اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی(2)
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ تحریر: سید نوازش رضا
4۔ داعش کے خلاف جنگ، مغربی دعووں کی نفی
سابق امریکی صدر اوباما نے 2014ء میں کہا تھا کہ داعش کو ختم کرنے میں 20-30 سال لگ سکتے ہیں۔ (ماخذ: The Atlantic, 2014) ایران نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں 2014ء سے 2018ء کے درمیان داعش کو شام، عراق اور لبنان کے علاقوں سے بزور طاقت نکالتے ہوئے 21 نومبر 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہای کو تاریخی خط لکھتے ہوئے اس کی شکست کا اعلان کیا۔ (ماخذ: Al-Monitor, Press TV, The Guardian)
Nations CTED Reports 2024 یہ کامیابی محض فوجی مہارت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اعلیٰ اسٹریٹیجک ذہانت، مقامی رابطوں اور مقاومتی قوتوں کی استقامت کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب پورا یورپ، امریکہ اور اسرائیل اپنے تمام مالی وسائل کے ساتھ داعش کی پشت پناہی کر رہے ہیں، تو ایران نے بھی اپنے تمام اقتصادی وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ یہ ایران کی اقتصادی صلاحیتوں کا واضح مظہر ہے۔
5۔ مغربی پروپیگنڈا، کرائے کے جنگجو اور مالی امداد کا جھوٹا بیانیہ
مغربی میڈیا اکثر دعویٰ کرتا ہے کہ ایران حزب اللہ، فلسطین میں جہاد اسلامی، حماس، انصار اللہ (یمن)، عراق کی مزاحمتی قوتوں جیسے گروہوں کو لاکھوں ڈالر ماہانہ ادا کرتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ یہ بات خود مغربی میڈیا کے بیانیے سے واضح ہوتی ہے کہ ایران مالی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ ان گروہوں کو سپورٹ کرسکتا ہے۔ ان قوتوں کی تکنیکی اور مالیاتی بنیاد اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ اب میدان جنگ میں امریکہ، یورپ و اسرائیل جیسے ممالک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ایران واقعی بقول امریکہ و یورپ اقتصادی طور پر ایک تباہ حال ملک ہوتا، تو یہ سب ممکن نہ ہوتا۔
6۔ تعمیرِ نو میں ایران کا کردار، غزہ اور لبنان کی مثالیں
لبنان پر 2006ء کی اسرائیلی جنگ کے بعد ایران نے چند مہینوں میں بنیادی انفراسٹرکچر بحال کیا۔ (ماخذ: BBC Arabic, Al Jazeera) ایران آج بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اگر غزہ پر حملے بند ہوں تو وہ چند سالوں میں اسے دوبارہ آباد کرسکتا ہے، برخلاف امریکی دعووں کے کہ 30-40 سال لگیں گے۔ (ماخذ: Iranian Foreign Ministry Statements 2024)
7۔ ایرانی قوم کی وقار پر مبنی اجتماعی شناخت
ایرانی قوم عمومی طور پر ایک ایسی قوم کے طور پر جانی جاتی ہے، جو خودداری، منظم رویئے اور معاشی خود مختاری کے نمایاں اوصاف کی حامل ہے۔ ایرانی شہری عام طور پر بیرونِ ملک امداد یا خیرات پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ذلت آمیز یا کم درجے کی ملازمتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور باوقار روزگار کے لیے منظم طریقے سے کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ایرانی قوم معاشی و سماجی اعتبار سے ایسے مناظر میں دکھائی نہیں دیتی جہاں بھیک، مجبوری یا بے سروسامانی کا تاثر پیدا ہو۔ مختلف ممالک میں ان کی موجودگی اکثر پیشہ ورانہ، تعلیمی یا تجارتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس سے ان کے قومی مزاج میں وقار اور خود داری کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔ *یہ تمام نکات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ایرانی قوم ذہنی، سماجی اور تمدنی سطح پر اپنی غیرت و خودداری کو مقدم رکھتی ہے۔۔۔۔ جو کہ ایک زندہ، باوقار اور باشعور معاشی طور پر مظبوط قوم کی علامت ہے*
8۔ ایران میں غیر ملکی مزدوروں کی موجودگی، معاشی استحکام کا پیمانہ
ایران اب ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں دیگر ملکوں کے افراد روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش افغانستان و دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران کی فیکٹریوں، تعمیراتی منصوبوں، ہوٹلوں اور خدماتی شعبوں میں روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ ایران میں اجرت کا معیار جنوبی ایشیائی ممالک سے بہتر ہے اور کام کے حالات بھی زیادہ انسانی اور محفوظ ہیں۔ *یہ رجحان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ایران اب خود ایک معاشی منزل بن چکا ہے، نہ کہ ترک وطن کرنے والی ریاست۔*
9۔ ایران: دینے والا ہاتھ، مانگنے والا نہیں
ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو موجودہ عالمی مالیاتی استکباری نظام، جس میں قوموں کو سود کی بنیاد پر قرضے دے کر غلام بنایا جاتا ہے، اس سے غیر وابستہ ہوتے ہوئے اپنی مکمل مالی خودمختاری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایران آج کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے (IMF, World Bank, Paris Club) کا مقروض نہیں ہے، نہ وہ قرض معاف کروانے کی لائن میں کھڑا ہے، نہ وہ بھیک مانگنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، بلکہ ایران کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے اربوں ڈالرز کے اثاثے جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں منجمد کیے گئے ہیں، وہ صرف اسے واپس کر دیئے جائیں۔ ایران کے ان اثاثوں پر مغربی ممالک سود کماتے ہیں، اپنے بجٹ پورے کرتے ہیں، جبکہ اصل مالک کو پابندیوں کی آڑ میں محروم رکھا گیا ہے۔
اس کے برعکس ایران آج بھی دنیا کے مظلوم ممالک، جیسے فلسطین، یمن، لبنان، اور افریقی ریاستوں کی مالی، سیاسی اور انسانی سطح پر مدد کرتا ہے۔ مغرب اسے "پراکسی سپورٹ" کہتا ہے، مگر ایران اسے "مظلومین کی مدد" اور اسلامی و انسانی فریضہ کہتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے اثاثوں سے محروم ہے، پھر بھی دوسروں کی مالی مدد کرتا ہے، وہ معاشی طور پر محتاج نہیں بلکہ دینے والے ہاتھ کی علامت ہے۔ یہ تمام پہلو اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ ایران سود خور سرمایہ دارانہ نظام کا غلام نہیں، بلکہ ایک خودمختار، اصولی اور مربّی ریاست کے طور پر کھڑا ہے۔ *جو ملک دوسروں کی مدد کرتا ہو اور خود عالمی اداروں سے قرض کا متقاضی نہ ہو، وہ معاشی خود کفالت کا مظہر ہوتا ہے، نہ کہ کمزور ریاست۔*
10۔ سماجی ترقی اور سوشل انڈیکیٹرز:
● ایران میں شرح خواندگی 96٪ ہے اور خواتین کی یونیورسٹی میں شرکت 65٪ تک ہے۔ (ماخذ: UNESCO)
● ایران کا یونیورسل ہیلتھ کوریج ماڈل WHO کی جانب سے ڈیولپنگ ورلڈ میں بہترین قرار دیا گیا۔
● ایران کی 80٪ سے زائد آبادی صاف پانی، بجلی اور تعلیم تک رسائی رکھتی ہے۔
11۔ ایران: پابندیوں کے باوجود خود کفیل ماڈل
ایران نے چالیس سال سے زیادہ امریکی پابندیوں کے باوجود "اقتصادِ مقاومت" (Economy of Resistance) کی بنیاد پر ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو:
》 اقتصادی خودکفالت
》 ٹیکنالوجی میں خود انحصاری
》بیرونی دباؤ کے باوجود ترقی کے قابلِ رشک نمونے پیش کرتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران آج عالمی سطح پر ایک ایسی خودمختار قوم کی حیثیت سے ابھرا ہے جو:
مغربی پابندیوں کے باوجود اپنی خودداری برقرار رکھتی ہے۔
سیاسی و اقتصادی دباؤ کے آگے اپنا وقار قائم رکھتی ہے۔
خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہے۔
12۔ ایرانی شہروں کی جدیدیت اور شہری انفرا اسٹرکچر
ایران کے شہر جیسے تہران، مشہد، اصفہان، شیراز، شہری ترقی اور آرکیٹیکچر میں کئی ترقی یافتہ شہروں کی صف میں نظر آتے ہیں۔ جدید ریلوے، ٹرانسپورٹ میٹرو سسٹمز، ایئرپورٹس، سڑکوں کا جال، اسپتالوں کا نیٹ ورک اور اعلیٰ تعلیمی مراکز و یونیورسٹیاں وغیرہ یہ سب ثبوت ہیں کہ پابندیوں کے باوجود ایران نے شہری تعمیر و ترقی میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
13۔ تعلیم و صحت: خطے کے بہترین نظاموں میں شامل
ایران کا تعلیمی نظام دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بہت آگے ہے۔ ہزاروں طلبہ دنیا بھر سے ایران کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے ہیں۔ ایرانی میڈیکل سسٹم WHO، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق بہترین ترقی پذیر نظاموں میں سے ایک ہے۔
ایران میڈیکل ٹورازم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ *پہلے جہاں کبھی ڈاکٹر بھارت و پاکستان و دیگر مملک سے آتے تھے، آج دنیا وہاں علاج کروانے جا رہی ہے۔*
14۔ ایرانی صنعت کا عالمی اثر
ایران کی مصنوعات عالمی معیارات کے مطابق تسلیم شدہ ہیں، جو نہ صرف قیمت کے لحاظ سے سستی بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی کئی ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات سے بہتر ہیں۔ ایران کی صنعتی صلاحیتوں کا یہ عالمی عکس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں اس کی ترقی کو روک نہیں سکیں، بلکہ اس نے متبادل راستوں سے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران کی موٹر سائیکل، کار، زرعی مشینری، ہوم اپلائنسز اور ٹائل انڈسٹری بھی غیر ملکی منڈیوں میں موجود ہے۔ *ترقی صرف GDP یا ڈالر نہیں، خوداری اور ادارہ جاتی خود انحصاری ہے* ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ: *ترقی وہ نہیں جو مغرب طے کرے، بلکہ وہ ہے، جو قوم خود اپنے اندر پیدا کرے۔*
مسقط مذاکرات کی ناکامی ایران پر اقتصادی پابندیوں کا بیانیہ اور حقیقت کا تضاد
مغربی میڈیا ان مذاکرات کو ایران پر آخری دباؤ کے طور پر پیش کر رہا ہے، کہ اگر اس نے امریکی مطالبات کے سامنے لچک نہ دکھائی تو تباہ کر دیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ: ایران نے 2018ء میں JCPOA سے امریکہ کے انخلا کے بعد مزید پابندیاں برداشت کیں، مگر تباہ نہیں ہوا۔ یورپ اور امریکہ صرف شور مچاتے ہیں، کیونکہ ان کی اصل طاقت پراپیگنڈا اور میڈیا کنٹرول کے ذریعے ذہن سازی کرنا ہے، جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمینی حقائق (ground realities) کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایران نے اپنی معیشت کو پٹرول سے نان-آئل شعبوں میں منتقل کیا اور پابندیوں کے باوجود نہ صرف ملکی سطح پر خود کفیل ہوا بلکہ برآمدات جاری رکھیں۔
ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ *اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیاب مثال دنیا کی تمام محروم قوموں کے لئے، جو حقیقی آزدی حاصل کرنا چاہتی ہیں, ایک روشن دلیل ہے کہ اگر:*》 *قیادت مخلص ہو 》قومی خودداری کو چند ڈالروں کے سودی قرضوں پر نہ بیچا جائے 》 قومی وژن واضح ہو 》اور عوام پر مکمل اعتماد ہو* *تو کوئی بھی عالمی استعماری و سامراجی طاقت کسی بھی ملت کو غلام نہیں بنا سکتی۔"*
امام خمینیؒ کی حکیمانہ رہنمائی اور نظریۂ ولایت فقیہ کی برکت سے وجود میں آنے والے انقلابِ اسلامی نے ایرانی قوم کو فکری و عملی طور پر ایک نئے دور سے روشناس کرایا، جس نے حقیقی معنوں میں خودداری، ایمان، وحدت اور استقامت کی بنیاد پر ترقی کا ایک ایسا راستہ متعارف کرایا، جو بیرونی دباؤ (external pressures) کے سامنے ڈٹ جانے کی عملی مثال پیش کرتا ہے۔ یہ انقلاب ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی قوم اپنی تہذیبی اقدار، قومی وسائل اور اندرونی صلاحیتوں پر پختہ اعتماد کرتی ہے تو عالمی استکبار کی کوئی بھی طاقت اسے اس کے عظیم ملی مقاصد سے روک نہیں سکتی۔ *اور یہی نظریۂ ولایت فقیہ آج رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) کی دوراندیش قیادت میں وہ اسلامی نظامِ مقاومت ہے، جو ایران کو عالمی استعماری و استکباری طاقتوں کے مقابلے میں ایک مضبوط، خودکفیل اور خودمختار قوم کی حیثیت سے مستحکم کھڑا کرچکا ہے۔
*ایرانی عوام کو یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیئے کہ نظامِ ولایت فقیہ ہی وہ پائیدار بنیاد ہے، جو ضامن ہے:*
✓ *قومی خودداری، تہذیبی شناخت اور اسلامی اقدار کو بیچے بغیر حقیقی معنوں میں جدید ترقی اور خود کفالت کا راستہ کا*
✓ *حقیقی آزدی و خود مختاری*
✓ *حقیقی اسلامی جمہوریت*
✓ *اور استعماری سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی صلاحیت*
یہی وجہ ہے کہ آج کا جدید استعمار اسی نظام سے خائف ہے، کیونکہ یہ اس کے ناپاک عزائم کے آگے ناقابلِ تسخیر دیوار ثابت ہوا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پابندیوں کے باوجود مغربی میڈیا اس حقیقت کو ایرانی قوم کرتا ہے کہ ممالک میں کے طور پر ایران کا رکھتی ہے ایران نے ایران کی کرتے ہیں یہ ایران کے سامنے کہ ایران ہوتا ہے اور خود دنیا کے قوم کی پر ایک اور ان رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
جے یو آئی، جماعت اسلامی کا فلسطین پر ملک گیر مہم چلانے کا اعلان
مجلس اتحاد امت کے نام سے نیا پلیٹ فارم تشکیل دے دیا،فلسطینیوںسے اظہارِ یکجہتی کے لیے 27؍اپریل کو مینارِ پاکستان پر بہت بڑا جلسہ او رمظاہرہ ہوگا، لاہور میں اجتماع بھی اسی پلیٹ فارم کے تحت ہوگا
کوشش ہے پی ٹی آئی سے تعلقات کو واپس اسی سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات ہوسکے ،پی پی ، (ن)، جماعت اسلامی سے اختلاف ہے لڑائی نہیں،مولانا فضل الرحمن کی منصورہ میں حافظ نعیم سے ملاقات
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مجلس اتحاد امت کے نام سے نیا پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں،فلسطینیوںسے اظہارِ یکجہتی کے لیے 27 اپریل کو مینارِ پاکستان پر بہت بڑا جلسہ او رمظاہرہ ہوگا ۔جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹرز منصورہ میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کی ۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملک کی مجموعی خصوصاً غزہ ،فلسطین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے حافظ نعیم الرحمن سے پروفیسر خورشید کے انتقال پر اظہار تعزیت بھی کیا۔ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حافظ نعیم الرحمن کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یکسو ہو کر غزہ کے فلسطینیوں کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہے ؟ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں مینار پاکستان جلسے میں شرکت کریں گی، اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی اسرائیلی لابی ہے بھی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، فلسطین کیلئے پورے ملک میں بیداری مہم بھی چلائیں گے تاکہ ہماری قوم، امت مسلمہ اور اس کے حکمران یکسو ہوکر مظلوم فلسطینیوں کے مداوے کے لیے کچھ کردار ادا کرسکیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال پوری امت مسلمہ کیلئے باعث تشویش ہے ۔مجلس اتحاد امت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، لاہور میں اجتماع بھی اسی پلیٹ فارم کے تحت ہوگا، جس میں تمام مذہبی پارٹیاں اور تنظیمیں شریک ہوں گی اور مینار پاکستان جلسے میں فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کریں گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کا بڑا واضح موقف ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے اور یہ امت مسلمہ کی کمزوریاں ہیں، امت مسلمہ کو اپنے حکمرانوں کے رویے سے شکایت ہے کہ وہ اپنا حقیقی فرض کیوں ادا نہیں کررہے ۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کے حوالے سے جے یو آئی کا منشور بڑا واضح ہے ، ہر صوبے کے وسائل اس صوبے کے عوام کی ملکیت ہیں، ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے ۔سندھ کے لوگ اگر اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا، بہتر ہوتا کہ ہم مرکز میں تمام صوبوں کو بٹھاتے اور متفقہ لائحہ عمل طے کرتے ، یہ حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ ہر مسئلے کو متنازع بنادیتے ہیں۔26 ویں ترمیم کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ترمیم پر ہمارا اختلاف تھا اسی لیے 56 شقوں میں سے حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کرایا گیا،آئینی ترمیم پر ہر جماعت کے اپنے نکات ہوتے ہیں، ہم نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئیڈیل ہے ، دھاندلی پر ہمارا اور جماعت اسلامی کا موقف بہت زیادہ مختلف نہیں۔انہوں نے کہا کہ نئی نہروں کا فیصلہ تمام صوبوں سے اتفاق رائے سے ہونا چاہیے تھا، حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکے ۔انہوں نے کہا کہ کوشش ہے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو واپس اسی سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات چیت ہوسکے ، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی، (ن)لیگ، جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن لڑائی نہیں ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کافی عرصہ سے ارادہ تھا کہ جب لاہور آئوں تو منصورہ بھی آئوں تاکہ باہمی رابطے بحال ہوں، آج کی ملاقات میں پروفیسر خورشید کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے ، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں غزہ کے حوالے سے بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا، اس میں ہم سب شریک ہوں، ملک بھر میں بیداری کی مہم چلائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ مجلس اتحاد امت کے نام سے پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، لاہور میں 27 اپریل کو ہونے والی کانفرنس اسی پلیٹ فارم سے ہوگی، دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہیں جو لوگ اسرائیل گئے وہ پاکستان یا مسلمانوں کے نمائندے نہیں تھے ، امت کو مسلم حکمرانوں کے رویوں سے تشویش ہے ۔انہوںنے کہا کہ جہاد انتہائی مقدس لفظ ہے ،اس کی اپنی ایک حرمت ہے ، جہاد کا مرحلہ تدبیر کے تابع ہوتا ہے ، آج جب مسلم ممالک تقسیم ہیں تو جہاد کی صورتیں بھی مختلف ہوں گی، ہمیں لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ شریعت اور اسلام کیا کہتا ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جن علما ئے کرام نے فلسطین کے حوالے سے جہاد فرض ہونے کا اعلان کیا ان کے اعلان کا مذاق اڑایا گیا، ان ہی علما ئے کرام نے ملک کے اندر مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا اس پر کیوں عمل نہیں کیا جاتا؟۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ فلسطین سے متعلق ہم مولانا فضل الرحمان کے موقف کے ساتھ ہیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علما ئے اسلام نے اصولی طور پر طے کیا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھیں گی، 26ویں آئینی ترمیم ہماری نظر میں غیر ضروری تھی، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جے یوآئی کی اپنی پالیسی تھی، آج کی ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال سمیت غزہ کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ہم فوری نئے الیکشن نہیں بلکہ فارم 45 کی بنیاد پر نتائج چاہتے ہیں، جماعت اسلامی فوری الیکشن کے حق میں نہیں ، آئین اور جمہوریت کی بالادستی سب کو قبول کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ کہا کہ اداروں کواپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے ، ملک میں مہنگائی ہے مگر حکومتی اعداد و شمار میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے 27 اپریل کو مینارپاکستان پر بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا جس میں مذہبی جماعتیں شرکت کریں گی۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین اور غزہ ہے ، اسرائیل امریکہ کی سرپرستی میں ظلم کررہا ہے ، اس پر ہمارا اتفاق ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوں اور ظالموں کی مذمت کریں، چاہے وہ امریکہ ہو یا اسرائیل ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سب کو آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہونی چاہیے اور سب کو قبول کرنی چاہیے ، اور تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی کا اپنا ایک نظام ہے ، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جماعت اسلامی کا اپنا ایک موقف ہے اور ہم نے اس ترمیم کو کلیتا ًمسترد کیا تھا، اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہم جدوجہد کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا الیکشن کے حوالے سے موقف تھوڑا سا مختلف ہے ، ہم الیکشن میں دھاندلی کے موقف پر جے یو آئی سے اتفاق کرتے ہیں مگر ہم فوری طور پر نئے الیکشن کا مطالبہ نہیں کررہے ۔اس پر ہمارا موقف ہے کہ چونکہ فارم 45 اکثر لوگوں کے پاس موجود ہے اور انتخاب کو ابھی ایک سال ہوا ہے ، تو ہمارا موقف یہ ہے کہ اتفاق رائے سے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کرے ۔