استنبول مذاکرات کا چوتھا دور جاری، افغان وفد فیصلہ کرنے میں گومگو کی کیفیت کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات کا چوتھا دورہ جاری ہے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے تین سیشنز میں مجموعی طور پر 48 گھنٹے طویل گفت و شنید مکمل ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان کشیدگی: پاکستانی وفد کے افغان طالبان سے دوحہ میں مذاکرات آج ہوں گے، دفتر خارجہ
ذرائع کے مطابق کم از کم تین مواقع پر معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے، مگر ہر بار افغان وفد نے آخری لمحے پر پسپائی اختیار کر لی۔
مذاکرات میں شریک ذرائع نے بتایا کہ افغان وفد اندرونی دھڑوں، قندھار، کابل اور حقانی گروپ کی باہمی چپقلش کا شکار ہے، جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔
مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ثالثوں کے مطابق صورتحال اب ان پر بھی واضح ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور ترکیہ نے تمام تر مشکلات کے باوجود مذاکراتی عمل کو ایک اور موقع دینے پر اتفاق کیا ہے تاکہ معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکیں۔
مذاکرات کے پہلے ادوار میں کب کیا ہوا؟پاک افغان مذاکرات کا آغاز رواں ماہ قطر میں 18 اکتوبر کو ہوا تھا، جہاں دونوں ممالک نے سرحدی جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
بعدازاں 25 اکتوبر کو استنبول میں دوسرا دور ہوا، جس میں پاکستان نے افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول مذاکرات میں پیشرفت نہ ہو سکی، دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں، پاکستان نے افغان طالبان پر واضح کردیا
افغان وفد نے ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اگرچہ مذاکرات میں بارہا تعطل آیا، لیکن فریقین نے رابطہ برقرار رکھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews استنبول مذاکرات پاک افغان تعلقات ثالث ممالک گفت و شنید مذاکراتی عمل وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استنبول مذاکرات پاک افغان تعلقات ثالث ممالک گفت و شنید مذاکراتی عمل وی نیوز افغان وفد کے مطابق
پڑھیں:
استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں تعطل کی وجوہات کی بنیں؟
استنبول میں ہونے والے اپک افغان مذاکرات کی ناکامی کا تعلق پاکستان کی سفارت کاری سے نہیں بلکہ افغان حکومت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی جنگ سے تھا۔
ذرائع کے مطابق آغاز ہی سے افغان وفد 3 مختلف دھڑوں قندھار، کابل اور خوست میں تقسیم نظر آیا، اور ہر دھڑا اپنے الگ رہنماؤں سے ہدایات لے رہا تھا۔ جب بات ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے اور تحریری ضمانتوں پر پہنچی تو قندھار گروپ نے خاموش رضامندی ظاہر کی، مگر کابل گروپ نے اچانک مطالبہ کیا کہ جب تک امریکا بطور ضامن شامل نہیں ہوتا، کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات، میری خوش فہمی نہ ہو لیکن مجھےان میں امن نظر آیا تھا، خواجہ آصف
یہ شرط پہلے کبھی زیر غور نہیں آئی تھی۔ اس کا مقصد سیکیورٹی نہیں بلکہ واشنگٹن کے ذریعے مالی معاونت کی راہ کھولنا تھا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان وفد میں بد نظمی واضح تھی۔ ایک رکن باہر بیٹھے ہینڈلر سے پرچیاں لے رہا تھا، دوسرا بار بار فون پر کابل سے ہدایات لے رہا تھا۔ ہر کال کے بعد طے شدہ نکات دوبارہ کھولے گئے اور مذاکرات میں تاخیر کی گئی تاکہ بھارت سمیت دیگر بیرونی قوتوں کو شامل کیا جا سکے۔
امریکی ضامن کی شرط دراصل مالی بحالی کا حربہ تھی، تاکہ اگر امریکا شامل ہو تو طالبان ‘تعاون’ کا تاثر دے سکیں، امداد کے دروازے دوبارہ کھلیں اور ڈالر کی آمد سے داخلی دباؤ کم ہو۔ اس طرح طالبان نے ٹی ٹی پی کے معاملے کو ایک سیاسی و مالی ہتھیار بنا لیا۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں جاری، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف
ذرائع کے مطابق ترک اور قطری ثالثوں نے نجی طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان کے مطالبات جائز ہیں، مسئلہ افغان فریق کے اندرونی عدم استحکام کا ہے، اور کابل دھڑا اس فائل کو واشنگٹن کی جانب گھسیٹ کر مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس طرح استنبول مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ افغان حکومت اندرونی طور پر منقسم ہے، کابل دھڑا ڈالر کے بہاؤ کی بحالی چاہتا ہے، اور طالبان ٹی ٹی پی کو سودے بازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک کابل اپنی داخلی کشمکش ختم نہیں کرتا اور دہشت گردی کو سیاسی کرنسی کے طور پر استعمال کرنا نہیں چھوڑتا، امن ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں