کرکٹر عماد وسیم کے ساتھ تعلقات؛ نائلہ راجہ کا ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
پاکستانی کرکٹر عماد وسیم کے ساتھ مبینہ افیئر کی افواہوں پر آخر کار سوشل میڈیا انفلوئنسر نائلہ راجہ نے خاموشی توڑتے ہوئے ان قیاس آرائیوں کی دو ٹوک تردید کردی ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلی تھیں کہ عماد وسیم اور ان کی اہلیہ ثانیہ اشفاق کے درمیان ناچاقی کی وجہ عماد کا مبینہ افیئر ہے۔ کچھ صارفین نے لندن میں عماد وسیم کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہیں ایک خاتون کے ساتھ واک کرتے دیکھا جا سکتا ہے، اور دعویٰ کیا کہ یہ خاتون نائلہ راجہ ہیں۔ اس کے بعد عماد وسیم پر تنقید کی لہر دوڑ گئی، صارفین نے انہیں بے وفا قرار دیا اور حاملہ اہلیہ کے ساتھ بے وفائی کو ’شرمناک حرکت‘ کہا۔
عماد وسیم کی جانب سے ان افواہوں پر کوئی ردعمل نہیں آیا، تاہم نائلہ راجہ نے اپنے انسٹاگرام پر ایک تفصیلی وضاحتی پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ حد سے بڑھ چکا ہے اور انہیں اب بولنا پڑ رہا ہے۔
نائلہ نے وضاحت کی کہ جس ویڈیو اور اسٹوری کی بات کی جا رہی ہے، وہ انہوں نے خود اپنے انسٹاگرام پر شیئر کی تھی، اور یہ کوئی خفیہ بات نہیں تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایک سادہ سی اسٹوری کسی کی طلاق کی وجہ کیسے بن سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں عزت ہمیشہ عورت سے جوڑی جاتی ہے، جبکہ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ عورت کی اپنی بھی کوئی عزت اور وقار ہے۔
نائلہ نے اپنے پیغام میں معاشرتی رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ دوسروں کی زندگی پر بغیر کسی سیاق و سباق کے فیصلے سنانے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ خود کو اخلاقی طور پر برتر ثابت کر سکیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ یہی رویے غیرت کے نام پر قتل اور تشدد جیسے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
اپنے وضاحتی بیان میں نائلہ نے مزید کہا کہ ویڈیو جس کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ لندن میں ایک چشمے کی دکان کے باہر لی گئی تھی، اور جس شخص نے یہ ویڈیو بنائی، اس نے محض ایک زاویے سے فوکس کرکے دیگر موجود لوگوں کو نظرانداز کر دیا۔
نائلہ نے عوامی شخصیت ہونے کے ناتے تنقید کو ایک حد تک قبول کرنے کی بات ضرور کی، تاہم انہوں نے اپیل کی کہ انہیں ان معاملات میں نہ گھسیٹا جائے جن سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بھائی کو اشتعال انگیز پیغامات بھیجے جا رہے ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی بہن کو ’قابو‘ کرے، جس پر انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی عورت ہیں جس نے اپنی زندگی عزت، محنت اور خودداری سے بنائی ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عماد وسیم پر کسی غیر اخلاقی تعلق کا الزام لگا ہو، اس سے قبل بھی ان کا ایک افغان لڑکی کے ساتھ تعلق زیر بحث آ چکا ہے اور دونوں کی تصاویر بھی وائرل ہوئی تھیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نائلہ راجہ نائلہ نے انہوں نے کے ساتھ کہا کہ
پڑھیں:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
آواز
ایم سرور صدیقی
وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟