پاک افغان مذاکرات اور امن کی گارنٹی (آخری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
سب کی نظریں استنبول پر لگی ہوئی تھیں کہ اگر افغان طالبان صدقِ دل سے دہشت گردوں سے کنارہ کشی کا عہد کرتے ہیں، تب اس خطے میں امن اور استحکام نصیب ہوگا اور عوام کی زندگیاں خوشحالی کے نور سے منوّر ہوں گی۔ ہم خود مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں مگر خبریں زیادہ حوصلہ افزاء نہیں مل رہیں۔
پاکستان کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرنے اور ان سے ہر قسم کا تعلّق ختم کرنے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کیے جائیں جن کی تصدیق نظر آئے، ورنہ دہشت گردی جاری رہے گی اور پھر جب بھی اُدھر سے آ نے والے عناصر پاکستان کے اندر کوئی کارروائی کریں گے تو پاکستان، افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے کا حق استعمال کرے گا، یہ موقف درست، منصفانہ اور عالمی قوانین کے مطابق ہے۔ افغانی وفد نے کچھ مہلت مانگی ہے تاکہ وہ پاکستان کے مطالبات پر غور کرسکیں۔ اگر وہ مخلص اور نیک نیّت ہوتے تو وقت لینے یا مہلت مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
چند روز پہلے ایک جیّد اور باعمل عالمِ دین سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے بڑی چشم کشا باتیں کیں جو قارئین سے شیئر کرنا ضروری ہے۔ فرمانے لگے ’’اگر ان طالبان کے دلوں میں اﷲ کا ڈر ہوتا یا رسول کریمؐ سے محبّت ہوتی تو یہ لوگوں کو ایک حرام عمل خودکشی (یعنی خودکش حملوں) پر کبھی نہ لگاتے۔
اگر انھیں اسلام سے عقیدت ہوتی تو وہ مظلومینِ غزہ اور فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ گرانے والے اسرائیل کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہار کرتے مگر کیا انھوں نے کبھی غزہ کی آزادی کے لیے وہاں جاکر جہاد کرنے کی بات کی ہے یا کبھی کسی اسرائیلی فوجی پر حملہ کیا ہے؟ بالکل نہیں۔ روس نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو لاکھوں بے گناہ افغانیوں کو قتل کردیا تھا ، مگر کیا طالبان یا ٹی ٹی پی نے کبھی روسی فوجیوں پر حملے کیے ہیں؟ بالکل نہیں۔ 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، مگر بعد میں دوحہ میں اسی امریکا سے معاہدہ کرلیا۔ بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں۔ ہندوستان میں آئے دن مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ ہر روز وہاں مساجد شہید کردی جاتی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر بنادی گئی ہے مگر کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ طالبان نے کبھی بے گناہ مسلمانوں کا قتل کرنے والے بھارتی فوجیوں پر حملے کیے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم یا اسرائیلی فوج کر رہی ہے یا بھارتی فوج۔ اگر طالبان یا ٹی ٹی پی کو اسلام اور مسلمانوں سے محبّت ہوتی تو وہ ان کے خلاف حملے کرتے مگر کیا کبھی اسرائیلی یا بھارتی فوجی، افغانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اگر وہ حملے کرتے ہیں تو برادر اسلامی ملک کے خلاف۔ اگر وہ خودکش حملوں کے ذریعے جانیں لیتے ہیں تو اسلامی ملک پاکستان کی حفاظت پر مامور ان محافظوں کی، جو اپنے مورچوں پر پانچ وقت اپنے خالق کے آگے سر جھکاتے ہیں، جو تہجّد گذار ہیں اور ہر روز قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اسلام کی محبّت میں ایسا کررہے ہیں؟ بالکل نہیں۔ وہ صرف پیسوں کے لیے کرائے کے قاتل بن گئے ہیں‘‘۔
چند روز پہلے چائے پر کچھ دوست اکٹھے ہوئے، اُن میں ایک سابق سروس چیف بھی تھے۔ انھوں نے افغانستان کے احسان فراموش حکمرانوں کے معاندانہ طرزِ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو بھارت اس سال مئی کی شکست سے بری طرح تلملا رہا ہے۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور اپنی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ بھارت کی عسکری قیادت کو معلوم ہے کہ دوبارہ حملے کی cost بہت زیادہ ہوگی۔ ایسی صورت میں انھیں شاید پہلے سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے، اس لیے وہ براہِ راست، خود حملہ کرنے کے بجائے بالواسطہ طور پر پاکستان پر حملے کروارہے ہیں اور اس پر بے تحاشا پیسہ invest کررہے ہیں۔ انھیں پاکستان کی سیکیوریٹی فورسز پر حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کی صورت میں کرائے کے دہشت گرد میّسر آگئے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسلام کا نظام نافذ کرنے کے نام پر تحریک شروع کرنے والے اب اسلام کے بدترین دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ مئی سے پہلے کمزور معیشت اور عدمِ استحکام کے باعث پاکستان کا profile بہت نیچے تھا مگر مئی کی جنگ کے بعد پاکستان کا نام اور مقام غیر معمولی طور پر بلند ہوا ہے، اور اس کی اہمیّت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس چیز کو بھی ہمارے دشمنوں سمیت کچھ عالمی طاقتیں ہضم نہیں کرپا رہیں۔ لہٰذا پاکستان کے بد خواہ اکٹھے ہوکر اسے غیر مستحکم کر نے کی کوششوں اور سازشوں میں مصروف ہیں اور اس کے لیے وہ دہشت گردی کی کاروائیوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ خفیہ طور پر ان کاروائیوں کو ہر قسم کی امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔
مجھے خود اپنا وہ دور یاد آتا ہے جب میں کے پی کے میں تین ڈویژنوں میں تعیّنات رہا تھا۔ صوبے کے قبائلی علاقوں میں 2004میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ میں چونکہ پنجاب سے گیا تھا اور یہاں 2005-06میں یہی تاثر تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن، امریکا کے کہنے پر کیا جارہا ہے، مگر وہاں جاکر جب اصل حقائق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہماری سیکیوریٹی فورسز امریکا کے لیے نہیں بلکہ دفاعِ وطن کے لیے لڑرہی ہیں اور قربانیاں دے رہی ہیں، جب کہ عسکریت پسندوں کی کاروائیاں اسلام کے لیے ہرگز نہیں ہیں، ان میں بہت سے لوگ وہ ہیں جو مختلف جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے، وہ فرار ہوکر اُن لوگوں سے جا ملے۔
اس کے علاوہ غربت اور بے روزگاری کا شکار بہت سے نوجوان بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ انھیں پہلے تو گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا مگر عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ملنے سے ایک دم ڈالروں میں تنخواہ ملنے لگی، اسلحہ بھی مل گیا جس سے علاقے کے لوگ بھی ڈرنے لگے۔ لہٰذا وہاں کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے یہ ایک دلکش کیرئیر تھا۔ مجھے اس وقت پنجاب کے لوگ عسکریت پسندوں کے بارے میں پوچھتے تو میں بتاتا تھا کہ وہ جہالت اور درندگی کا ملاپ ہے اور اس میں religiously motivated لوگوں کی تعداد دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ میں کئی واقعات بتاتا تھا کہ کسی علاقے میں پولیس نے منشیات فروشوں کی گرفتاری کے لیے ریڈ کیا تو ملزم کہیں روپوش ہوگئے، چند روز بعد پتا چلا کہ وہ منشیات فروش اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل گئے ہیں اور مقامی لوگوں سے زبردستی بھتّہ لے رہے ہیں۔
2007میں انھوں نے ٹانک سٹی تھانے کے ایس ایچ او کو شہید کردیا جس پر شہید انسپکٹر کے محافظوں نے طالبان کمانڈر برکی کو مار ڈالا۔ اس کے دو دن بعد انھوں نے ٹانک سٹی پر بہت بڑا حملہ کیا، جس میں سرکاری عمارتوں اور بینکوں کو تباہ کر ڈالا، اُس وقت ان کا سپریم کمانڈر بیت اللہ محسود تھا۔ میں اُس وقت اعلیٰ ذرایع سے پوچھتا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بیت اللہ کے ٹھکانے کا پتہ کرنا کون سا مشکل کام ہے، اسے کیوں ہِٹ نہیں کیا جاتا تو کچھ ذرایع اعتماد میں لے کر بتاتے تھے کہ بیت اللہ محسود کو ہِٹ کرنے سے امریکا نے روک رکھا ہے کیونکہ وہ امریکا کا قابلِ اعتماد شخص ہے۔ میں یہ سن کر حیران اور پریشان ہوگیا تھا کہ بظاہر یہ امریکا کے خلاف ’’جہاد‘‘ کررہے ہیں مگر اندر سے ان کے کئی اہم لوگ امریکا کے پے رول پر ہیں، اور اس کے کہنے پر کاروائیاں بھی کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی اس بات میںخاصا وزن ہے کہ افغانی طالبان پیسے کی کشش کے باعث بھارت کی گود میں جا بیٹھے ہیں مگر ہمارا دوست چین انھیں پیسہ بھی زیادہ دے سکتا ہے اور افغانستان کی تعمیر وترقی کے لیے بھی زیادہ موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اِس خطے کے امن اور استحکام کے لیے چین سے زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی درخواست کرے۔ امریکا ہمیشہ ناقابلِ اعتبار ثابت ہوا ہے، اس لیے ہمیں امریکا کے ساتھ ایسی ’’محبّت‘‘ استوار کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے چین جیسے قابلِ اعتبار اور مخلص دوست کے ماتھے پر بل پڑیں۔
لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ افغانوں کی دہشت گردی ہو یا ’’سندور ٹو‘‘ کی تیّاری امن کی گارنٹی کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا۔ امن کی گارنٹی ہماری اپنی طاقت اور تیّاری ہے۔ عسکری طاقت اور تیاّری کے علاوہ جنگ میں فیصلہ کن کامیابی کے حصول کے لیے متعلقہ علاقے یا صوبے کے عوام کی حمایت اور تعاون بھی بے حد ضروری ہے۔ اربابِ اختیار کو اس طرف بھی توجّہ دینا ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا کے کرتے ہیں انھوں نے یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کے ساتھ کرنے کے پر حملے نے والے ہیں اور مگر کیا نے کبھی کے لیے اور اس تھا کہ
پڑھیں:
استنبول مذاکرات کا تیسرا دور: افغان طالبان کی ٹی ٹی پی معاملے پر ٹال مٹول جاری، ثالث معاہدہ یقینی بنانے کے لیے کوشاں
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تازہ ترین مذاکرات بھی تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور فریقین تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مستقبل پر متفق نہیں ہو سکے۔
استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کی براہِ راست کوریج کے لیے وہاں موجود پاکستانی صحافی انس ملک کے مطابق افغان طالبان ابھی تک ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور ثالث کوشش کررہے ہیں کہ دونوں فریقین کسی معاہدے پر رضا مند ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول: پاک افغان وفود کے درمیان جواب الجواب کے بعد ایک بار پھر مذاکرات شروع
انس ملک نے وی نیوز کے پروگرام ’صحافت اور سیاست‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں پاکستان نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ دہشتگرد گروہوں کے خلاف عملی کارروائی کے بغیر کسی بھی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا 7 رکنی وفد، جس میں سینیئر انٹیلیجنس، سیکیورٹی اور بیوروکریسی کے نمائندے شامل تھے، 25 اکتوبر کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوا۔
ان کے مطابق پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران ایک جامع پروپوزل پیش کیا، جس میں زور اس بات پر دیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
’پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران دوحہ معاہدے کا حوالہ دیا، جس کے تحت افغان طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دہشتگرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ اسی وعدے پر عملدرآمد موجودہ مذاکرات کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات میں مختلف تجاویز سامنے آئیں، جن میں ٹی ٹی پی کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے یا پاکستانی مہاجرین کو افغانستان میں بسانے کی تجویز شامل تھی، تاہم پاکستان نے ان تجاویز کو سختی سے مسترد کردیا۔
انس ملک کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان طالبان کی جانب سے بعض بیانات سے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی، خاص طور پر جب انہوں نے ’ایریٹنٹ پاکستانی ریفیوجیز‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
’پاکستان نے واضح کیاکہ وہ دہشتگرد گروہوں سے براہِ راست بات چیت نہیں کرے گا بلکہ صرف افغان حکومت سے ترک اور قطری ثالثوں کے ذریعے رابطہ رکھے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان نے رات گئے اپنا کاؤنٹر پروپوزل پیش کیا، جسے پاکستانی وفد نے فوری طور پر زیرِ غور لیا۔ ابتدائی دو دن کے دوران مذاکرات قریباً 32 گھنٹے تک جاری رہے۔ اس دوران پاکستانی وفد نے دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کے ٹھکانوں سے متعلق انٹیلیجنس کوآرڈینیٹس بھی فراہم کیے، اور ثالثوں سے درخواست کی کہ وہ سیٹلائٹ کے ذریعے ان معلومات کی تصدیق کریں۔
ایک موقع پر جب میڈیا میں یہ خبر سامنے آئی کہ دہشتگردوں کی ’کنسلٹیشن میٹنگ‘ کو روک دیا گیا ہے، تو پاکستانی وفد نے یہ معاملہ ثالثوں کے سامنے اٹھایا، جس پر ماحول مزید کشیدہ ہو گیا اور رات ایک بجے مذاکرات مؤخر کردیے گئے۔
انس ملک کے مطابق تیسرے راؤنڈ میں افغان طالبان کی جانب سے نسبتاً لچک دیکھی گئی اور وہ کسی فریم ورک آف ایگریمنٹ پر بات چیت کے لیے آمادہ نظر آئے۔ تاہم پاکستان کا مؤقف برقرار ہے کہ جب تک دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، کسی بھی معاہدے کی کوئی معنویت نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ممکنہ طور پر فریقین کسی محدود نوعیت کے فریم ورک پر متفق ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ایک مشترکہ بارڈر ورکنگ میکنزم، جس کے تحت پاکستان، ترکیہ اور قطر معلومات کا تبادلہ کریں گے۔
ریاض میں وزیراعظم شہباز شریف کے مجوزہ دورے سے متعلق بات کرتے ہوئے انس ملک نے بتایا کہ وزیراعظم فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کریں گے، جہاں ان کی چین، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وزیراعظم کا دورہ 27 سے 29 اکتوبر تک شیڈول ہے، اور وہ 28 اکتوبر کو کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ممکنہ طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کئی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط ہوسکتے ہیں، اگرچہ اس بارے میں حتمی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: میرا خیال ہے میں پاک افغان مسئلہ کے حل کے لیے کچھ کر سکتا ہوں، صدر ٹرمپ
انس ملک کے مطابق اس دورے کا ایک اہم مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں سلامتی کی صورتحال بھی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان طالبان پاکستان افغانستان مذاکرات پاکستانی مؤقف ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی وی نیوز