data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251017-08-14
راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق رکن اسمبلی سمابیہ طاہر سمیت دیگر کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کی حمایت کرنے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔راولپنڈی اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ 2 کیس کی سماعت کے دوران جیل کے قریب پی ٹی آئی کی عوامی اسمبلی منعقد کرنے اور اْس میں ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن کی مذمت کرنے پر سمابیہ طاہر سمیت دیگر کے خلاف پولیس افسر کی مدعیت میں راولپنڈی کے تھانہ صدر بیرونی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔مقدمہ پولیس کے سب انسپکٹر محمد عمران کی مدعیت میں درج کیا گیا، ایف آئی آر کے متن میں لکھا گیا ہے کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے خصوصی ڈیوٹی پر تھے، اڈیالہ روڈ پر واقع نجی فیکٹری کے قریب ہی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنوں نے عوامی اسمبلی کا انعقاد کیا۔ایف آئی آر کے مطابق سابق ایم پی اے سمابیہ طاہر نے تقریر کرتے ہوئے زبانی قرارداد پیش کی، جس میں 17 جون، 25 مئی، 26 نومبر اور ٹی ایل پی کے شیخوپورہ واقعات کا حوالہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور گولی چلانے سے متعلق سوال اٹھایا گیا۔ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ خاتون سابق ایم پی اے کی تقریر کا متن انتہاہی حساس اور سنگین نوعیت کا ہے، ایسا کرکے سیمابیہ طاہر نے تعصب کو فروغ دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و جوانوں کی ہتک عزت کے ساتھ انکی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد سمیابیہ طاہر سمیت دیگر کی گرفتاری کیلیے چھاپا مار کارروائیاں شروع کردی ہیں۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

تقریر یا تابہ آسمان مکھن کا درخت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251018-03-6

 

باباالف

 

 

نہ جانے کتنے عرصے بعد مسکرانے بلکہ قہقہہ لگانے کا موقع ملا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کمال کردیا۔ تقریر تھی یا تابہ آسمان مکھن کا درخت۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ جنگ بندی کے جشن کی تقریب میں انہوں نے اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ کو جس طرح مکھن لگایا ہے وہ انگریزوں کے کتوں کو کوٹ پہنانے سے بھی آگے کی بات ہے۔ ان کی آنکھیں اس طرح بند تھیں جیسے صدر ٹرمپ کے جوتوں کی چمک سے چندھیا رہی ہوں۔ صدر ٹرمپ کا منہ بھی کھلے کا کھلارہ گیا۔ ہزارہا بلکہ لاکھوں ڈالرز لٹانے کے باوجود بھی کسی عورت حتیٰ کہ کسی فاحشہ عورت نے بھی ان کی ان الفاظ میں تعریف نہیں کی ہوگی۔

کامیاب انسان کی ایک خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں مکھن اور دوسرے ہاتھ میں چونا ہو۔ جہاں مکھن لگانے کا موقع ہو وہاں مکھن اور جہاں چونے لگانے کا موقع ہو وہاں چونا لگا دے۔ شہباز شریف کے دونوں ہاتھوں میں مکھن ہوتا ہے۔ وہ طاقتوروں کو چونا لگانے پر یقین نہیں رکھتے۔ عمران خان اس کے برعکس کرتے ہیں۔ جہاں مکھن لگانے کا موقع ہو وہاں چونا لگا دیتے ہیں اور جہاں چونا لگانے کا موقع ہو وہاں مکھن لگا دیتے ہیں۔ شہباز شریف کی ایک خوبی اور بھی ہے، وہ کئی زبانیں بول سکتے ہیں لیکن کسی بھی زبان میں فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کو ’’نا‘‘ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔

اپنی تقریر میں شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو ’’مردِ امن‘‘ قرار دیا جنہوں نے مہینوں شبانہ روز کوششوں سے اس دنیا کو امن اور خوش حالی کی جگہ بنایا۔ جانے غزہ کے لاکھوں ٹن ملبے، یوکرین کی ٹھٹھرتی سردی اور افریقا کے قحط زدگان تک ان کی تقریر کی امن مہکار کی یہ آبشار پہنچی یا نہیں۔ تقریر میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو درازی عمر کی دعا بھی دی ہے۔ مغرب والے ایسی ہی خواہش اپنے کتوں کے بارے میں رکھتے ہیں لیکن کتا خواہ کیسا ہی جید ہو ایک دن اس کو مرنا ضرور ہے خواہ وہ امریکا کا صدر ہی کیوں نہ ہو۔ ایک لیڈر کی کار کے نیچے آ کر ایک کتے کا بچہ مر گیا۔ لیڈر نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ جا کر معلوم کرو کہ یہ کس کا کتے کا بچہ تھا۔ جب ڈرائیور واپس آیا تو اس کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔ لیڈر نے پوچھا کہ یہ کیا؟ ڈرائیور بولا، سر میں نے آپ کا نام بتاتے ہوئے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں اور کتے کا بچہ مر گیا ہے۔۔۔ تو لوگوں نے اگلی بات سنی ہی نہیں اور میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال دیے۔

ایک فرانسیسی کہاوت ہے ’’خوشامد اور چاپلوسی بادشاہوں کے درباروں میں داخلے کا پاسپورٹ ہے مگر عزت کی سرحد پر اس کی مدت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ صاحبو! جب خوشامد اور چاپلوسی کرلی تو عزت کہاں باقی رہی کہ اس کی مدت خاتمہ کی کوئی عمر ہو۔ ویسے جہاں پچھلی چاپلوسی کی ایکسپائری ختم ہوتی ہے چاپلوس وہاں چاپلوسی کی ایک نئی طرز ایجاد کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ وائٹ ہائوس کے لان میں شہباز شریف کو تقریر کا ایک موقع دیں پھر دیکھیں کس طرح وہ چاند کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: اے چاند تیری کمر خم کیوں نہیں ہے جب کہ تو دنیا کے عظیم ترین بادشاہ ٹرمپ کو دیکھ رہا ہے۔ یقینا صدر ٹرمپ اس موقع پر منہ چوم لیتے، شہباز کا نہیں اپنا لیکن کیا کیا جائے انسان کتنا ہی خوب صورت ہو اپنا منہ نہیں چوم سکتا۔

شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو دوباہ نوبل امن پرائزکے لیے نامزد کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی ہے میں آپ کی قیادت کو مثالی سلام پیش کرتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ آپ وہ شخص ہیں دنیا کو جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘‘۔ ان الفاظ میں صدر ٹرمپ اور شہباز شریف کے درمیان محبت کی جو حدت اور شدت نظر آتی ہے اس کے بعد محبوب کی بکواس بھی شیکسپیئر کے ڈائیلاگ کی طرح لگتی ہے۔ صدر ٹرمپ کو نہ جانے کیسی لگی ہو گی۔

بادشاہوں کے دربار میں خوشامد کرنے سے مرتبے اور عہدے کا قددراز ہوتا لیکن صدر ٹرمپ کا جس طرح کا ڈسپوزیبل مزاج ہے پتا چلانا مشکل ہے وہ کب تک اچھے رہیں اور کب برا مشہور کرنے میں لگ جائیں۔ وہ نریندر مودی جو کل تک صدر ٹرمپ کے قصیدے پڑھتے تھے، آج ان سے صدر ٹرمپ کی بات کرکے دیکھیں، آپے سے باہر ہو جا ئیں گے ’’خودکشی کرلوں گا پر اس کنجر کے ہاتھ سے نہیں مروں گا‘‘۔ صدر ٹرمپ Sorry کے لفظ کی طرح ہیں جس کا مطلب کبھی ’’بات ختم‘‘ اور کبھی ’’بندہ ختم‘‘ ہوتا ہے۔ ان کو وفاداری کا سبق سکھانا ایسا ہی ہے جیسے نانی کو آئی فون کے جدید فنکشن سمجھانا۔ صدر ٹرمپ وہ اناپرست ہیں کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو غلطی ہمیشہ غلطی کی ہوتی ہے۔

جب شہباز شریف جنوبی ایشیا اور غزہ میں لاکھوں جا نیں بچانے پر صدر ٹرمپ کو سلام عقیدت پیش کررہے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے موت کا تعلق قضائے الٰہی سے زیادہ رضائے ٹرمپ سے ہے۔ ان کی مرضی سے آتی جاتی ہے۔ یقینا کوئی دیانت دار اور باضمیر انسان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہیں اور اس عہدے کو راتب ڈالنا دیانتداری اور باضمیر ہونے سے زیادہ ضروری جانتے ہیں جو صدر ٹرمپ کی آشیر باد پر اٹکا ہے۔ ٹرمپ کو امن کا علم بردار کہنا ایسا ہی جیسے بموں کے پھٹنے سے نکلتی روشنی کو ترقی کا سورج کہنا۔

شہباز شریف کے منہ سے اتنی تعریف سن کر صدر ٹرمپ نے کہا میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ وائو، میں نے یہ توقع نہیں کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے درست کہا سچائی شرم سے ایسی نڈھال اور انسانیت ہر ہر لفظ پر پسینے سے ایسی شرابور! کس نے توقع کی ہوگی؟ لگتا تھا ہر لفظ عزت نفس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں میل دور کھڑا ہے۔ اسے سفارتی کامیابی قرار دینا اور یہ کہہ کراترانا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر روک کر شہباز شریف کو دعوت دی۔ شاید ایسا ہی ہو، شاید یہ فخر اور غرور کا مقام ہو لیکن اس سے یہ مطلب بھی تو اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اتنے سربراہان میں صدر ٹرمپ نے صرف ہم سے یہ توقع رکھی کہ ایک پاکستانی وزیراعظم ہی اپنے ضمیر کو سلا کر ایسی تقریر کرسکتا ہے کہ تذلیل اور تحقیر بھی جس سے سانس گھٹ کر مرجائے۔

آخر میں صدر ٹرمپ نے اس تماشے کو ختم کرتے ہوئے کہا۔ چلیں اب گھر چلتے ہیں۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ سب کو الوداع۔ یہ شاید اس تقریب کا سب سے سچا جملہ تھا کیونکہ صرف ان کے پاس ہی نہیں تقریب کے شرکاء میں سے کسی کے پاس بھی کچھ نہیں رہا تھا۔ نہ سچائی۔ نہ شرم۔ نہ غیرت۔ مغرب کے اس عالمی نظام میں امن صرف تقریروں میں جھلکتا ہے جب کہ قبریں زمین پر۔ یہاں امن کے دیوتا وہی ہیں جن کے نام ہر گولی اور بم پر کنندہ ہیں۔ شہباز شریف سے یہ شکوہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان سربراہ ہو کر بھی انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل کے لیے ایسے توصیفی الفاظ کیوں کہے۔ وہ امت مسلمہ کے قائد نہیں ایک سیکولر ملک کے سربراہ ہیں اور وہ معاملات کو اسلام کے تناظر میں نہیں اپنے اقتدار کی بقا اور سلامتی کے منظر نامے میں تلاش کرتے ہیں۔

بابا الف

متعلقہ مضامین

  • تقریر یا تابہ آسمان مکھن کا درخت
  • خطرناک ڈرائیونگ پرگاڑی ضبط، مقدمہ درج
  • ٹی ایل پی کی حمایت میں تقریر کرنے پر پی ٹی آئی رہنما سیمابیہ طاہر اور دیگر پر دہشت گردی کا مقدمہ درج
  • پنجاب حکومت کا عمران خان کے متنازع بیان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ
  • پاکستان اور افغانستان کی طرف سے مکمل و دیرپا جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، چین
  • چین کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کی حمایت، امن کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش
  • پاکستان اور  افغان طالبان کے درمیان عارضی جنگ بندی پر  چین کا خیر مقدم  
  • راولپنڈی: 17 سالہ نوجوان سے زیادتی کرنے والا شخص گرفتار
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا کتوں کو ہلاک کرنے پر متعلقہ حکام کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا عندیہ