نئے وقف قانون کے ذریعے مودی حکومت مسلمانوں کی وقف املاک کو ہڑپنا چاہتی ہے، سید سرور چشتی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
انجمن کے سکریٹری نے کہا کہ جب یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہوا تو جئے شری رام کے نعرے لگائے گئے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی کا فرقہ پرست ایجنڈہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت بھر میں نئے وقف قانون کو لے کر مسلمان احتجاج کر رہے ہیں اور اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ 8 اپریل کو پورے ملک میں وقف قانون نافذ ہو چکا ہے اور ایسے میں نئے وقف قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درجن سے زیادہ شکایات داخل کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اجمیر شریف درگاہ کی انجمن سے بھی آواز اٹھائی گئی ہے۔ جہاں انجمن سید زادگان خدام خواجہ کی جانب سے ایک باضابطہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور مودی حکومت کے متعارف کرائے گئے نئے وقف قانون کے خلاف خیالات کا اظہار کیا گیا۔ انجمن کے سکریٹری سید سرور چشتی اور صدر سید غلام کبریٰ چشتی کے مطابق نئے وقف ایکٹ کے ذریعے مودی حکومت مسلمانوں کی وقف املاک کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ شدید نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلمان سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔
سید سرور چشتی نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے ہمدرد کب سے بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 برسوں میں تین طلاق، لو جہاد، سی اے اے، یو سی سی، وقف ایکٹ، موب لنچنگ، یو اے پی اے، مساجد، مدرسے، قبرستان، درگاہوں کو منہدم کیا جا رہا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی مسلمان اس سب سے بے خبر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا جواب ہمیں اور ہماری نسلوں کو دینا پڑے گا، ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہمارے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو تین طلاق اور بابری مسجد کے معاملات میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رویے میں جارحیت ہو، اس کا مطلب ہرگز تشدد نہیں ہے اور جو بھی کرنا ہے متفقہ فیصلہ ہونا چاہیئے۔ انجمن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب ہندوؤں کا انڈومنٹ بورڈ ہے، سکھوں کی انتظامی کمیٹی ہے، جینوں کا بورڈ ہے جس میں ان کی اپنی برادری کے لوگ ہیں تو وقف میں غیر مسلم کیوں ہیں۔ سید سرور چشتی نے کہا کہ جب یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہوا تو جئے شری رام کے نعرے لگائے گئے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی کا فرقہ پرست ایجنڈہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سید سرور چشتی
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔