Express News:
2025-12-13@15:38:50 GMT

عہدِ حاضر میں مارکسزم کی معنویت (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

’’ عصر حاضر میں مارکسزم کی معنویت، پاکستان اور تیسری دنیا کے نظریاتی مباحث ‘‘ رانا اعظم کی ایک شاندار تصنیف ہے۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی جدوجہد میں صرف کیا ہے۔ وہ بائیں بازو کے ان کارکنوں میں شامل ہیں جنھوں نے سوشلسٹ لٹریچر باریک بینی سے پڑھا اور پھر مارکسزم کے عمومی نفاذ کو اپنی زندگی کا ایک بڑا مقصد بنالیا۔ ان کی یہ کتاب 12 حصوں اور 319 صفحات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب میں نظریاتی مسائل، فلسفہ، عالمی کمیونسٹ تحریک سے لے کر بائیں بازوکی صورتحال، پارٹی بلڈنگ، ریاست کا کردار، وادئ سندھ کی تہذیب، تاریخی واقعات، نوید فکر اور بہت کچھ شامل ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر نظریاتی مباحث کی ایک کتاب ہوتی اور عملی معاملات پر ایک اور کتاب مرتب ہوتی تو مجھ جیسے ناقص العقل قاری کو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوجاتی، مگر اس پرآشوب دور میں کتاب شایع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بقول بنگالی زبان کے عظیم شاعر ٹیگور کے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی تک انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ اس طرح دانش سے بانجھ اس معاشرے میں ایسی کتاب شایع ہونے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اس معاشرے میں سوچنے والے کچھ موجود ہیں۔

صاحب کتاب کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر نیشنل عوامی پارٹی اور 70ء کے ان کے آبائی علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کی یاد تازہ ہوگئی، نیپ نے سیکولر سیاست کو تقویت دی تھی، اگر بنگلہ دیش ہمارے ساتھ رہتا تو اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی انتہا پسندی اتنی طاقتور نہ ہوتی۔ بہرحال 2025 برصغیر ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا 100واں سال ہے۔ مصنف کا بائیں بازوکی سیاست سے وابستگی کا بھی پچاسواں سال ہے۔ انھوں نے ابتداء میں یہ بات لکھ دی ہے کہ کتاب ایک سیاسی کارکن کی پاکستان سمیت تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور طبقاتی ساخت کی روشنی میں بنیادی سماجی تبدیلی، محنت کشوں کے استدلال کے عمل کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس کوشش میں مکمل طور پرکامیاب ہوگئے ہیں۔ مصنف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمیں اپنے درست افکار اور دنیا کی سچائیوں کو دہراتے رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ کا یہی اصول ہے کہ اگر پیغام کو بار بار دہرایا جائے تو رائے عامہ تبدیل ہوجاتی ہے۔

مصنف نے پہلے باب میں ’ مارکسزم اپنی عنصریت کھوچکا ہے‘ کے موضوع پر خاصی بحث کی ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل میں لکھا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کو نظریہ کی شکست قرار دیتے ہوئے واحد سپر پاور کے کھڑے کیے گئے مینارِ نور سے یہ اعلان کیا گیا۔ دنیا اب پہلے سے زیادہ پر امن اور خوشحال ہوجائے گی مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارکسزم اب بھی زیادہ Relevant ہے مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جدید دورکے تقاضوں کے مطابق اب نظریہ میں کوئی تبدیلیاں ہونی چاہئیں ناکہ مارکسزم کو کلاسیکل انداز میں ہی دیکھنا چاہیے۔ کتاب کے دوسرے باب میں مارکسزم کے بنیادی اصول جامع اور سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس طرح مارکسی کے تصور تاریخ میں مصنف نے شیکسپیئر اور مرزا غالب کا موازنہ کیا ہے۔

مارکسی نقطہ نظر سے دنیا کے دو بڑے شاعروں کے ادوارکا موازنہ ایک دلچسپ امر ہے۔ اس موازنہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مارکس نے بھی دنیا کے اس وقت کے ادب کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اس دورکے حالات کے مارکسی نقطہ نظر سے تجزیے نے نوجوانوں کو ایک وسیع ذہن کے طور پر دنیا بھر کے ادب کے مطالعے کو تقویت دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ برطانیہ میں میگنا کارٹا معاہدہ اور آئینی بادشاہت کے قیام کے بارے میں معلومات اہم ہیں مگر میگنا کارٹا معاہدہ کی تاریخ شاید درست نہیں ہے۔ مصنف نے ’’ ارتقاء اور پڑاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک اور اہم بات تحریرکی ہے، اس تحریر پر بہت زیادہ بحث و مباحثے کے دروازے کھلتے ہیں۔ سوویت یونین کے انقلاب کے بعد نئی راہیں ڈھونڈنا ایک قدرتی عمل ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ قدرتی اور طبقاتی سوال کی اس جدوجہد میں کی حیثیت ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم باب فرینکفرٹ اسکول اور نیو مارکسزم سے متعلق ہے، جس میں اہم مباحث کے بارے میں فرینکفرٹ اسکول کے دانشوروں نے گزشتہ صدی میں مارکسزم اور فلسفہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ 1960 میں طلبہ میں سیاسی شعور جاگا۔ ان طلبہ کو فرینکفرٹ اسکول کے معروف فلسفیوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں سے کچھ فلسفیوں نے ماہر نفسیات فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریے کو تسلیم کیا۔ مارکسی دانشوروں نے فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریہ پر تنقید کی ہے، فرائیڈ کا بنیادی نظریہ جنس سے متعلق ہے۔

ظاہر ہے کس مارکسی دانشور سماج میں صرف جنس کے تضاد کو ہی بنیاد نہیں سمجھتے، اگرچہ فرینکفرٹ اسکول کے دانشور جا جین ہیبر مارس کے نظریہ قدر زائد پر تنقید کی ہے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایسا معاشرہ جو بھرپور طریقہ سے ٹیکنالوجی پر ٹھہرا ہے وہاں قدر زائد محنت کش طبقے کی محنت سے وارد نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا ورود یا استخراج اس معاشرے کی انتہائی میکانیکلی اور تکنیکی جدت طرازیوں کی مرہونِ منت ہے۔ فری مارکیٹ کی بنیاد ہی بنیادی طور پر قدر زائد پر ہے۔ مصنف نے ’’متبادل کی تلاش ‘‘ کے عنوان میں امریکی بورژوا دانشور ایمانوئیل والرٹین کا حوالہ دیا ہے۔ اس دانشورکا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ سوشلسٹ اکنامی لے گی۔ اگرچہ یہ دانشور 1980کی دہائی میں یہ کہہ چکا تھا کہ وہ نہیں جانتا کون سا ورلڈ سسٹم سرمایہ داری کا متبادل ہوگا مگر سوشلسٹ اکنامی کی اصطلاح کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف نے ’’ نظریاتی قحط اور فکری مغالطے‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی کا ذکر کیا ہے۔

انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی 1950 میں مقبول پارٹی تھی۔ اس کی قیادت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ پارٹی کا فوکس دیہی علاقہ سے تھا۔ پارٹی جبری مشقت کے خلاف تھی اور زمینوں پر قبضہ کی حوصلہ افزائی کرتی تھی مگر پھر امریکی سامراج کی نگرانی میں انڈونیشیا کی سہارتو حکومت نے پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کا قتل عام کیا۔ تقریباً 30 لاکھ کے قریب کارکن قتل کیے گئے مگر اس کے ساتھ اس وقت کے امریکا مخالف صدر ڈاکٹر سیکارنور اور ان کی جماعت کا ذکر ضروری ہے۔ انڈونیشیا کی فوج نے سیکارنو کا تختہ الٹا تھا، انڈونیشیا کی فوج ایک انقلابی فوج میں تبدیل نہ ہوئی، اگر کیوبا کی طرح اس فوج کو انقلابی فوج میں تبدیل کردیا جاتا تو پھر انڈونیشیا، سوشلسٹ انڈونیشیا ہوتا۔ میری رائے میں انڈونیشیا کا معاملہ پارٹی کی نوجوان قیادت سے زیادہ وہاںکے اس وقت کے حالات کے تجزیے سے حقیقی نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔

 (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انڈونیشیا کی دنیا کے کیا ہے

پڑھیں:

انڈونیشین سرمایہ کار پاکستان میں مواقع تلاش کریں ، اکنامک قونصل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامرس رپورٹر)انڈونیشین قونصلیٹ کے اکنامک قونصل ڈاکٹر سفیان احمد نے انڈونیشیا اور پاکستان کی لیڈرشپ کے درمیان حال ہی میںدستخط کیے گئے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اہم پیش رفت دونوں ممالک کے لیے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہی ہے کیونکہ اب دونوں ملک اپنے موجودہ تجارتی انتظامات کو ایک جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے سیپا میں تبدیل کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔فی الحال دونوں ممالک ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کے تحت کام کر رہے ہیں جو تقریباً 300 ٹیرف لائنز پر مشتمل ہے تاہم سیپا اس دائرہ کار کو نمایاں طور پر وسیع کرے گا۔سیپا کے تحت شامل اشیاء کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جو روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی بے شمار مصنوعات تک وسیع ہوگا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کا دورہ کرنے والے انڈونیشیا کے تجارتی وفد کے ساتھ ملاقات کے موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر صدر کے سی سی آئی محمد ریحان حنیف، سینئر نائب صدر محمد رضا، نائب صدر محمد عارف لاکھانی، فئیرز،ایگزیبیشن اینڈ ٹریڈ ڈیلیگیشن سب کمیٹی کے چیئرمین عمران معیز، پاکستان انڈونیشیا بزنس فورم کے صدر شمون ذکی اور کے سی سی آئی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔ڈاکٹر احمد نے اس بات پر زور دیا کہ دوطرفہ تجارتی تعاون کو مستحکم بنانے کا بنیادی مقصد طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت انڈونیشیا کی پاکستان کے لیے برآمدات بہت زیادہ ہیں تاہم انہوں نے حالیہ صدارتی دورے کے دوران انڈونیشیائی قیادت کے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستانی مصنوعات کی انڈونیشیا کی مارکیٹوں میں موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔انہوں نے پائیدار تجارتی راہوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے عوامی روابط بڑھانے، ویلیو ایڈیشن، صنعتی سرمایہ کاری کے فروغ اور باہمی سرمایہ کاری کے بہاؤ کی حوصلہ افزائی کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف پاکستان کی جانب سے انڈونیشیا میں سرمایہ کاری کا معاملہ نہیں بلکہ انڈونیشیا کے سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں موجود مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مشترکہ پیداواری منصوبے دونوں ممالک کے درمیان متوازن اور پائیدار تجارتی تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان کاروباری تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کراچی چیمبر کی مسلسل کوششوں کو بھی سراہا اور خاص طور پر پاکستان انڈونیشیا بزنس فورم (پی آئی بی ایف) کے صدر شمعون ذکی کی خدمات کی تعریف کی جن کی کاوشوں سے دونوں ممالک کی تاجر برادری کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے میںمدد ملی۔کراچی چیمبر کے صدر ریحان حنیف نے انڈونیشیاکے وفد کا پُرتباک خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تعلقات صرف اقتصادی مفادات تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک گہرے ثقافتی، مذہبی و تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ تعلق باہمی احترام، تعاون اور دیرینہ دوستی کی بنیاد پر قائم ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔انہوں نے دوطرفہ تجارت میں اضافے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل، ملبوسات، خوردنی تیل، پام آئل، زرعی مصنوعات، دواسازی، حلال مصنوعات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل سروسز اور سیاحت سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔دونوں ممالک کی تاجر برادری ان مواقعوں سے فائدہ اٹھا کر تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہیں۔ ریحان حنیف نے انڈونیشیا کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت قائم زونز میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی جہاں غیر ملکی سرمایہ کار پُرکشش مراعات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کراچی چیمبر مضبوط کاروباری روابط کے قیام اور انڈونیشیا کی کمپنیوں کو پاکستانی مارکیٹ تک رسائی میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے اِن کوششوں کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے کراچی اور جکارتہ کے درمیان تجارتی وفود کے باقاعدہ تبادلے، بی ٹو بی میٹنگز، ٹریڈ فیئرز اور نمائشوں میں بڑھتی ہوئی شرکت، سنگل کنٹری نمائشوں کے انعقاد اور متعلقہ شعبوں کی کمپنیوں کے درمیان خصوصی میچ میکنگ سیشنز کی تجویز پیش کی۔انہوں نے مزید کہا کہ ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کے دائرہ کار کو بڑھانے اور ٹیرف و نان ٹیرف رکاوٹوں کو منظم انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تجارت کا بہاؤ زیادہ ہموار اور مؤثر بنایا جا سکے۔انہوں نے کے سی سی آئی کی مقبول ترین ’’مائی کراچی‘‘ نمائش میں انڈونیشیا کی مسلسل شرکت پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے انڈونیشیا کی کمپنیوں کو فروری 2026 میں ہونے والی اگلی نمائش میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی اور کہاکہ انڈونیشیا کی موجودگی ہمیشہ اس نمائش کو مزید مؤثر بناتی ہے اور دونوں ممالک کے تجارتی و ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرتی ہے۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں محمد نواز رضا کی کتاب کی تقریب رونمائی، وفاقی وزیر اطلاعات کا خطاب
  • آبادی کے لحاظ سے ہم 2030ء میں انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے، مصطفیٰ کمال
  • آبادی کے لحاظ سے ہم 2030ء میں انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے: وزیر صحت مصطفیٰ کمال
  • چوری شدہ موٹر سائیکل لاپتہ، مگر پھر بھی ای چالان حاضر
  • پاک انڈونیشیا معاہدے اور تعاون
  • پاکستان اور انڈونیشیا: تعاون کی نئی جہتیں
  • اساسِ قرآن
  • انڈونیشین سرمایہ کار پاکستان میں مواقع تلاش کریں ، اکنامک قونصل
  • نوڈیرو،شاہ لطیف پبلک پارک میں مرحوم فیض محمد کٹپرکی یاد میں تین روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کتابیں دیکھ رہے ہیں
  • معاشی خودکفالت کی منزل