گوہر اعجاز کی بیرک گولڈ کے صدر ڈینس مارک برسٹو سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
چیئرمین اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز کی بیرک گولڈ کے صدر ڈینس مارک برسٹو سے ملاقات کی ہے۔ای پی بی ڈی کے بورڈ آف گورنرز پاکستان میں کان کنی کے روڈ میپ پر بات کرنے کے لیے بیرک گولڈ کے صدر ڈینس مارک برسٹو کی میزبانی کر رہے ہیں۔ملاقات کے موقع پر شہباز ملک ہلٹن فارما، شاہد سورتی (سورٹی انٹرپرائزز) اور سمیع اللہ جاوید (دین گروپ) بھی موجود تھے۔
اس موقع پر گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ منرل فورم عالمی سرمایہ کاروں کی پاکستان کے وسیع قدرتی وسائل بالخصوص کان کنی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا عکاس ہے۔ ملاقات میں ڈاکٹر گوہر اعجاز پاکستان کے نجی شعبے کے اہم کردار پر روشنی ڈالی،ڈاکٹر گوہر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل یقینی بنانا رہا ہے، پاکستان پائیدار غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر رہا ہے،منرل فورم پاکستان کی اقتصادی رفتار پر نئے بین الاقوامی اعتماد کا اشارہ ہے۔ پاکستان اہم شعبوں میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔
اشتہار
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: گوہر اعجاز
پڑھیں:
پاک وزڈم ہائوس کے قیام کی تجویز
میں ان سطور کے ذریعے اہل فکر اور ارباب اختیار کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو پاکستان کی ترقی اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوم بنانے کے لئے کوئی ’’بڑا قدم‘‘ اٹھائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیئے قومی سوچ و فکر اور اجتماعی لائحہ عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی آباد ہیں ان کے اندر ’’پاکستانی قومیت‘‘ کا یہ جذبہ پہلے ہی سے بدرجہ اتم موجود ہے، اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس قوت کو مجتمع کیسے کیا جائے؟
اس سے قبل انہی صفحات کے ذریعے 31 مئی 2025 ء کو ’’امارات کے پاکستانی سفیر کو کھلا خط!‘‘ کے عنوان سے یہ تجویز دی تھی کہ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیئے متحدہ عرب امارات میں موجود عام پاکستانیوں، لکھاریوں، دانشوروں اور ادیبوں وغیرہ کو یکجا کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں بیٹھ کر یہ پاکستانی مادر ملک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچیں، بحث و مباحث، مذاکرے اور کانفرنسز وغیرہ کریں اور پھر ان کی روشنی میں حکومتوں کو ترقی کرنے کی سفارشات، سمریاں اور لائحہ عمل وغیرہ بھجوایا کریں۔ سفیر پاکستان نے تو اس سلسلے میں تاحال کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے، لیکن امارات اور سعودی عرب سے چند خواتین نے اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی اور تعاون کا مکمل یقین دلایا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سفیر پاکستان کے علاوہ میرے مرد قارئین میں سے بھی کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ تاہم جن خواتین نے تعاون کرنے کی پیشکش کی ان میں سعودی عرب سے ڈاکٹر محترمہ سمیرا عزیز، کراچی سے صائمہ صمیم، شارجہ سے ڈاکٹر نورالصباح اور دبئی سے اسما جان محمد سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر سمیرا عزیز سعودی نیشنل ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہ اردو زبان کی اعلیٰ پائے کی لکھاری، ادیبہ اور شاعرہ ہیں۔ محترمہ صائمہ صمیم فکشن رائٹر اور شاعرہ ہیں اور کراچی میں آئے روز ادبی تقریبات منعقد کرواتی ہیں، جبکہ اس مد میں وہ متحدہ عرب امارات میں بھی کافی دفعہ آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر نورالصباح پیشے کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات میں عجمان کے ایک ہسپتال میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور نامور کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ اپنے ’’چائے شائے ریسٹورنٹس‘‘کی برانچوں میں ہر دوسرے تیسرے ماہ کوئی نہ کوئی ادبی تقریب منعقد کرواتی ہیں اور خاص طور پر وہ شعرا کی جی بھر کر حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ بہترین مقرر بھی ہیں اور انہیں پاکستانی سکول دبئی، پاکستان ایسوسی ایشن دبئی اور پاکستان سوشل سنٹر شارجہ میں کئی دفعہ سن چکا ہوں۔ جبکہ محترمہ اسما جان محمد پیشے کے اعتبار سے تو دبئی کی کسی فرم میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں مگر وہ ابھرتی ہوئی نوجوان موٹیویشنل رائٹر ہیں جنہوں نے انگریزی زبان میں ’’مایاز پیراڈاکس‘‘، ’’شور‘‘ اور ’’ریفلیکشنز‘‘جیسی مشہور اور بیسٹ سیلر کتابیں لکھی ہیں۔
یہ قانون فطرت ہے کہ چیزیں اگر ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں یا انہیں ایک مقام پر جمع کر دیا جائے تو وہ اپنے اندر ایک عظیم الشان طاقت کو جنم دیتی ہیں۔ کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کے ذہین طبقہ کو اکٹھا کر کے ترقی کا یہ راز افشا کیا جا سکتا ہے کہ ملکی ماحول، مواقع اور ذہانت کو مدنظر رکھ کر ترقی کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دنیا میں کچھ مذہبی، سیاسی اور تعلیمی انقلابات ایسے بھی آئے ہیں کہ جن کی بنیاد رکھنے اور لیڈ کرنے والی عظیم ہستیاں اپنے آبائی ملک سے باہر تھیں۔ خاص طور پر الہامی پیغام رسانی اور اصلاح معاشرہ کے لیئے انبیا کرام اور بزرگان دین کو ہجرت جیسے تکلیف دہ تجربات سے گزرنا پڑا جب انہوں نے ایمان لانے اور اپنے چاہنے والوں کی تلاش میں اپنے آبا و اجداد کے ملک اور شہر کو خیر آباد کہا۔ اس کی تاریخ ساز مثال نبی مکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ ہے جہاں سے پورا عرب فتح ہوا اور جس کے بعد اسلام کی روشنی پوری دنیا میں پھیلانا شروع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقام اور جگہ کوئی بھی ہو اللہ تعالی کی ذات جب کسی قوم کو نوازتی ہے تو اس میں کچھ خاص شخصیات کا انتخاب کرتی ہے، جو ایسے انقلابی قدم اٹھانے کی ابتدا کرتے ہیں۔
انسانی ترقی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی بڑی ’’تبدیلی‘‘ یا ’’انقلاب‘‘ لانے کے لئے پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے جس کے بعد لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ’’قافلہ‘‘ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک جرمن فلاسفر کا قول ہے کہ جب وہ گہرا غوروخوض کرتے تھے تو دنیا کے حقائق ان کے سامنے ننگا ناچنے لگتے تھے۔ میں ملک سے باہر ذہانت کی منتقلی پر اکثر لکھتا رہتا ہوں۔ تاہم سمندر پار پاکستانی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں جو سالانہ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ لیکن ان کی اجتماعی ذہانت اور صلاحیتوں کو معیشت کی مضبوطی کے علاوہ بھی کیش کرنے کی کوئی سبیل نکالی جانی چایئے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا آغاز کیا جائے۔
پاکستان کی محبت سے سرشار سعودی عرب کی قومیت رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عزیز کے علاوہ اماراتی نیشنل ڈاکٹر محمد زبیر فاروق بھی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے کراچی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور وہیں سے اردو سیکھی۔ انہوں نے اردو شاعری کی درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کو 2013 ء میں حکومت پاکستان نے ’’نشان امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زرداری تھے اور آج بھی اتفاق سے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ہیں۔ میں انہی کالموں میں ڈاکٹر زبیر فاروق اور ڈاکٹر سمیرا عزیز کی خدمات کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ پاکستان سے خصوصی لگائو رکھنے والی ان دو عرب شخصیات کے علاوہ متحدہ عرب امارات، دیگر خلیجی ریاستوں اور حتی کہ دنیا بھر میں بہت سے دوسرے غیرملکی بھی ہیں جو پاکستان سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں جن کو آرگنائزر کر کے پاکستان کے حق میں بہترین ’’سفارت کاری‘‘ کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ اظہاریہ لکھنے کے بعد اس مد میں ڈاکٹر سمیرا عزیز نے خصوصی دلچسپی ظاہر کی تھی اور مجھے تجویز دی تھی کہ ’’پاکستان وذڈم ہائوس‘‘ کی طرز پر پاکستان اور دنیا بھر میں ایسے ’’دانش سنٹرز‘‘ قائم کیئے جانے چاہیے۔ پاکستانی سفارت خانوں کے پاس پاکستانی ترقی کے لیئے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لئے خصوصی فنڈز ہوتے ہیں۔ اگر اس تجویز پر عمل کر لیا جاتا ہے تو یہ پاکستان کی ترقی اور اسے واقعی عظیم قوم بنانے کے لیئے ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔
دنیا میں ترقی کی جست لگانے کے لئے پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے پھر چاہے ایک ملین مائلز کا سفر ہی کیوں نہ ہو وہ اسی ایک قدم کے اٹھانے کے بعد ہی طے ہوتا ہے۔ یہ پہلا قدم پاکستانی ترقی کی تاریخ میں ایک ’’سنگ میل‘‘ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ میں ارباب اختیار اور اہل دانش طبقہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ میری اس گزارش پر ضرور ہمدردانہ غوروفکر کریں گے۔ ایسی مثبت اور تعمیری تجاویز پر عمل کرنے ہی سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ ’’اے بسہ آرزو کہ خاک نہ شدہ۔‘‘ اللہ کرے کہ اس بار اس تجویز کو شرف باریابی حاصل ہو۔