غزہ: امداد کی ترسیل پر جاری اسرائیلی پابندیوں کے مہلک تنائج کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہامدادے کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر اسرائیل کی پابندی اور بمباری کے نتیجے میں تکالیف بڑھ رہی ہیں جبکہ انخلا کے احکامات نے ہزاروں لوگوں کو دربدر کر دیا ہے جن کے پاس کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں انسانی زندگی سے سنگین لاپروائی برتی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کڑے محاصرے کو اب دو ماہ ہو چکے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو چاہیےکہ وہ علاقے میں بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کا احترام یقینی بنانے کے لیے مضبوط، فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔ Tweet URLامدادی اداروں نے کہا ہے کہ شہریوں کی زندگی کو تحفظ ملنا چاہیے، انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دی جانی چاہیے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور جنگ بندی کی تجدید عمل میں آنی چاہیے۔
(جاری ہے)
محاصرہ، بھوک اور بمباریاقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ غزہ کی 21 لاکھ آبادی علاقے میں پھنس چکی ہے جس پر بم برسائے جا رہے ہیں اور انہیں بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ایسے مفروضے قطعی غلط ہیں کہ علاقے میں ہر فرد کی ضرورت کے مطابق خوراک موجود ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا تھا کہ غزہ میں بچوں کو غذائی قلت کا علاج مہیا کرنے والے 12 مراکز بند ہو گئے ہیں جبکہ امداد کی عدم فراہمی کے نتیجے میں 10 لاکھ بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔
ادارے کے ترجمان ابو خلف نے امداد کی ترسیل روکے جانے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ بڑی مقدار میں امدادی سامان غزہ کی سرحد سے باہر پڑا ہے۔
بچوں کے دودھ کی قلتمزید برآں، اس وقت غزہ میں صرف 400 بچوں کے لیے ایک ماہ کی ضرورت کا فارمولا دودھ ہی دستیاب ہے۔ اندازوں کے مطابق چھ ماہ سے کم عمر کے تقریباً 10 ہزار بچوں کو اضافی دودھ کی ضرورت ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تمام امدادی و تجارتی اشیا کی غزہ میں آمد پر پابندی کا فیصلہ شہریوں کے لیے سنگین اثرات کا حامل ہو گا۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق، اتوار کو اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک درجن سے زیادہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے مبینہ طور پر رفح میں تمام گھر تباہ کر دیے ہیں اور علاقے کا غزہ کے باقی حصوں سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔بڑھتا غذائی بحرانعالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ ضروری سامان کی شدید قلت کے باعث اس نے غزہ میں سستی روٹی فراہم کرنے والے اپنے 25 تنور بند کر دیے ہیں۔ علاقے میں اشیائے ضرورت کی قلت ہونے لگی ہے اور باقیماندہ چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ غذائی مدد یا کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والی گیس غزہ نہیں پہنچ رہی۔
شمالی غزہ میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستی میں رہنے والی جلیلہ ابو لیلیٰ بتاتی ہیں کہ بیچارے بچے دن بھر کھانے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا۔ کبھی کبھار بعض لوگ انہیں کچھ چاول دے دیتے ہیں اور انہیں اسی پر گزاراکرنا پڑتا ہے۔ چونکہ غزہ میں خوراک نہیں پہنچ رہی اس لیے غذائی بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کی علاقے میں متحدہ کے امداد کی کہ غزہ کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
 
 امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔
 
 امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
 
 ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔