مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز
بھارت میں مسلم مخالف وقف بل کی منظوری کے بعد مغربی بنگال شدید احتجاج اور کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر بل کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس کے دوران مرشد آباد میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 150 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
پرتشدد مظاہروں کو روکنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
بی جے پی حکومت مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رکنِ پارلیمنٹ جیوتیرمے سنگھ مہتو نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ متنازع قانون فورسز کو بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور فائرنگ جیسے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔
“کالا قانون” قرار دیے جانے والے اے ایف ایس پی اے کے اطلاق سے ریاست میں مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ناقدین نے اس اقدام کو بی جے پی کی جانب سے مغربی بنگال کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر ان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہتی ہے۔ کیا مذہبی شناخت بھارت میں جرم بن چکی ہے؟ کیا مغربی بنگال میں بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں؟ یہ سوالات اب بھارت کے جمہوری چہرے پر سنگین دھبے بن کر ابھر رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مغربی بنگال
پڑھیں:
مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) مالدیپ کی پارلیمان نے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ضابطہ کار میں لانے کے لیے ایک ایسا متنازع قانون منظور کر لیا ہے، جس پر مقامی اور بین الاقوامی حلقوں نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
منگل کی شب منظور ہونے والے 'میڈیا اینڈ براڈکاسٹنگ ریگولیشنز بل‘ کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔
اس قانون کے تحت ایک ریگولیٹری کمیشن قائم کیا جائے گا، جسے میڈیا اداروں کو معطل، اخبارات کی ویب سائٹس بلاک کرنے اور بھاری جرمانے عائد کرنے کا اختیار ہو گا۔یہ بل صدر محمد معیزو کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ مقامی روزنامہ ''محارو‘‘ کے مطابق بیس سے زائد ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پارلیمان نے ان خدشات کو نظرانداز کر دیا۔
(جاری ہے)
پیرس میں قائم تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے خبردار کیا ہے کہ اس بل میں مبہم زبان استعمال کی گئی ہے، جسے حکومت سینسرشپ کے لیے استعمال کر سکتی ہے، خاص طور پر طاقت کے غلط استعمال کی کوریج کو محدود کرنے کے لیے۔مجوزہ کمیشن سات اراکین پر مشتمل ہو گا، جن میں سے تین کا تقرر پارلیمان کرے گی جبکہ چار کا انتخاب میڈیا کی صنعت سے ہو گا، تاہم پارلیمان کو انہیں برطرف کرنے کا اختیار ہوگا۔
کمیشن کو 25 ہزار روفیہ (تقریباً 1625 ڈالر) تک صحافیوں اور 100 ہزار روفیہ (6500 ڈالر) تک اداروں پر جرمانہ کرنے، لائسنس منسوخ کرنے اور ایک سال قبل شائع شدہ مواد پر بھی کارروائی کرنے کا اختیار ہو گا۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ نئے ضوابط کا مقصد میڈیا پر عوامی اعتماد قائم کرنا اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، تاہم یہ قانون سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لاگو نہیں ہو گا۔
آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں مالدیپ کا نمبر 180 ممالک میں سے 104ہے، جو کہ قریبی جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان (158) سری لنکا (139) اور بھارت (151) سے کہیں بہتر ہے۔
ادارت: مقبول ملک