سرسوتی سے جوڑا گیا۔ مزید یہ کہ ہاکڑا کا راستہ ڈیزائن کرتے ہوئے انھوں بغور جائزہ لیا ہے کہ دریائے ستلج اور ہاکڑا کے درمیان ایسی ہاتھا پائی ہے کہ ان کے درمیان کوئی دریا ٹک ہی نہیں سکتا اگر کوئی آئے گا تو اسے ہاکڑا یا ستلج بننا پڑے گا۔ اسی طرح ہاکڑا اور یمنا ندی کے درمیان بھی یہی صورت حال ہے۔
ہاں پھر کاربن 12 کو مدنظر رکھ کر پہاڑی راستوں کا جائزہ لیا جائے کہ آیا یمنا کا کوئی اور روٹ تھا؟ اگر نہیں تو پھر مکمل طور پر یہ افواہ ہے کہ کوئی سرسوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاضی ایک ایسا علم ہے جو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ زمانہ قدیم میں ہاکڑا کا پانی تھوڑا زیادہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دریائے ستلج کا راستہ سیدھا سندھ تک جاتا ہو کیوںکہ دریائے چناب میں ستلج گرتا ہے نہ کہ دریائے چناب دریائے ستلج میں۔ دریائے گھگر/ دریائے ہاکڑا دریائے ہاکڑا دراصل شمالی ہندوستان اور مشرقی پاکستان کا ایک موسمی دریا ہے۔ یہ اکثر جولائی سے دسمبر تک بہتا ہے اور اکتوبر سے مارچ تک سوکھا رہتا ہے۔ یہ دریائے ستلج کا معاون دریا ہے اور سندھ طاس کا حصہ ہے۔ دریا کا جغرافیہ اس کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
1: اوپری راستہ: دریائے ہاکڑا یا گھگر کی ابتدا دریائے ستلج اور یمنا ندی کے اپر کیچمنٹس کے درمیانی پہاڑیاں جنہیں شیوالک کی پہاڑیاں کہتے ہیں سے ہوتی ہے۔ شیوالک کی ان پہاڑیوں کا انتہائی معمولی حصہ ایسا ہے جس پر برف پڑتی ہے باقی موسمی بارش کا پانی ان پہاڑیوں سے اکھٹا ہو کر اس دریا کا رخ کرتا ہے اس کے علاوہ اس جغرافیے پر نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دریا ستلج اور یمنا ندی اس دریا پر چھتری تانے ہوئے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ بارش کے ایک ایک قطرے پر آپس میں پنجہ آزمائی کر رہیں ہیں اور بیچ میں سہما ہوا کم زور ہاکڑا اپنی جان بچا کر جتنا پانی ملتا ہے لے کر بھاگ پڑتا ہے۔ 2: درمیانی راستہ: پہاڑیوں سے نکلنے کے بعد یہ جنوب مغربی سمت میں بہنا شروع کردیتا ہے۔ دریا کا درمیانی راستہ پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں سے گزرتا ہے، جہاں اس کے ساتھ کئی معاون دریا شامل ہوتے ہیں، جن میں دریائے کوشلیا اور دریائے مارکنڈا شامل ہیں۔
یہ دریا ریاست راجستھان میں داخل ہونے سے پہلے پٹیالہ، امبالا اور کروکشیتر کے شہروں سے گزرتا ہے۔ 3 زیریں راستہ: زیریں راستہ راجستھان میں ہے، یہاں یہ دریا خشک علاقے سے گزرتا ہے، جسے صحرائے تھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دریا کا نچلا راستہ ایک ہلکی ڈھلوان اور پانی کی اونچی میز کی خصوصیت رکھتا ہے۔ دریا جنوب مغربی سمت میں بہتا ہے، جو ہنومان گڑھ سے گزر کر آخر کار صورت گڑھ کے قریب سوکھ جاتا ہے۔ 4: سوکھا ہوا راستہ اس کا روٹ پاکستان کے علاقے ہارون آباد روہی تک جاتا ہے، وہاں روہی کے مختلف ڈاہروں کا پانی اکھٹا ہوکر دوبارہ اس دریا کے کھڈے میں اکھٹا ہوجاتا ہے جسے مقامی ہاکڑا کا پانی سمجھتے ہیں۔
’’دریا کی تاریخ اور ادبی کہانیاں‘‘
اس دریا کو لے کر کئی لکھاری اپنے اپنے حساب سے تشریحات کرتے ہیں۔ کسی کے بقول یہ دریا کسی زمانے میں ایک عظیم دریا تھا۔ سرائیکی لکھاری تو زیادہ بہاؤ کو گھگر کہ دیتے ہیں ساتھ کچھ لکھاری سرسوتی کو جوڑ کر سرسوتی تہذیب کے نام پر اوبالا چیزیں گھڑتے ہیں۔ لیکن ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سرسوتی تو سرسوتی خود چھوٹے سے گھگر کے لیے اتنی جگہ نہیں کہ وہ اپنے لیے سارا سال پانی لا سکے۔ اس کے اطراف صرف دو راجے ہیں ایک ستلج اور دوسرا یمنا۔ دریائے ستلج بہاولنگر کی حدود میں جیسے ہی داخل ہوتا ہے تو اس کو ہمیشہ بھربھری مٹی ملی ہے اور اس کا فایدہ اٹھا کر کبھی سیدھا چلا جاتا رہا ہے تو کبھی مڑ جاتا رہا ہے تو کل ملا کر بات یہ ہے کہ روہی کی نظر آنے والی تہذیبیں ستلج نے جنم دی ہیں نہ کہ کسی سرسوتی نامی دریا نے ایسا کیا۔ اس کے ساتھ یہ سارا علاقہ انڈس ویلی کہلاتا ہے۔ بھارتی آج کل انڈس ویلی کو سرسوتی ویلی بنانے پر تلے ہیں۔
پاکستانی بھی ان جانے میں اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ستلج ہی وہ دریا ہے جو سرسوتی بنے گا ورنہ سرسوتی کو کہیں اور لے جانا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ستلج جگہ فراہم نہیں کر رہا کیوںکہ بڑا تگڑا دریا ہے، اپنی تہذیب کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔.
اس ٹکراؤ کی ریسیڈیول سٹریسز نے وسطی اور جنوبی ہند کے پہاڑی سلسلوں کو بھی بنایا ہے۔ گنگا اور سندھ کے طاسوں کی حد فاصل چندی گڑھ اور پٹیالہ کے قریب بنتی ہے۔ یہاں برسنے والا پانی کا ایک قطرہ خلیج بنگال کی طرف بہتا ہے تو چند انچ مغرب والا پاکستان کی سمت۔ اس طرح کے بیسن باونڈری والے علاقے میں بڑا دریا تو کجا چھوٹا دریا بھی نہیں بن سکتا، جبکہ عقب میں پہاڑوں کی مستقل دیوار ہے، اور ہمالیہ کا سارا پانی جمنا یا ستلج میں تقسیم ہے۔
ایک بات طے ہے کہ وسطی ہند کی سطح مرتفع اور پہاڑیاں پھی بہت آہستہ لیکن مستقلاً بلند ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے گنگا اور سندھ طاس کے سرحدی دریاوں یعنی جمنا اور ستلج کا روٹ شمال کی طرف شفٹ ہوتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کروڑوں سال پہلے جمنا مغرب کی سمت جاتا ہو لیکن انسانی تاریخ میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ آدھا یا پورا ستلج ہکڑا سے گزرتا ہو پھر ٹیکٹانک ایکٹییویٹی سے راستہ بدل گیا۔ بھارتی پنجاب کی لارج سکیل سلوپ دیکھیں تو نظر آ تا ہے کہ ستلج کا قدرتی روٹ بھٹنڈہ کے قریب ہونا چاہئے لیکن وہ غیرضروری طور پر بیاس کی طرف چلا گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ہزار سال میں جنوبی میدان ٹیکٹانک شفٹ سے پندرہ بیس گز بلند ہو گیا۔ یہ ٹرینڈ یک طرفہ ہے اس لیے اسے پلٹایا نہیں جاسکتا۔ اگلے چند ہزار سال میں راجستھان مزید بلند ہوگا تو ستلج بیاس کا پانی موجودہ روٹ چھوڑ کر پاکستان کے خشک بیاس میں آجائے گا۔ اس ارتقاء کو بھارتی پراجیکٹس نے وقتی طور پر روک رکھا ہے لیکن جیولاجیکل قوتیں اپنے حساب سے کام کرتی ہیں اس پر ذیادہ خوش ہونے کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ اس میں بہت وقت لگے گا۔
بہاول پور ریاست کا شاہی قبرستان
اگر آپ قلعہ ڈیراور کی سیاحت کو نکلیں تو قریب ہی شاہی قبرستان جانے کی کوشش ضرور کریں۔ اگر آپ ہلکی پھلکی بھی سیاحت میں دل چسپی رکھتے ہیں تو کم از کم ریلی کے دنوں میں چولستان بالکل نہ جائیں۔ نہ آپ قلعہ ڈیراور دیکھ سکیں گے اور نہ شاہی قبرستان۔ شاہی قبرستان کے دروازے ہر کسی کے لیے نہیں کھلتے۔ اپنا ہلکا پھلکا کوئی وسیلہ نکالنے کوشش کریں۔ بابا جی کو بھی استعمال کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر یہ چوں کہ سو فی نجی جگہ ہے اس لیے عام بندے کے لیے یہاں جانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ جان پہچان کے کسی بھی شخص کے ساتھ بہرحال اندر جانا تقریباً ایک آسان معاملہ ہے۔
آپ شاہی قبرستان میں داخل ہوں تو سامنے سرخ اینٹوں اور نیلے رنگ کی ٹائیلوں والے بلند مقبرے ہیں۔ یہاں ہر قبر، صاحبِ قبر کے مقام کے مطابق بنائی اور سنواری گئی ہے۔ جو نواب ہوتے ہیں، ان کی جگہ بہت شاہانہ ہے۔ نواب زادوں اور صاحب زادوں کے الگ الگ مقامات ہیں۔ ولی عہد کو نواب زادہ جب کہ دیگر بیٹوں کو صاحب زادہ کہتے ہیں۔ آپ شاہی قبرستان کے احاطے میں داخل ہوں تو سب سے پہلے آپ کو شہزادہ لیفٹیننٹ جنرل صادق الرشید عباسی کی ملے گی۔ واضح رہے کہ یہ عہدہ ریاست کی اپنی فوج کا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شہزادہ مامون الرشید بہاول عباسی شہید کی قبر ہے جو نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے فرزند تھے۔
تھوڑا مزید آگے ہوں تو صاحب زادہ محمد قاسم خان عباسی کی قبر ہے جس کے ساتھ ہی شہزادہ داؤد خان عباسی آرام فرما رہے ہیں۔ بہاول پور ریاست کی تاریخ اور خاص کر نواب خاندان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے زبیر فیض کنڈ صاحب نے اپنی کتاب ’’مسافر لوگ میں اس قبرستان کے بارے مکمل معلومات دی ہیں۔ چلیں ان ہی معلومات سے استفادہ کرتے ہیں۔ شاہی قبرستان کے تین حصے ہیں۔ 1 شرقاً غرباً مستطیل نما لمبا ہال جس میں ریاست کے تمام نوابین بالترتیب حکم رانی مدفون ہیں۔ یہ قبور کا سلسلہ نواب فتح حال عباسی کی قبر سے مشرق کی سمت سے شروع ہوتا ہے اور موجودہ امیر بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی کے والد سابقہ گورنر پنجاب، سابقہ وزیر وفاقی مذہبی امور نواب سر عباس خان عباسی مرحوم کی قبر پر اہتمام پذیر ہوتا ہے۔
اس ہال میں معروف نوابین میں سے بالترتیب نواب فتح خان عباسی نواب محمد بہاول خان دوئم نواب صادق محمد خان دوئم نواب بہاول خان سوئم نواب صادق محمد خان سوئم نواب بہاول خان عباسی چہارم نواب صبح صادق محمد خان چہارم (شاہ جہان بہاول پور) نواب بہاول خان عباسی پنجم نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم (محسن پاکستان) نواب عباس خان عباسی مدفون ہیں۔ یہاں مزید دو قبروں کی جگہ ہے۔ پہلی قبر موجودہ نواب صلاح الدین عباسی صاحب کی بنے گی دوسری قبر ان کے بیٹے نواب بہاول عباسی کی بنے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امارات کا سلسلہ نواب بہاول عباسی پر ختم ہورہا ہے اور اس چار دیواری میں مزید کسی قبر کی گنجائش بھی نہیں۔ ان کے علاوہ کم عمری میں وفات پا جانے والی شہزادوں میں سے نواب رحیم یار خان عباسی اور صاحب زادہ عبداللّہ عباسی شامل ہیں۔
اس ہال میں سونے کے ایک ایک کلو کے پانچ فانوس لٹکائے گئے تھے جنہیں بعد میں حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اتار لیا گیا۔ 2 دوسری حصے میں شاہی خاندان کی خواتین کے مقابر ہیں جنہیں مشرقی روایات کی پاس داری اور پردے کو موت کے بعد تک برقرار رکھتے ہوئے مکمل بند بنایا گیا ہے۔ ان مقابر میں دو سنگ مرمر کے مقبرے شامل ہیں جن میں سنگ تراشی کا جو اعلی کام کیا گیا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نواب صادق محمد خان جیسل میر کے راول عباسی خاندان کے ہونے کی وجہ سے نواب صادق خان شاہی قبرستان دریائے ستلج قلعہ ڈیراور قبرستان کے نواب صاحب بہاول خان کے درمیان کہ دریائے سے گزرتا کہتے ہیں عباسی کی کے مطابق ستلج اور کی تاریخ یہ ہے کہ کہ دریا اس دریا بلند ہو کا پانی دریا ہے یہ دریا میں بہت ممکن ہے ستلج کا ہوتا ہے کا کوئی دریا کا درخت کے کیا گیا کے ساتھ میں ایک ساتھ ہی قلعے کی خان اول جاتا ہے ہے کہ ا کا ایک کی قبر کوئی ا بھی نہ ہیں کہ گیا ہے کے پاس نے لگا کی طرف ہے اور کے بعد
پڑھیں:
دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟
میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔
کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔
پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔
مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔
کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔
یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔
کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔
یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔