بنگلہ دیش میں پاکستان کے نئے تعینات ہائی کمشنر کی مشیر برائے خوراک سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
بنگلہ دیش میں پاکستان کے نئے تعینات ہائی کمشنر عمران حیدر نے مشیر برائے خوراک و زمین علی امام مجمدر سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران مشیرِ خوراک نے پاکستانی ہائی کمشنر کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور دوطرفہ تعلقات، باہمی تعاون اور پاکستان سے چاول کی درآمد سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بھی پڑھیے: ڈھاکا: تھرڈ میڈ اِن پاکستان ایگزیبیشن کا آغاز، دوطرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا عزم
یاد رہے کہ 14 جنوری 2025 کو پاکستان سے دو لاکھ میٹرک ٹن چاول کی سرکاری سطح پر درآمد کے لیے مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے گئے تھے۔
علاقائی رابطوں پر زورمشیر علی امام مجمدر نے خطے میں تجارتی روابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عبوری حکومت کے تحت اب کراچی بندرگاہ سے کارگو جہاز براہِ راست چٹّوگرام پورٹ پہنچ رہے ہیں، جس سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ براہِ راست راستہ اپنانے سے وقت اور اخراجات دونوں میں کمی آئی ہے جو پہلے تیسرے ممالک کے ذریعے درآمدات کے باعث بڑھ جاتے تھے۔
دوطرفہ تعلقات کے استحکام پر اتفاقیہ بھی پڑھیے: ڈھاکا: برطانوی ہائی کمشنر کی امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان سے ملاقات
ہائی کمشنر عمران حیدر نے مشیرِ خوراک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں برادر ممالک عوامی فلاح اور اقتصادی ترقی کے لیے باہمی تعاون کو مزید فروغ دیں گے۔
ملاقات میں پاکستان ہائی کمیشن ڈھاکہ کے پولیٹیکل کاؤنسلر کامران ڈونگل، وزارتِ خوراک کے سیکریٹری محمد مسعود الحسن اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش ڈھاکا سفیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش ڈھاکا سفیر ہائی کمشنر بنگلہ دیش
پڑھیں:
کوئٹہ ،صوبائی مشیر ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی سے مختلف وفود کی ملاقات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251206-11-5
کوئٹہ(آئی این پی) صوبائی مشیر ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی نسیم الرحمن خان ملاخیل سے مختلف سماجی تنظیموں، ماہرینِ ماحولیات اور شہری نمائندوں پر مشتمل وفود نے ملاقات کی، جس میں صوبے کی مجموعی ماحولیاتی صورتحال، موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر صوبائی مشیر نے بتایا کہ بلوچستان اس وقت شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ کم بارشوں کے باعث متعدد اضلاع میں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جبکہ کوئٹہ میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے، جس پر حکومت نے فوری، درمیانی اور طویل مدتی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ماحول دوست پالیسی سازی کے لیے کلائمٹ چینج پالیسی 2024نافذ کر دی گئی ہے جس کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، یہ پالیسی نہ صرف موجودہ مسائل سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوگی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے پائیدار ماحول کی بنیاد بھی فراہم کرے گی۔ ملاقات کے دوران نسیم الرحمن ملاخیل نے حکومت کے حالیہ ماحولیاتی اصلاحاتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر مرحلہ وار پابندی نافذ کی جا رہی ہے، جس کا مقصد فضلے میں کمی اور ماحول کو آلودگی سے بچانا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اسپتالوں کے فضلات کے محفوظ اور جدید طریقوں سے ٹھکانے لگانے کے لیے بنائے گئے نئے انتظاماتی نظام سے بھی وفود کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے اداروں میں میڈیکل ویسٹ کو مناسب طریقے سے تلف کرنے کے لیے انسینیریشن یونٹس کو فعال بنایا جا رہا ہے تاکہ ماحول اور انسانی صحت دونوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ صوبائی مشیر نے یہ بھی بتایا کہ شہری علاقوں میں صفائی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں فضلے کی علیحدگی، ری سائیکلنگ اور ڈمپنگ سائٹس کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ شجرکاری مہمات جاری ہیں اور موجود پودوں و درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نسیم الرحمن ملاخیل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت تنہا موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتی اور اس جدوجہد میں سماجی تنظیموں اور شہریوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ روزمرہ زندگی میں ماحول دوست عادات اپنائیں، جیسے پلاسٹک بیگز کا استعمال کم کرنا، پانی کے ضیاع سے بچنا، شجرکاری میں حصہ لینا اور دھوئیں و زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور عوام مل کر قدم اٹھائیں تو بلوچستان کو ماحولیاتی بگاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے، اس لیے مستقبل کی حفاظت کے لیے مشترکہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔