کیا ہو رہا ہے؟پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی پیچیدہ مگر باہمی دلچسپیوں پر مبنی رہے ہیں۔ کبھی یہ تعلقات دوستی اور تعاون کی معراج پر ہوتے ہیں تو کبھی شک اور بداعتمادی کی دھند میں لپٹے دکھائی دیتے ہیں۔ آج ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ منظرنامہ روایتی سے کچھ مختلف ہے۔
جب 2025 ء کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ امریکی صدارت کا منصب سنبھالا تو دنیا کو ایک بار پھر امریکہ کی جارح مزاج اور واضح ترجیحات والی خارجہ پالیسی ملی۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے ہی خطاب میں افغانستان سے بگرام ایئر بیس واپس لینے اور وہاں چھوڑا گیا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان واپس لانے کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ اعلان تھا مگر اس کے پیچھے چھپی حکمت عملی نے خطے کے ماہرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔بگرام کی واپسی کا مطلب صرف افغانستان میں موجودگی نہیں بلکہ ایک وسیع تر پلان کا عندیہ تھا۔ایسا پلان جس میں امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، چین اور روس جیسی طاقتوں کو قریب سے مانیٹر اور ممکنہ حد تک قابو میں رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ایک بار پھر مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے کچھ ہی دن بعد امریکہ کا ایک اعلیٰ سطحی انویسٹمنٹ وفد پاکستان پہنچا۔ اس وفد کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے منیجر اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ نے کی۔ دورے کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے جن میں توانائی، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے شعبے شامل تھے۔یہ دورہ محض ایک سرمایہ کاری مشن نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی حکمت عملی کا ایک گہرا تناظر موجود تھا۔ابھی حال ہی میں امریکی کانگریس کے ایک تین رکنی وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس وفد میں نمایاں نام جوناتھن جیکسن، جیک برگ مین اور ٹام سوازی کے ہیں۔ ٹام سوازی امریکہ کی آرمڈ فورسز ملٹری یونٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جس سے ان کی عسکری بصیرت اور اسٹرٹیجک سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض رسمی سفارتی دورہ نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک مشن ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اس دورے کا مقصد معاشی تعاون، تجارتی مواقع، دفاعی اور عسکری تعلقات، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں گفتگو کرنا ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہمیشہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے۔ ایک طرف افغانستان، دوسری طرف ایران، تیسری طرف چین اور شمال میں روس۔ایسے میں پاکستان کی سرزمین امریکہ کے لیے ایک خواب کی تعبیر بن سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اس خطے میں دوبارہ کسی قسم کی فوجی موجودگی قائم کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ پاکستان نے ماضی میں ’’ڈو مور‘‘ کے دبائو کا سامنا بھی کیا ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک واضح اور متوازن خارجہ پالیسی مرتب کرے جو قومی خودمختاری، علاقائی امن، اور اقتصادی استحکام کی ضمانت دے۔پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ افغانستان، امریکہ، چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتا ہے۔ امریکہ کی قربت سے اقتصادی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ چین ، ایران اور روس کی ناراضگی مول لینا ممکنہ طور پر مہنگا سودا بھی بن سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے حالیہ دورے، سرمایہ کاری وفود کی آمد، اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے واضح ہے کہ پاکستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مگر اب پاکستان وہ نہیں جو پہلے تھا۔ اگر پاکستان نے دانشمندی، تدبر اور خودداری کا مظاہرہ کیا تو یہ وقت پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا، سنہرا باب بن سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ اگرچہ اتار چڑھائو سے بھرپور رہی ہے مگر ہر موڑ پر یہ تعلقات عالمی سیاست کی دھڑکنوں کے عین مطابق بدلتے رہے ہیں۔ کبھی یہ اتحاد جنگی حکمت عملیوں کی بنیاد پر قائم ہوا تو کبھی صرف سفارتی رسموں تک محدود رہا۔ مگر حالیہ چند ہفتوں میں جس تیزی سے پاکستان میں امریکی وفود کی آمد ہوئی ہے وہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گہرے اور باقاعدہ منصوبے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان غیر معمولی حرکات نے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کو ایک بار پھر اس بحث میں ڈال دیا ہے کہ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے پر تول رہا ہے؟
جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2025 ء کے آغاز میں دوسری مدت کے لیے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے عالمی سیاست میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے جارحانہ اور یک طرفہ رہی ہے۔
امریکی وفدکے حالیہ دورے کا شیڈول اور دائرہ کار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں صرف سفارتی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ سٹریٹیجک سطح پر تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے۔اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو پاکستان نہ صرف ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اپنی قدر و قیمت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ مگر اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو ایک بار پھر ہم عالمی طاقتوں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور امریکہ کے سرمایہ کاری ایک بار پھر پاکستان کی سکتا ہے رہا ہے رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

نواز شریف کے طبی معائنے مکمل، وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا گیا

اسد علی ملک : مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے لندن میں میڈیکل ٹیسٹ مکمل ہو ، برطانوی ڈاکٹرز نے انہیں سفر کی اجازت دے دی ۔ نواز شریف جمعرات کو لندن سے پاکستان روانہ ہوں گے اور جمعہ کو لاہور پہنچیں گے۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف نے لندن میں تین ہفتے قیام کیا جہاں ان کے مختلف طبی معائنے کیے گئے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے طبیعت بہتر قرار دیے جانے کے بعد انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس

پاکستان پہنچنے کے بعد نواز شریف اہم سیاسی ملاقاتوں کا آغاز کریں گے۔ ان کی ملاقاتیں بلوچستان کے رہنما سردار اختر مینگل، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اور پاکستان عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی سے متوقع ہیں۔



 
 
 

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
  • مشکل فیصلے اور مستقل مزاجی: وزیر خزانہ نے عالمی فورم پر معاشی حکمتِ عملی بیان کردی
  • پہلگام واقعے پر بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے اپنی پرانی خواہش پوری کررہا ہے، وزیر دفاع
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • نواز شریف کے طبی معائنے مکمل، وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا گیا
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل