امریکی ٹیرف : پاکستانی اور عالمی سٹاک مارکیٹیں پھر کریش: پیچھے ہٹوں گانہ امریکی گھبرائیں ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام آباد؍ واشنگٹن/ کراچی (نوائے وقت رپورٹ + کامرس رپورٹر) امریکہ کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے حکمت عملی تیار کرنے پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس حوالے سے وزیر تجارت جام کمال خان کی زیر صدارت وزارت تجارت میں اہم اجلاس ہوا جس میں اضافی ٹیرف کے ممکنہ اثرات پر غور کیا گیا۔ حکومت اضافی امریکی ٹیرف پر ٹرمپ انتظامیہ سے بات چیت کرے گی جس کا مقصد ٹیرف میں ممکنہ کمی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر تجارت جام کمال خان کی زیرصدارت اہم اجلاس ہوا جس میں پچاس سے زیادہ مختلف کاروباری نمائندوں، بڑے تاجروں، درآمد اور برآمد کنندگان سمیت مختلف سٹیک ہولڈرز شریک تھے۔ اجلاس میں نئے امریکی ٹیرف کے خاص طور پر پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات پر ممکنہ منفی اثرات کے سدباب کا جائزہ لیا گیا۔ ٹرمپ ٹیرف اور عالمی تجارتی جنگ کے خدشات پر عالمی سٹاک منڈیوں میں بھونچال آ گیا۔ عالمی سٹاک مارکیٹس نئے ہفتے کے آغاز پر پھر کریش کر گئیں۔ جاپان کا نکئی انڈیکس 9 فیصد نیچے آگیا۔ ٹوکیو 8 فیصد مندی اور ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ میں 8 فیصد گراوٹ ہوئی۔ جنوبی کوریا میں شدید مندی کے خدشات پر ٹریڈنگ عارضی طور پر روک دی گئی جبکہ آسٹریلین سٹاک مارکیٹ میں 160 ارب ڈالرز کا خسارہ ہوا جہاں ٹریڈنگ شروع ہونے کے 15 منٹ میں بنچ مارک ایس اینڈ پی 6 فیصد نیچے آ گیا۔ امریکی ٹیرف میں اضافے اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے عرب ملکوں پر اثرات پڑ رہے ہیں اور سعودی سٹاک مارکیٹ میں 500 ارب ریال کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ قطر، کویت، مسقط اور بحرین کی سٹاک مارکیٹوں میں بھی گراوٹ دیکھی گئی۔ خلیجی سٹاک مارکیٹوں میں مئی 2020ء کے بعد سب سے بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ گزشتہ روز عالمی منڈی میں تیل کے نرخ مزید 4 فیصد کم ہو گئے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 5 سال کی کم ترین سطح پر آ گئیں۔ تین روز میں خام تیل کی قیمت میں 13.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: سٹاک مارکیٹ امریکی ٹیرف مارکیٹ میں سے بات
پڑھیں:
بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
اسلام ٹائمز: امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کے بند ہونے کو ایک ماہ گزر چکا ہے، لاکھوں امریکی، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور خوراکی امداد ادا نہ کی گئی تو ممکن ہے بھوکے رہ جائیں۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے نے روزنامہ یو ایس نیوز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً 42 ملین محتاج امریکی، جن میں 15 ملین سے زائد بچے شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے خوراک کی امداد فراہم نہ کی گئی تو ممکن ہے یہ تمام لوگ بھوکے رہ جائیں۔
بچوں، بزرگوں اور مزدور خاندانوں کے لیے "اضافی غذائی معاونت کا پروگرام" (SNAP) کھو دینے کا مطلب تعطیلات کے موقع پر الماریوں اور فریجوں کا خالی ہوجانا ہے۔ یہ امدادی پروگرام پہلے فوڈ کوپن کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر آٹھویں امریکی میں سے ایک اور لاکھوں مزدور گھرانوں کے لیے نجات کی ایک راہ نجات ہے۔ پچھلے سال جن بالغوں نے اضافی خوراکی امداد حاصل کی، ان میں تقریباً 70 فیصد فل ٹائم کام کرتے تھے، مگر پھر بھی خوراک خریدنے میں مشکل کا سامنا کرتے تھے۔
اس ہفتے 20 سے زائد ریاستوں نے وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ واشنگٹن نومبر کے جزوی فوائد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ہنگامی بجٹ کو استعمال کرے۔ اگرچہ حکومت نے نومبر میں SNAP فوائد کی ادائیگی کے لیے دو وفاقی عدالتوں کے احکامات کی پیروی کی بھی، لیکن یہ ہنگامی فنڈز ایک مکمل ماہ کے SNAP فوائد کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ریاستوں کے لئے وفاق کی فراہم فنڈنگ کے بغیر آسانی سے SNAP فوائد برقرار نہیں رکھ سکتیں۔
وفاقی حکومت SNAP کے تمام (یعنی 100 فیصد) فوائد ادا کرتی ہے اور پروگرام کے نفاذ کے لیے انتظامی اخراجات ریاستوں کے ساتھ بانٹتی ہے۔ یہ اہتمام ان امریکی گھرانوں کے لیے مناسب ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی پر گزارا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ہفتے کی تاخیر بھی خوراک کے پیک حذف ہونے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، ممکنہ طور پر یہ فوائد بند ہو سکتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بڑے اور خوبصورت بل سے متعلق نئی پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں۔
یہ SNAP کے اہل ہونے کی شرائط کو محدود کریں گی۔ یہ تبدیلیاں تقریباً 4 ملین افراد کے ماہانہ غذائی فوائد کو ختم یا کم کر دیں گی۔ امریکہ پہلے اس صورتحال سے دوچار رہا ہے، مگر کبھی اس حد تک نہیں۔ ماضی کی بندشوں کے دوران وفاقی حکومت نے SNAP وصول کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقے نکالے اور تسلیم کیا کہ امریکیوں کو بھوکا رکھنا کبھی سیاسی سودے بازی کا مفید آلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس بار، ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ وہ احتیاطی فنڈز یا کسی اور دستیاب ذریعہ کا استعمال کر کے فوائد فراہم نہیں کرے گی۔
امریکہ کے محکمہ زراعت نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ میں سالانہ غذائی عدم تحفظ کی رپورٹ کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دے گا۔ یہ رپورٹ واحد ایسا امریکی ذریعہ تھا جو مستقل طور پر بھوک اور غذائی عدم تحفظ کی نگرانی کرتا تھا۔ روزنامہ "یو ایس نیوز" نے آخر میں لکھا ہے کہ یہ زمان بندی نہ صرف مسئلے کے متعلق بے حسی ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے پیمانے کے بارے بھی لاعلمی برتی گئی ہے۔ جب کوئی حکومت بھوکے شہریوں کی گنتی بھی روک دے، تو یہ کوئی پالیسی نہیں بلکہ غفلت ہے۔