ڈیوڈ وارنر پریس کانفرنس میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے لیے کپتانوں کی کانفرنس میں 6 میں سے 5 فرنچائز کپتانوں نے شرکت کی جبکہ کراچی کنگز کے ڈیوڈ وارنر نمایاں طور پر غیر حاضر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل 2025 کے لیے ڈیوڈ وارنر کراچی کنگز کے کپتان مقرر
کانفرنس میں ملتان سلطانز کے محمد رضوان، لاہور قلندرز کے شاہین شاہ آفریدی، پشاور زلمی کے بابر اعظم، اسلام آباد یونائیٹڈ کے شاداب خان اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سعود شکیل نے اپنی اپنی ٹیموں کی نمائندگی کی۔
وارنر کی غیر موجودگی میں کراچی کنگز کی نمائندگی ان کے نئے نائب کپتان حسن علی نے کی۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ وارنر کیوں نہیں آئے، آسٹریلوی اسٹار نے رضاکارانہ طور پر میڈیا ایونٹ کو چھوڑ کر انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچ میں شرکت کرنے کا انتخاب کیا۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل 10: کراچی کنگز نے انتہائی منفرد اور دلکش نئی کٹ متعارف کرادی
پچھلے دن کے تربیتی سیشن کو منسوخ کرنے کے بعد وارنر نے سیزن کے افتتاحی میچ سے پہلے اپنے اسکواڈ کا قریب سے جائزہ لینے کے لیے دستیاب ونڈو کو استعمال کرنے کو ترجیح دی۔
واضح رہے کہ پی ایس ایل 10 جمعہ 11 اپریل کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں دفاعی چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کا لاہور قلندرز سے مقابلہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: ڈیوڈ وارنر بھی پی ایس ایل 10 میں طوفان برپا کرنے کے لیے تیار، رجسٹریشن کرا لی
دریں اثنا کراچی کنگز اپنی مہم کا آغاز اگلے دن یعنی 12 اپریل کو نیشنل بینک اسٹیڈیم میں ملتان سلطانز کے خلاف ہوم میچ سے کرے گی۔
پی ایس ایل 10 کے لیے کراچی کنگز کا اسکواڈڈیوڈ وارنر (کپتان)، عباس آفریدی، ایڈم ملنے، جیمز ونس، حسن علی، خوشدل شاہ، شان مسعود، محمد عرفان خان، عامر جمال، عرفات منہاس، ٹم سیفرٹ، زاہد محمود، لٹن داس، میر حمزہ، فواد علی، ریاض اللہ، عمیر بن یوسف، میرواعظ ولیم، محمد ولیم اور کاونبی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ایس ایل ڈیوڈ وارنر کرچی کنگز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ایس ایل ڈیوڈ وارنر کرچی کنگز پی ایس ایل 10 کراچی کنگز ڈیوڈ وارنر کے لیے
پڑھیں:
حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔
معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔
مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔
کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔
سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔
صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔