Islam Times:
2025-11-04@05:11:26 GMT

واللہ خیرالماکرین

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

واللہ خیرالماکرین

اسلام ٹائمز: نیتن یاہو اور اس کے کار ستم میں اس کا رفیق کار، ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایران پر حملے کا ارمان لیے ہوئے بیٹھے ہیں لیکن ”خیرالماکین“ کے ارادے نے ان دونوں کے مکر و فریب کو ”بحر احمر“ کے پانیوں میں غرق کردیا ہے۔ کل تک امریکہ اور اسرائیل جو ”اہل خیبر“ کی طرح وارثینِ حیدر کرارؑ کو للکار رہے تھے آج ایران کی طاقت کے کچھ مظاہر دیکھنے کے بعد لگتا ہے ان کا دماغ اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آرہا ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

مارچ کا مہینا ابھی گزرا ہے۔ اس گزرے ہوئے مہینے میں دنیا کے ذرائع ابلاغ میں ایک شور محشر برپا ہوا، جو اب بھی ہے کہ ”امریکہ ایران پر حتمی طور پر حملہ کرے گا“۔ پھر کیا تھا کہ اس حملے کے حوالے سے دنیا بھر میں قائم امریکی اڈوں کے نام تمام اہل خبر کی زبانوں سے نشر ہونے لگے۔ اسی گونج میں امریکہ کے ”بی باون“ طیاروں کے گوجنے کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ اس گھن گھرج میں ہمارے تخیل کی پرواز بھی ہمیں آج سے تقریباً دس سال پیچھے لے گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسرائیل کی غاصب صیہونی حکومت کا وزیراعظم ”صابرا و شاتیلا “ کا قصائی،  ”آریئل شارون“ تھا۔ اس کے ذہن پر بھی نیتن یاہو کی طرح ایران کو صفحہء ہستی سے مٹانے کا جنون سوار تھا۔ اس نے بھی ایران پر حملے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے اس حملے کا مہینہ بھی بتا دیا تھا اور وہ مہینہ مارچ کا مہینہ تھا۔ دنیا اس وقت بھی اسرائیل کے ایران پر حملے کی اسی طرح منتظر تھی جس طرح آج امریکہ کے ایران پر حملے کی منتظر ہے۔ ایران کے دوست اسرائیل کے حملے کے اس اعلان پر اسی طرح مضطرب تھے جس طرح آج مضطرب ہیں۔

ایران کے دشمن اس وقت بھی اسی طرح اپنی بغلیں بجا رہے تھے جس طرح آج وہ بغیر کسی وقفے کے بجا رہے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ ”قادر مطلق“ جس کا ارشاد ہے ”واللہ خیر الماکرین“، اس نے اپنی قدرت کاملہ کو دکھایا اور وہ جو اپنے ذہن میں ایران کی تباہی کا سودا لیے ہوئے تھا اپنے اس خیال باطل سمیت ”کومے“ کی دنیا میں پہنچ گیا اور پھر بالآخر آٹھ سال تک قبر نما کومے میں بے حس و حرکت رہنے کے بعد دنیا کے زندان سے آخرت کے جہنم میں چلا گیا۔ آج اس کا جانشین، نیتن یاہو اور اس کے کار ستم میں اس کا رفیق کار، ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایران پر حملے کا ارمان لیے ہوئے بیٹھے ہیں لیکن ”خیرالماکین“ کے ارادے نے ان دونوں کے مکر و فریب کو ”بحر احمر“ کے پانیوں میں غرق کردیا ہے۔ کل تک امریکہ اور اسرائیل جو ”اہل خیبر“ کی طرح وارثینِ حیدر کرارؑ کو للکار رہے تھے آج ایران کی طاقت کے کچھ مظاہر دیکھنے کے بعد لگتا ہے ان کا دماغ اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آرہا ہے۔

ایران نے زیر زمین جو شہر آباد کیے ہوئے ہیں، ان کی آبادی اپنے دامن میں ایران کے دشمنوں کی مکمل بربادی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ ان شہروں میں، اپنے اپنے آشیانوں میں ہر دم پرواز کے لیے تیار، ابابیلوں کی ایک فوج ظفر موج نے ابھی سے ہاتھیوں کی چنگھاڑ کو کسی بھیگی بلی کی دبی ہوئی آواز میں تبدیل کر دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”ان تنصراللہ ینصرکم“ یعنی اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ بھی تمہاری نصرت کرے گا۔ ایران تقریباً نصف صدی سے راہ خدا میں مسلسل اپنی قربانیوں کے نذرانے پیش کر رہا ہے۔ یقیناً یہ سب کچھ ”خبیرِ مطلق“ کی نظر میں ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس موقع پر ”خیرالماکرین“ کی حکمت عملی کیا ہے؟ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ان کی مدد ضرور کرے گا جو اس کے دین کے احیاء کے لیے اس کی مدد کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران پر حملے لیے ہوئے حملے کا اور اس

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • روس کے یوکرین پر فضائی حملے، 2 بچوں سمیت 9 افراد ہلاک
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • برطانیہ میں ٹرین پر چاقو سے حملہ، 10 افراد زخمی، دو مشتبہ حملہ آور گرفتار
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں: مراد علی شاہ
  • نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں: ایران
  • برطانیہ : ٹرین میں چاقو کے حملے میں 10 افراد زخمی، 2 مشتبہ افراد گرفتار
  • سوڈان کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کا تبصرہ
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا