UrduPoint:
2025-07-24@21:58:59 GMT

بھارت میں متنازع وقف قانون سپریم کورٹ میں چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

بھارت میں متنازع وقف قانون سپریم کورٹ میں چیلنج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اپریل 2025ء) بھارتی سپریم کورٹ میں پیر کے روز تک کم از کم آٹھ درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، جن میں وقف ترمیمی ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ان میں عدالت عظمیٰ سے اس متنازع قانون پر فوری روک لگانے اور دیگر رعایتوں کی درخواست کی گئی ہے۔

بھارت: متنازع وقف بل منظور، اب صرف صدر کی توثیق باقی

سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواستوں میں بنیادی طور پر استدلال یہ ہے کہ یہ نیا قانون، وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 سپریم کورٹ کے ہی ایک سابقہ فیصلے ''ایک بار وقف، تو ہمیشہ کے لیے وقف‘‘ کی خلاف ورزی ہے اور اس نئے قانون کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو وقف کی زمینوں سے محروم کیا جا سکے اور ان زمینوں کو نجی یا سرکاری املاک میں تبدیل کرنے کو کوشش کی جائے۔

(جاری ہے)

بھارت: مخالفت کے باوجود متنازع 'وقف بل‘ لوک سبھا میں منظور

جن تنظیموں اور افراد نے یہ درخواستیں دائر کی ہیں، ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علماء ہند، لوک سبھا کے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، این جی او ایسوسی ایشن فار سول رائٹس (اے پی سی آر) اور عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان شامل ہیں۔

مسلم تنظیموں نے اس قانون کو من مانی اور امتیاز و تفریق پر مبنی قرار دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیمات نہ صرف دستور ہند کے فراہم کردہ بنیادی حقوق کی دفعات سے متصادم ہے بلکہ ان ترمیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت مسلم اقلیت کو وقف کے انتظام و انصرام سے بے دخل کر کے وقفت املاک کا سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ اس قانون میں ''مسلمانوں کو مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کے بنیادی حق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وقف پر پانچ سال تک باعمل مسلمان ہونے کی تحدید نہ صرف ملکی قانون اور آئین کے خلاف ہے بلکہ یہ اسلامی شریعت سے بھی متصادم ہے۔

‘‘ اہم اعتراضات

عرض گزاروں نے نئے وقف قانون میں 'وقف بائی یوزر‘ یا ''صارف کے ذریعے وقف‘‘ کے تصور کو ختم کرنے کو سب سے اہم نکتہ بنایا ہے،حالانکہ اوقاف سے متعلق کیسز میں اسے ایک عرصے سے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور بالخصوص بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر کیا تھا۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ 'وقف بائی یوزر‘ کو ختم کر دینے سے بھارت میں وقف کی ہزاروں عمارتوں اور جائیدادوں کے خلاف درخواستوں کا سیلاب آ جائے گا کیونکہ صدیوں پہلے وقف کی گئی بیشتر جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستانوں، درگاہوں کے پاس کوئی رسمی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے انہیں زبانی وقف کیا تھا اور وہ صدیوں سے وقف جائیداد کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔

نئے قانون کے خلاف درخواستوں میں مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں، دونوں کی تشکیل نو کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ نئے قانون میں کونسل اور بورڈوں میں مسلم اراکین کی اکثریت کو یا تو کم کر دیا گیا ہے یا بالکل ہی ختم کر دیا گیا ہے۔

ان درخواستوں میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون کسی مذہبی برادری کو اپنے مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کے بنیادی آئینی حق سے محروم کر دے گا۔

اسی طرح بورڈوں میں مسلم سی ای او کی لازمیت کو ختم کرنے کے خلاف بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

اقلیتی امور کے وزیر کرن ریجیجو کا کہنا تھا، ''جو لوگ (بل) کو نہیں سمجھتے تھے وہ ناخوش ہیں۔ لیکن جو لوگ ہمارے ذریعے بل میں کی جانے والی ترامیم کو سمجھتے ہیں، وہ دیکھ لیں گے کہ اس سے اگلے دو تین سال میں غریب، مسلم، خواتین اور لوگوں کو کتنا فائدہ ہو گا۔‘‘

دریں اثنا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان الیاس نے کہا کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ دستوری حقوق کی محافظ ہونے کے حوالے سے وہ ان متنازع ترمیمات کی منسوخی کا فیصلہ دے کر بھارتی آئین کی عظمت کو بحال کرے اور مسلم اقلیت کے حقوق کو پامال ہونے سے روکے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ کے خلاف گیا ہے وقف کی کہا کہ

پڑھیں:

نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر

سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر ذاکر جعفر نے سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت نے مجرم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا، حالانکہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

درخواست کے مطابق عدالت نے اس متفرق درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا اور ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے سزائے موت دی، حالانکہ وہ ویڈیوز نہ تو ٹرائل کے دوران درست ثابت کی گئیں اور نہ ہی وہ ملزم کو فراہم کی گئیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ویڈیوز عدالت میں کبھی چلائی بھی نہیں گئیں، اور فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔ اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ 20 مئی کو سنائے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس کے لیے ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

یاد رہے کہ نور مقدم کو 2021 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی، جسے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سپریم کورٹ ظاہر جعفر نورمقدم کیس

متعلقہ مضامین

  • چھبیس نومبر احتجاج، حکومت پنجاب کا 20ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ
  • 26 نومبر احتجاج: حکومت پنجاب کا ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ: بانجھ پن پر مہر یا نان و نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار
  • خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جاری
  • مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں
  • ’’پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر دی گئیں‘‘
  • نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
  • روسی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس 72 برس کی عمر میں چل بسیں
  • کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان