(گزشتہ سے پیوستہ)
رحمت ہی رحمت ہوتی ہے سکون و اطمینان نصیب ہو جاتاہے اور قرآن سے روگردانی کر نے والے اپنے اوپر ظلم کرنے والے ، ان کا تو نقصان بڑھتا ہی جاتا ہے۔ پس قرآن ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ ایک انقلاب لانے کے لئے آیا ہے اس نے دنیا میں ایسا انقلاب بر پا کیا کہ اس کا انکا ر کر نے والے بھی اس کے دیئے ہو ئے اصول زندگی اپنانے پر مجبور ہوگئے۔ وہ قرآن کو نہیں مانتے لیکن اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے لئے قرآنی طرز حکومت طرز سیاست طرز معیشت کواپناتے ہیں تو بہرحال قرآن کا فائدہ ان کو بھی مل جاتا ہے کہ وہ ظاہری طور پر دنیاوی زندگی میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔
یہ اللہ کے کلام کی عظیم خوبی ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر شعوری طور پر منکر ین سے بھی منواتا ہے ۔جب کعبہ میں، صحابہؓ کے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی تھی تو کفار سیٹیاں ، بجاتے ،شور و غوغاکر تے ، صرف اس لئے کہ لوگ اس کو غور سے نہ سننے پائیں ، وہ جانتے تھے کہ یہ ایسا کلام ہے ، کہ جو کوئی اس کو غور سے سننے گا ضرور اس کے دل پر اثر کریگا،پھر بھی ان کی زبانوں میں یہ بکواس رہتی کہ یہ کوئی خاص کلام تو نہیں اگر ہم چاہئے تو ایسی عبارت ہم بھی بناسکتے ہیں ،ہاں،ہاں ،کیوں نہیں ،یہ تو فصاحت و بلاغت کاسر چشمہ تھے۔ ان کو اپنی خطابت ، قوت بیان پر ناز تھا یہ اپنے علاوہ پوری دنیا کے لوگوں کو گونگا ’’عجمی ‘‘کہتے تھے ، لیکن قرآن کے مقابلے میں خود گونگے رہے ، قرآن نے خود ان کی بکواس کا جواب دیا سورہ بنی اسرائیل میں ہے ، ترجمہ:’’ اگر سارے انسان اور سارے جن جمع ہوکر بھی قرآن کی مثل بناناچاہیںتو وہ اس کی مثل ہرگزنہیں بناسکتے چاہے وہ اس کا م میں ایک دوسرے کے مدد گار ہو جائے‘‘ (پارہ،۵۱ ، سورہ بنی اسرائیل ۸۸) اللہ کے کلام کی برکت کا انداز ہ کیجئے اور سوچئے ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ یہ ہمارے گھروں میںموجودہے لیکن افسوس کہ ہمارے گھروں میں شیطان رہتا ہے ،بیماریا ں ہو تی ہیں، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ۔ یہ کیوں ، صرف اور صرف اس لئے کہ ہم گھر میں اللہ کاکلام ہوتے ہوئے بھی اس سے لاپر وا ہیں ۔صبح ہوتے ہی ہم یا تو اخبار کی طرف یا ریڈیو، سے کوئی گانا سنتے ہیں ، رات کو سوتے وقت ہم بڑے ہی انہماک سے ٹیلی وثرن کے سامنے ہوتے ہیں ۔ اللہ کاکلام بڑے احترام سے الماری میں سجاہوا ہے ، اس کی تلاوت کا موقع نہیں آپا تا ، کیسی محرومی ہے ہماری کس قدر نا شکرے ہیں ، خداکی نعمت موجود ہ ہے ، فائدہ حاصل کرنے کی توفیق نہیں۔
آج لوگ قرآن سے غافل ہوئے تو انہوں نے علماء دین ، خدامِ قرآن کو بھی معاشرے کاغیر ضروری حصہ سمجھنا شروع کر دیا وہ ہر ایک کی عزت کرتے ہیں لیکن دین کے خادموں کو ذلیل وخوار کر نا، ا ن پر طعنہ زنی کر نا اس دور کا ایک فیشن ہو گیا ہے، حالانکہ یہی طبقہ سب سے افضل واعلیٰ ، واجب الاحترام ہے ۔ ان کو وارث بنی قرار دیا گیا ہے ۔ کیوںیہ محافظ قرآن ہیں ، معلم قرآن ہیں ، مبلیغ قرآن ہیں یہ دنیا والے ان کو کتناہی براجانیں ، لیکن یہ اس دنیا کی اہم ضرورت ہیں ۔یہ دنیاوالے ان سے کتنی ہی نفرت کریں لیکن قرآن سے محبت کرنے والا قرآن کے صدقہ میں ان سے بھی محبت کرتاہے۔ دنیاوالے کتنا ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں لیکن قرآن کی حفاظت کرنے والا خداان کی بھی حفاظت فرماتاہے ، غرض یہ کہ خدانے علما ء وحفاظ ہی کو اپنے کلام کی حفاظت کاذریعہ بنایا ہے ۔ اس کانتیجہ ہے کہ آج دین سے لاپر وائی کے ا س دور میں بھی قرآن کی تبلیغ واشاعت بھی جاری ہے۔ تعلیم و قرآن کے مدارس بھی موجود ہیں علوم قرآن پڑھے اور پڑھائے جارہے ہیں ، بے شمار بچے اللہ کی کتاب حفظ کررہے ہیں۔ آج بھی کسی کی مجال نہیںکہ چند آدمیوں میں ہی وہ قرآن کاکوئی حرف یا زیر و زبر بھی غلط پڑھ سکے ۔
نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد پر تاریخ شائد ہے چودہ سوبرس میں کوئی صدی ایسی نہیں ملتی جس میں قرآن سیکھنے سیکھانے کا سلسلہ منقطع ہوا ہویا کسی دور میں خدامِ قرآن موجود نہ رہے ہو۔کبھی کسی کی مجال نہ ہوسکی کہ قرآن میں کوئی کمی یازیادتی کرے۔آپ ﷺ کا ہر ارشاد اور ہر عمل تفصیل قرآن ہی ہو اکرتا تھا جس کو ہم حدیث کہتے ہے ،یہ ہی قرآن کی تعلیم تھی اور اِسی کے لئے آپ ﷺنے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچتے ہی جامعۃ الصفہ یا صفہ یونیورسٹی کہہ سکتے ہیں قائم فرمادیا تھا ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں خدمت قرآن کا سب سے زیادہ اجر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملے گا کہ وہ ہی پہلے شخص ہے جنہوں نے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کروایا (تاریخ الخلفا) دنیا کی کوئی کتاب قرآن کریم کے مقابلے میں اس اعتبار سے بھی پیش نہیں کی جاسکتی کہ قرآن کریم کی کتابت عمدہ کاغذ بہترین جلد وغیرہ کا مقابلہ ہوسکے ۔حق یہ ہے کہ اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ لینے والا خدا ،عجب انداز سے مسلمانوں کے ذریعے اس کی حفاظت کرارہاہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی حفاظت قرآن کی قرآن ہی کے لئے
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)