تین ماہ ہوگئے بانی سے ملاقات نہیں ہوئی، عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
عمر ایوب(فائل فوٹو)۔
عمر ایوب نے کہا ہے کہ تین ماہ ہوگئے ہماری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کی اس موقع پر ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا امریکا سے آئے ہوئے وفد کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوئی ہے؟
جس عمر ایوب نے جواب دیا کہ میرے پاس امریکا سے آنے والے وفد سے متعلق کوئی اطلاع نہیں۔ تین ماہ ہوگئے ہماری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 ججز کے آڈر میرے ہاتھ میں تھے لیکن ملنے نہیں دیا۔
عمر ایوب نے کہا کہ اعظم سواتی میرے بزرگ ہیں ان کی پارٹی کےلیے بڑی قربانیاں ہیں، ملاقات کے دوران اگر بانی پی ٹی آئی نے کوئی ہدایات دی ہوں تو وہ اس پر کام کر رہے ہوں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں ہمارا الائنس آگے جا کر کتنا پریشر ڈالے گا، اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
عمر ایوب نے کہا کہ اس وقت اڈیالہ جیل کا سپرنٹنڈنٹ کورٹ کے آڈر نہیں مانتا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی عمر ایوب نے سے ملاقات نے کہا کہ
پڑھیں:
’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔
تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔
ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔
واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“
ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟
یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
Post Views: 3