اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی(2)
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ تحریر: سید نوازش رضا
4۔ داعش کے خلاف جنگ، مغربی دعووں کی نفی
سابق امریکی صدر اوباما نے 2014ء میں کہا تھا کہ داعش کو ختم کرنے میں 20-30 سال لگ سکتے ہیں۔ (ماخذ: The Atlantic, 2014) ایران نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں 2014ء سے 2018ء کے درمیان داعش کو شام، عراق اور لبنان کے علاقوں سے بزور طاقت نکالتے ہوئے 21 نومبر 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہای کو تاریخی خط لکھتے ہوئے اس کی شکست کا اعلان کیا۔ (ماخذ: Al-Monitor, Press TV, The Guardian)
Nations CTED Reports 2024 یہ کامیابی محض فوجی مہارت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اعلیٰ اسٹریٹیجک ذہانت، مقامی رابطوں اور مقاومتی قوتوں کی استقامت کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب پورا یورپ، امریکہ اور اسرائیل اپنے تمام مالی وسائل کے ساتھ داعش کی پشت پناہی کر رہے ہیں، تو ایران نے بھی اپنے تمام اقتصادی وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ یہ ایران کی اقتصادی صلاحیتوں کا واضح مظہر ہے۔
5۔ مغربی پروپیگنڈا، کرائے کے جنگجو اور مالی امداد کا جھوٹا بیانیہ
مغربی میڈیا اکثر دعویٰ کرتا ہے کہ ایران حزب اللہ، فلسطین میں جہاد اسلامی، حماس، انصار اللہ (یمن)، عراق کی مزاحمتی قوتوں جیسے گروہوں کو لاکھوں ڈالر ماہانہ ادا کرتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ یہ بات خود مغربی میڈیا کے بیانیے سے واضح ہوتی ہے کہ ایران مالی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ ان گروہوں کو سپورٹ کرسکتا ہے۔ ان قوتوں کی تکنیکی اور مالیاتی بنیاد اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ اب میدان جنگ میں امریکہ، یورپ و اسرائیل جیسے ممالک کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ایران واقعی بقول امریکہ و یورپ اقتصادی طور پر ایک تباہ حال ملک ہوتا، تو یہ سب ممکن نہ ہوتا۔
6۔ تعمیرِ نو میں ایران کا کردار، غزہ اور لبنان کی مثالیں
لبنان پر 2006ء کی اسرائیلی جنگ کے بعد ایران نے چند مہینوں میں بنیادی انفراسٹرکچر بحال کیا۔ (ماخذ: BBC Arabic, Al Jazeera) ایران آج بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اگر غزہ پر حملے بند ہوں تو وہ چند سالوں میں اسے دوبارہ آباد کرسکتا ہے، برخلاف امریکی دعووں کے کہ 30-40 سال لگیں گے۔ (ماخذ: Iranian Foreign Ministry Statements 2024)
7۔ ایرانی قوم کی وقار پر مبنی اجتماعی شناخت
ایرانی قوم عمومی طور پر ایک ایسی قوم کے طور پر جانی جاتی ہے، جو خودداری، منظم رویئے اور معاشی خود مختاری کے نمایاں اوصاف کی حامل ہے۔ ایرانی شہری عام طور پر بیرونِ ملک امداد یا خیرات پر انحصار کرنے کے بجائے خود انحصاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ذلت آمیز یا کم درجے کی ملازمتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور باوقار روزگار کے لیے منظم طریقے سے کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ایرانی قوم معاشی و سماجی اعتبار سے ایسے مناظر میں دکھائی نہیں دیتی جہاں بھیک، مجبوری یا بے سروسامانی کا تاثر پیدا ہو۔ مختلف ممالک میں ان کی موجودگی اکثر پیشہ ورانہ، تعلیمی یا تجارتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس سے ان کے قومی مزاج میں وقار اور خود داری کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔ *یہ تمام نکات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ایرانی قوم ذہنی، سماجی اور تمدنی سطح پر اپنی غیرت و خودداری کو مقدم رکھتی ہے۔۔۔۔ جو کہ ایک زندہ، باوقار اور باشعور معاشی طور پر مظبوط قوم کی علامت ہے*
8۔ ایران میں غیر ملکی مزدوروں کی موجودگی، معاشی استحکام کا پیمانہ
ایران اب ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں دیگر ملکوں کے افراد روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش افغانستان و دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران کی فیکٹریوں، تعمیراتی منصوبوں، ہوٹلوں اور خدماتی شعبوں میں روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ ایران میں اجرت کا معیار جنوبی ایشیائی ممالک سے بہتر ہے اور کام کے حالات بھی زیادہ انسانی اور محفوظ ہیں۔ *یہ رجحان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ایران اب خود ایک معاشی منزل بن چکا ہے، نہ کہ ترک وطن کرنے والی ریاست۔*
9۔ ایران: دینے والا ہاتھ، مانگنے والا نہیں
ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو موجودہ عالمی مالیاتی استکباری نظام، جس میں قوموں کو سود کی بنیاد پر قرضے دے کر غلام بنایا جاتا ہے، اس سے غیر وابستہ ہوتے ہوئے اپنی مکمل مالی خودمختاری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایران آج کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے (IMF, World Bank, Paris Club) کا مقروض نہیں ہے، نہ وہ قرض معاف کروانے کی لائن میں کھڑا ہے، نہ وہ بھیک مانگنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، بلکہ ایران کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے اربوں ڈالرز کے اثاثے جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں منجمد کیے گئے ہیں، وہ صرف اسے واپس کر دیئے جائیں۔ ایران کے ان اثاثوں پر مغربی ممالک سود کماتے ہیں، اپنے بجٹ پورے کرتے ہیں، جبکہ اصل مالک کو پابندیوں کی آڑ میں محروم رکھا گیا ہے۔
اس کے برعکس ایران آج بھی دنیا کے مظلوم ممالک، جیسے فلسطین، یمن، لبنان، اور افریقی ریاستوں کی مالی، سیاسی اور انسانی سطح پر مدد کرتا ہے۔ مغرب اسے "پراکسی سپورٹ" کہتا ہے، مگر ایران اسے "مظلومین کی مدد" اور اسلامی و انسانی فریضہ کہتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے اثاثوں سے محروم ہے، پھر بھی دوسروں کی مالی مدد کرتا ہے، وہ معاشی طور پر محتاج نہیں بلکہ دینے والے ہاتھ کی علامت ہے۔ یہ تمام پہلو اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ ایران سود خور سرمایہ دارانہ نظام کا غلام نہیں، بلکہ ایک خودمختار، اصولی اور مربّی ریاست کے طور پر کھڑا ہے۔ *جو ملک دوسروں کی مدد کرتا ہو اور خود عالمی اداروں سے قرض کا متقاضی نہ ہو، وہ معاشی خود کفالت کا مظہر ہوتا ہے، نہ کہ کمزور ریاست۔*
10۔ سماجی ترقی اور سوشل انڈیکیٹرز:
● ایران میں شرح خواندگی 96٪ ہے اور خواتین کی یونیورسٹی میں شرکت 65٪ تک ہے۔ (ماخذ: UNESCO)
● ایران کا یونیورسل ہیلتھ کوریج ماڈل WHO کی جانب سے ڈیولپنگ ورلڈ میں بہترین قرار دیا گیا۔
● ایران کی 80٪ سے زائد آبادی صاف پانی، بجلی اور تعلیم تک رسائی رکھتی ہے۔
11۔ ایران: پابندیوں کے باوجود خود کفیل ماڈل
ایران نے چالیس سال سے زیادہ امریکی پابندیوں کے باوجود "اقتصادِ مقاومت" (Economy of Resistance) کی بنیاد پر ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو:
》 اقتصادی خودکفالت
》 ٹیکنالوجی میں خود انحصاری
》بیرونی دباؤ کے باوجود ترقی کے قابلِ رشک نمونے پیش کرتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران آج عالمی سطح پر ایک ایسی خودمختار قوم کی حیثیت سے ابھرا ہے جو:
مغربی پابندیوں کے باوجود اپنی خودداری برقرار رکھتی ہے۔
سیاسی و اقتصادی دباؤ کے آگے اپنا وقار قائم رکھتی ہے۔
خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہے۔
12۔ ایرانی شہروں کی جدیدیت اور شہری انفرا اسٹرکچر
ایران کے شہر جیسے تہران، مشہد، اصفہان، شیراز، شہری ترقی اور آرکیٹیکچر میں کئی ترقی یافتہ شہروں کی صف میں نظر آتے ہیں۔ جدید ریلوے، ٹرانسپورٹ میٹرو سسٹمز، ایئرپورٹس، سڑکوں کا جال، اسپتالوں کا نیٹ ورک اور اعلیٰ تعلیمی مراکز و یونیورسٹیاں وغیرہ یہ سب ثبوت ہیں کہ پابندیوں کے باوجود ایران نے شہری تعمیر و ترقی میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
13۔ تعلیم و صحت: خطے کے بہترین نظاموں میں شامل
ایران کا تعلیمی نظام دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بہت آگے ہے۔ ہزاروں طلبہ دنیا بھر سے ایران کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے ہیں۔ ایرانی میڈیکل سسٹم WHO، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق بہترین ترقی پذیر نظاموں میں سے ایک ہے۔
ایران میڈیکل ٹورازم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ *پہلے جہاں کبھی ڈاکٹر بھارت و پاکستان و دیگر مملک سے آتے تھے، آج دنیا وہاں علاج کروانے جا رہی ہے۔*
14۔ ایرانی صنعت کا عالمی اثر
ایران کی مصنوعات عالمی معیارات کے مطابق تسلیم شدہ ہیں، جو نہ صرف قیمت کے لحاظ سے سستی بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی کئی ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات سے بہتر ہیں۔ ایران کی صنعتی صلاحیتوں کا یہ عالمی عکس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں اس کی ترقی کو روک نہیں سکیں، بلکہ اس نے متبادل راستوں سے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایران کی موٹر سائیکل، کار، زرعی مشینری، ہوم اپلائنسز اور ٹائل انڈسٹری بھی غیر ملکی منڈیوں میں موجود ہے۔ *ترقی صرف GDP یا ڈالر نہیں، خوداری اور ادارہ جاتی خود انحصاری ہے* ایران نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ: *ترقی وہ نہیں جو مغرب طے کرے، بلکہ وہ ہے، جو قوم خود اپنے اندر پیدا کرے۔*
مسقط مذاکرات کی ناکامی ایران پر اقتصادی پابندیوں کا بیانیہ اور حقیقت کا تضاد
مغربی میڈیا ان مذاکرات کو ایران پر آخری دباؤ کے طور پر پیش کر رہا ہے، کہ اگر اس نے امریکی مطالبات کے سامنے لچک نہ دکھائی تو تباہ کر دیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ: ایران نے 2018ء میں JCPOA سے امریکہ کے انخلا کے بعد مزید پابندیاں برداشت کیں، مگر تباہ نہیں ہوا۔ یورپ اور امریکہ صرف شور مچاتے ہیں، کیونکہ ان کی اصل طاقت پراپیگنڈا اور میڈیا کنٹرول کے ذریعے ذہن سازی کرنا ہے، جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمینی حقائق (ground realities) کو بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ایران نے اپنی معیشت کو پٹرول سے نان-آئل شعبوں میں منتقل کیا اور پابندیوں کے باوجود نہ صرف ملکی سطح پر خود کفیل ہوا بلکہ برآمدات جاری رکھیں۔
ایران نے چالیس سال سے زیادہ محاصرے، پابندیوں، دھمکیوں اور جنگی سازشوں کے باوجود ایک استقامت اور خود داری کی ریاست قائم رکھی ہے۔ اس نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی عسکری و سفارتی برتری کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے جو شور مچایا جا رہا ہے، کہ ایران اقتصادی طور پر مرنے والا ہے، کہ ایران بکھر جائے گا، یہ صرف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ایران کا حقیقی چہرہ۔۔۔۔ ایک خود دار، مزاحمتی، ترقی پذیر اور عالمی اسٹریٹیجی رکھنے والی ریاست ہے، جو دنیا کے سامنے آنا چاہیئے۔ *اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیاب مثال دنیا کی تمام محروم قوموں کے لئے، جو حقیقی آزدی حاصل کرنا چاہتی ہیں, ایک روشن دلیل ہے کہ اگر:*》 *قیادت مخلص ہو 》قومی خودداری کو چند ڈالروں کے سودی قرضوں پر نہ بیچا جائے 》 قومی وژن واضح ہو 》اور عوام پر مکمل اعتماد ہو* *تو کوئی بھی عالمی استعماری و سامراجی طاقت کسی بھی ملت کو غلام نہیں بنا سکتی۔"*
امام خمینیؒ کی حکیمانہ رہنمائی اور نظریۂ ولایت فقیہ کی برکت سے وجود میں آنے والے انقلابِ اسلامی نے ایرانی قوم کو فکری و عملی طور پر ایک نئے دور سے روشناس کرایا، جس نے حقیقی معنوں میں خودداری، ایمان، وحدت اور استقامت کی بنیاد پر ترقی کا ایک ایسا راستہ متعارف کرایا، جو بیرونی دباؤ (external pressures) کے سامنے ڈٹ جانے کی عملی مثال پیش کرتا ہے۔ یہ انقلاب ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی قوم اپنی تہذیبی اقدار، قومی وسائل اور اندرونی صلاحیتوں پر پختہ اعتماد کرتی ہے تو عالمی استکبار کی کوئی بھی طاقت اسے اس کے عظیم ملی مقاصد سے روک نہیں سکتی۔ *اور یہی نظریۂ ولایت فقیہ آج رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) کی دوراندیش قیادت میں وہ اسلامی نظامِ مقاومت ہے، جو ایران کو عالمی استعماری و استکباری طاقتوں کے مقابلے میں ایک مضبوط، خودکفیل اور خودمختار قوم کی حیثیت سے مستحکم کھڑا کرچکا ہے۔
*ایرانی عوام کو یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیئے کہ نظامِ ولایت فقیہ ہی وہ پائیدار بنیاد ہے، جو ضامن ہے:*
✓ *قومی خودداری، تہذیبی شناخت اور اسلامی اقدار کو بیچے بغیر حقیقی معنوں میں جدید ترقی اور خود کفالت کا راستہ کا*
✓ *حقیقی آزدی و خود مختاری*
✓ *حقیقی اسلامی جمہوریت*
✓ *اور استعماری سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی صلاحیت*
یہی وجہ ہے کہ آج کا جدید استعمار اسی نظام سے خائف ہے، کیونکہ یہ اس کے ناپاک عزائم کے آگے ناقابلِ تسخیر دیوار ثابت ہوا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پابندیوں کے باوجود مغربی میڈیا اس حقیقت کو ایرانی قوم کرتا ہے کہ ممالک میں کے طور پر ایران کا رکھتی ہے ایران نے ایران کی کرتے ہیں یہ ایران کے سامنے کہ ایران ہوتا ہے اور خود دنیا کے قوم کی پر ایک اور ان رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-6
میر بابر مشتاق
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…
کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔
صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔
کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔