افغانستان سے پاکستان آنے والے لوگوں کی وجہ سے مسائل ہیں، سلسلہ رکنا چاہیے، محمد صادق
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے بارے میں بہت باتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتا کہ وفاقی دارا الحکومت میں کتنے افغان مہاجرین ہیں، افغانستان سے پاکستان آنے والے لوگوں کی وجہ سے مساٸل ہیں، یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔
خیبر پختونخوا میں سیکiورٹی اور گورننس سے متعلق چیلنجز کے حوالے سے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات میں خامیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پانچ سال سے افغانستان میں سفیر ہوں، مجھ پر پاکستان سے کوئی دباٶ نہیں آیا، افغان مہاجرین کے بارے میں بہت باتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتا کہ وفاقی دارا الحکومت میں کتنے افغان مہاجرین ہیں۔
محمد صادق نے کہا کہ دونوں ممالک کو بہتر ماحول میں تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے ، کالعدم ٹی ٹی پی بہت بڑا چیلنج ہے، افغانستان سے پاکستان آنے والے لوگوں کی وجہ سے مساٸل ہیں، یہ سلسلہ رکنا چاہیے، افغانستان سے پاکستان پر حملے چیلنج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اپنے لوگوں کو کنٹرول کرنا چاہیے، ہمارے لیے اور افغانستان کے لیے سنجیدہ سوالات ہیں، ایک دوسرے کو اینگیج کرنے کی ضرورت ہے۔
اپری کے صدر ایمبیسیڈر ڈاکٹر رضا محمد نے سیمینار سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں سے مالامال ہے، پاکستان دنیا کے اہم ترین خطوں کے درمیان کنکٹنگ لنک ہے،
کے پی بالخصوص سابق فانا کو جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔
گورنر کے پی فیصل کنڈی نے کہا کہ کے پی کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مسائل کا شکار رہا، کے پی عوام نے نے بہت قربانیاں دی ہیں، کے پی میں سیاسی جماعتوں کی عدم توجہ ھی سیکیورٹی عدم استحکام کی وجہ ہیں۔
فیصل کریم نے کہا کہ ہمیں کے پی کے اشوز کو سمجھنا چاہئے، کے پی کے ایک اہم صوبا ہے جسکو سیکیورٹی کے مسائل اور چیلنجز ہیں، سیکیورٹی فورسز کو کئی چینجز کا سامنا ہے، پاک افغان بارڈر پر کرپشن اور اسمگلنگ ہورہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بارڈر پر کئی سیکیورٹی چیلنجز ہیں، دہشتگردی کی وجہ سے اکنامک اشوز کا سامنا ہے، 18 ترمیم کے مطابق لوکل گورنمنٹ سسٹم بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کے پی صوبہ میں سیکیورٹی فورسز اور عوام کے درمیان بھی ایک خلا پایا جاتا ہے،
گڈ گورنس کے زریعے ان سیکیورٹی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں کی عوام کا میعار زندگی بہتر بنا کر ہی ان مسائل سے چھٹکارا مل سکتا، لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عدم استحکام ختم کرنےکیلئے ہم نے کوششیں کی ہیں، فاٹا کے مسائل کو بھی فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتیں بھی شدید پولرائزیشن کا شکار ہیں، بیرسٹر سیف
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی صورتحال کا گورننس اور دیگر شعبوں پر بھی اثر پڑتا ہے، کے پی کے ساتھ پاکستان بھی ایک کنفلکٹ زون ہے، دہشتگردی گذشتہ 40 برس میں اس خطے میں ہونے والے واقعات کا نتیجہ ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ سوویت حملے، امریکی حملے نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا، سیاسی قیادت کا کردار بھی درپیش صورتحال سے متاثر ہوتا ہے، موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتیں بھی شدید پولرائزیشن کا شکار ہیں، عوام کی نفسیات پر بھی پولرائزیشن کا اثر ہوتا ہے، سیاستدان بھی پبلک سے ہی ابھر کر سامنے آتے ہیں اور ان سب عوامل سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہا درجے کی پولرائزیشن سے پیدا ہونے والا خلا سیاسی قوتوں کی غیر موجودگی میں غیر سیاسی قوتیں پورا کرتی ہیں، خیبرپختونخوا میں پولیس کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، خیبرپختونخوا میں پولیس کی تربیت پر 30 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خطرات کے باعث سول افسر بعض علاقوں میں جانے سے کتراتے ہیں، سابقہ فاٹا میں ابھی تک عدالتیں فعال نہیں، سابقہ فاٹا کے اضلاع کی عدالتیں ملحقہ اضلاع میں قائم کی گئی ہیں، سماجی و معاشی منصوبے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔
مشیر اطلاعات نے کہا کہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں سماجی ع معاشی منصوبوں کے لئے مزید سرمایہ کاری درکار ہے، سیاسی قیادت کے سیکیورٹی مسائل کے حل کے بغیر بہتر نتائج نہیں دے سکتی، سماجی و معاشی منصوبوں کا سیکورٹی صورتحال سے گہرا تعلق ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے غلط اور جھوٹے بیانئیے سے نمٹنا بھی بہت اہم ہے، دہشت گردی اپنے مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ بیانیے سے عوام کو متاثر کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان سے پاکستان ان کا کہنا تھا کہ کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین بیرسٹر سیف کی وجہ سے
پڑھیں:
پہلگام حملہ: لواحقین مودی سرکار پر برس پڑے، سانحہ فالس فلیگ آپریشن قرار
مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں فائرنگ کے المناک واقعے کے بعد نہ صرف ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین نے مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور سانحے کو حکومت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دیدیا ہے۔
پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 26 سیاح ہلاک اور 12 زخمی ہوئے۔ واقعے کے بعد جاں بحق افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچائی گئیں تو سوگ کا ماحول غصے میں تبدیل ہو گیا۔
وی آئی پی کی زندگی اہم، ٹیکس دینے والے بے حیثیت، بیوہ کا غصہ
گجرات سے تعلق رکھنے والے مقتول بینکار کی لاش جب سورت پہنچی تو ان کی بیوہ نے تعزیت کے لیے آنے والے یونین منسٹر سی آر پاٹل کو کھری کھری سنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس تو وی آئی پی گاڑیاں ہیں، تمہاری زندگی اہم ہے مگر ٹیکس دینے والوں کی کوئی فکر نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پہلگام جیسے حساس مقام پر سیکیورٹی اہلکار اور میڈیکل یونٹ کیوں موجود نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: پہلگام حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ، مودی حکومت ذمہ دار ہے: کانگریس
30 منٹ تک فائرنگ ہوتی رہی، کوئی مدد کو نہ آیا
مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والی ایک سیاح پارس جین نے بتایا کہ حملے کے دوران 25 سے 30 منٹ تک فائرنگ جاری رہی، مگر سیکیورٹی کا کوئی اہلکار مدد کو نہ آیا۔ ان بیانات نے سیکیورٹی انتظامات پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
فالس فلیگ آپریشن کا الزام
مقامی کشمیری عوام نے حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام وہ مقام ہے جہاں عام گاڑی بھی نہیں جا سکتی اور جگہ جگہ چیک پوائنٹس ہیں، ایسے میں دہشتگردوں کی موجودگی سوالیہ نشان ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کے درمیان باہمی بھائی چارے کو ختم کرنا چاہتی ہے، اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھی امن قائم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی ڈراما پھر فلاپ، پہلگام واقعے میں مردہ قرار دیا گیا نیول آفیسر سامنے آگیا
حکومت نے سارا ملبہ ہوٹل مالکان پر ڈال دیا
بھارتی حکومت نے اس واقعے کی ذمہ داری مقامی ہوٹل مالکان پر ڈال دی ہے، اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہوٹل انتظامیہ نے پولیس سے اجازت لیے بغیر سیاحوں کو لے جاکر ٹھہرایا۔
وزیر داخلہ کا ناکامی کا اعتراف اور کریک ڈاؤن
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تسلیم کیا ہے کہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، اور یہ اعتراف کیا کہ علاقے میں سیکیورٹی کی کمی تھی۔ پہلگام حملے کے بعد بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے، جس میں اب تک 1500 سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ پہلگام حملہ فالس فلیگ آپریشن مقبوضہ جموں و کشمیر مودی