عماد وسیم کی مبینہ گرل فرینڈ کا ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے معروف آل راؤنڈر عماد وسیم ان دنوں کرکٹ سے زیادہ اپنی نجی زندگی کی وجہ سے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں ان کی اہلیہ ثانیہ اشفاق نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پوسٹ شیئر کی، جس میں انہوں نے اپنے نوزائیدہ بچے کی تصویر کے ساتھ لکھا، ”میں نے پچھلے 9 ماہ یہ سب اکیلے برداشت کیا ہے۔“
یہ پیغام وائرل ہوتے ہی کئی مداحوں کو اداس کر گیااور جلد ہی انٹرنیٹ پر قیاس آرائیوں کا طوفان برپا ہو گیا کہ عماد وسیم کی ازدواجی زندگی میں دراڑ آ چکی ہے۔
صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب عماد وسیم کی ایک ویڈیو اور تصویر برطانیہ میں ایک خاتون کے ساتھ گردش کرنے لگی، جس میں دونوں کو ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔
صارفین نے جلد ہی اندازہ لگا لیا کہ یہ تصویرنائلہ راجہ کی ہے جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور ایک پاکستانی انفلوئنسر ہیں۔
کئی دنوں کی خاموشی کے بعد نائلہ راجہ نے آخرکار انسٹاگرام پر ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے اپنی خاموشی توڑ دی۔ انہوں نے عماد وسیم سے کسی قسم کے تعلق کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا، ”میں عماد، ان کی بیوی اور ان کے خاندان کا احترام کرتی ہوں۔ اگر ان کے درمیان کوئی مسئلہ ہے تو میں اس کی وجہ ہرگز نہیں ہوں۔“
نائلہ کا کہنا تھا کہ انہیں خواتین کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف نفرت انگیز تبصرے کیے گئے، حالانکہ وہ خود اس معاملے میں کسی طور شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ”یہ صرف دو سیکنڈ کی ایک ویڈیو تھی جس میں میں کچھ غلط نہیں تھا، لیکن اب مجھے کسی مرد سے بات کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا۔“
نائلہ راجہ نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اپنی شہرت کی بھاری قیمت چکا رہی ہیں۔
”میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، لیکن میری ذات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے، اس نے میری نجی زندگی کو متاثر کیا ہے۔“
انہوں نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو یا تصویر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کے باعث ان کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کا ردعمل ملا جلا رہا۔ کچھ افراد نے نائلہ راجہ کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، جب کہ دیگر نے اس معاملے پر مزید سوالات اٹھائے۔
مداح اب عماد وسیم اور ثانیہ اشفاق کی جانب سے کسی واضح مؤقف کے منتظر ہیں تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔
Post Views: 22.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نائلہ راجہ
پڑھیں:
بلوچستان واقعہ، غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون کی والدہ کا متنازع بیان، مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ
کوئٹہ(نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں پیش آنے والا غیرت کے نام پر قتل کا افسوسناک واقعہ اس وقت سوشل میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قومی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ڈیگاری غیرت قتل کیس نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا آج کے دور میں بھی رسم و رواج انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں؟
واقعے کی تفصیلات ، ایک المناک کہانی
یہ افسوسناک واقعہ عید الاضحیٰ سے تین روز قبل پیش آیا۔
بانو بی بی اور احسان اللہ کو مبینہ طور پر ایک مقامی قبائلی جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پندرہ افراد تین گاڑیوں میں مقتولین کو ایک ویرانے میں لے گئے۔
واردات کے دوران فائرنگ کی گئی اور ویڈیو بھی بنائی گئی، جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
مقتولہ کی ماں کا متنازع بیان
مزید حیرت انگیز پہلو تب سامنے آیا جب مقتولہ بانو بی بی کی والدہ نے ویڈیو بیان میں کہا:
“یہ قتل بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا اور یہ سزا تھی۔”
ان کے مطابق بانو کے مبینہ تعلقات ایک لڑکے سے تھے، جس کی ٹک ٹاک ویڈیوز نے گھر والوں کو مشتعل کر دیا تھا۔
انہوں نے سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ بیان سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے، جہاں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ماں کو بیٹی کی جان سے زیادہ رسم و رواج عزیز ہو گئے؟
سردار شیر باز کا مؤقف: ’میری سربراہی میں کوئی جرگہ نہیں ہوا‘
سردار شیر باز ساتکزئی، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے جرگے کی صدارت کی، نے بی بی سی اردو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی:
“میری سربراہی میں کوئی جرگہ منعقد نہیں ہوا۔”
“لوگوں نے گاؤں کی سطح پر خود ہی فیصلہ کیا۔”
یہ تضاد کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید قانون سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس کی کارروائی اور قانونی پیشرفت
پولیس نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ شامل دفعات:
دفعہ 302 (قتل)
7-ATA (انسداد دہشت گردی ایکٹ)
اب تک کی پیشرفت:
20 افراد گرفتار
11 افراد، جن میں سردار بھی شامل ہیں، ریمانڈ پر ہیں
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
بانو کے قتل پر انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ:
ملزمان کو سخت سزا دی جائے
غیرت کے نام پر قتل کو رسم و رواج سے جوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے
متاثرہ خاندان کو تحفظ اور انصاف فراہم کیا جائے
غیرت کے نام پر قتل: ایک قومی المیہ
پاکستان میں ہر سال درجنوں لڑکیاں اور خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ ان کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں:
شادی سے انکار
تعلقات کے شبہات
ذاتی دشمنیاں
یہ جرائم اکثر جرگوں یا پنچایتوں کے فیصلوں کی آڑ میں کیے جاتے ہیں، جن کی نہ قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی انسانی بنیادوں پر جواز۔
ہماری ذمہ داری ایک اجتماعی سوچ کی ضرورت
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں:
قانون کو بالا دستی دیں، نہ کہ قبائلی فیصلوں کو
خواتین کی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں
مذہب اور ثقافت کے نام پر ظلم کو جائز نہ ٹھہرائیں
ڈیگاری کیس ایک امتحان ہے – ریاست خاموش نہ رہے
ڈیگاری غیرت قتل کیس صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمارے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آواز نہ اٹھائی تو نہ جانے کتنی “بانو بیبیاں” رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔