کراچی میں منعقد ہونے والے 35ویں نیشنل گیمز کے اخراجات منظور شدہ بجٹ 52 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے انعقاد میں تاخیر اور افتتاحی و اختتامی تقریبات کے رنگا رنگ انتظامات کے باعث اخراجات میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے۔ ان اضافی اخراجات کے جائزے اور بجٹ کی منظوری کے لیے بدھ کے روز ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
اس حوالے سے سندھ کے وزیر کھیل سردار محمد خان بخش مہر کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد نیشنل گیمز کو شایانِ شان انداز میں منعقد کرنا ہے تاکہ کھلاڑیوں کو بہترین ماحول فراہم کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گیمز کے کامیاب انعقاد کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے، اور اُمید ہے کہ صوبے کو 18 سال بعد ملی اس میزبانی کے موقع پر اضافی بجٹ کی بھی منظوری مل جائے گی۔
یاد رہے کہ 35ویں نیشنل گیمز کا انعقاد ابتدائی طور پر رواں سال مئی میں ہونا تھا۔ تاہم، شہر میں شدید گرمی کے باعث، تمام تر تیاریوں اور ٹیموں کی تشکیل کے باوجود گیمز ملتوی کر دیے گئے تھے، جس سے اخراجات میں مزید اضافہ ہوا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نیشنل گیمز

پڑھیں:

رفتارِ معیشت: آئی ایم ایف معاہدہ، امید یا آزمائش؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251022-03-4

 

محمد مطاہر خان

دنیا کی بدلتی ہوئی معاشی اور سیاسی سمتوں کے بیچ پاکستان کے لیے ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن مرحلہ سامنے آیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت دوسرے جائزہ اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) کے تحت پہلے جائزہ پر اسٹاف سطح کا معاہدہ (ایس ایل اے) ہوگیا ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی نئی قسط کی راہ ہموار ہوگئی۔ یہ معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد فنڈ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مالیاتی اور زری پالیسیوں کو مزید سخت کرے اور اجناس کی منڈیوں میں حکومتی مداخلت کو کم کرے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے میکرو اکنامک اشاریوں میں ہونے والی بہتری کا عکاس اور حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہر ہے۔ منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت ایک ارب ڈالر اور آر ایس ایف کے تحت 200 ملین ڈالر تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس طرح دونوں سہولتوں کے تحت مجموعی ادائیگیاں 3.3 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ واشنگٹن سے جاری رپورٹ میں پاکستان کو بنیادی سرپلس 1.6 فی صد برقرار رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ (GCD) کا ذکر نہیں البتہ یہ کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد معاملے پر گفتگو پبلک کیے جانے کا امکان ہے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد، عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مالیاتی اور زری پالیسیوں کو مزید سخت کرے اور اجناس کی منڈیوں میں حکومتی مداخلت کو کم کرے۔

پاکستان کی معیشت کو حالیہ سیلابوں کے باعث 822 ارب روپے کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن سے ملک کے 70 اضلاع میں 65 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ منصوبہ بندی اور اقتصادی امور ڈویژن کی سرکاری دستاویزات کے مطابق، زراعت اور انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی تاریخ کے شدید ترین مون سون سیلابوں میں سے ایک کا سامنا ہے، جس سے انفرا اسٹرکچر، روزگار، اور بنیادی خدمات کو تباہ کن نقصان پہنچا۔ ابتدائی تخمینوں میں نقصان 744 ارب روپے بتایا گیا تھا، جو اب بڑھ کر 822 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سیلابوں سے 229,763 مکانات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 59,258 مکمل طور پر تباہ اور 170,505 جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ آفت کے نتیجے میں 1,037 افراد جاں بحق اور 1,067 زخمی ہوئے۔

مزید برآں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے مطابق حکومت نجکاری کے عمل کو تیز کرنے اور مالی استحکام اور کارکردگی میں مزید بہتری لانے کے لیے پرعزم ہے۔ وزارت خزانہ سے جاری بیان کے مطابق وزیر ِ خزانہ نے واشنگٹن ڈی سی میں فِچ ریٹنگز کے حکام سے ملاقات کی اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو B- کے ساتھ مستحکم آؤٹ لک دینے پر فِچ ریٹنگز کا شکریہ ادا کیا۔ دریں اثنا واشنگٹن ڈی سی میں فچ ریٹنگز کے عہدیدار، عالمی بینک کے صدر اجے بانگا اور برطانوی وزیر سے ملاقاتیں بھی کیں اور ایک گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ تفصیلات کے مطابق فچ کے عہدیداروں سے گفتگو میں تینوں بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی درجہ بندی میں ہم آہنگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ نے فِچ ٹیم کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ طے پانے والے اسٹاف لیول معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا اور ٹیکس نظام، توانائی، نجکاری اور سرکاری اداروں میں کی جانے والی اصلاحات پر روشنی ڈالی۔ حکومت کے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے اور مالی استحکام اور کارکردگی میں مزید بہتری لانے کا عزم ظاہر کیا۔ نیز فِچ ٹیم کو چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈ کے اجرا کے عمل اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ تجارتی و ٹیرف مذاکرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ ملاقات کے آخر میں وزیر ِ خزانہ نے فِچ ٹیم کے سوالات کے جوابات دیے۔

یہ تمام حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی مالیاتی نظم و ضبط کے دائرے میں خود کو تیزی سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔ اگرچہ معاشی اصلاحات اور پالیسیوں کی سختی عوامی سطح پر وقتی مشکلات پیدا کر سکتی ہے، لیکن یہ اقدامات مالیاتی استحکام، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور بین الاقوامی ساکھ کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو نہ صرف آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی تحفظ کے دائرے کو بھی وسعت دینا ہوگی تاکہ کمزور طبقات معاشی دباؤ کا سامنا کر سکیں۔ بین الاقوامی منظرنامے میں اکتوبر 2025ء تک پاکستان کی معیشت ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑی ہے جہاں نظم، شفافیت اور استحکام ہی مستقبل کے استحکام کا ضامن بن سکتے ہیں۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • پی ایس بی کوچنگ سینٹر کراچی سندھ کے حوالے کرنے کا مطالبہ
  • 35 ویں نیشنل گیمز کا منظور شدہ بجٹ 52 کروڑ روپے سے تجاوز کرگیا
  • پنجاب میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کا نفاذ لازمی اور مزید سخت کرنے کا فیصلہ
  • وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کا نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے نہ ملنے کا فیصلہ، شرکا اور بلوچستان حکومت کا اظہارِ افسوس
  • رفتارِ معیشت: آئی ایم ایف معاہدہ، امید یا آزمائش؟
  • ٹک ٹاک نے پاکستان میں مزید ڈھائی 2 کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
  • داتا دربار توسیعی منصوبے بارے اجلاس کا انعقاد،حکام کی بریفنگ
  • ٹماٹروں کی فی کلو قیمت 600 روپے سے بھی تجاوز کر گئی، سبب کیا ہے؟
  • پاکستان انٹر نیشنل اسکول ریاض میں پاکستانی یونیورسٹی لمس نے طلبہ اور طالبات کے ساتھ تعلیمی اور تعمیری سیشن کا انعقاد کیا