Express News:
2025-10-29@00:32:09 GMT

عہدِ حاضر میں مارکسزم کی معنویت (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

’’ عصر حاضر میں مارکسزم کی معنویت، پاکستان اور تیسری دنیا کے نظریاتی مباحث ‘‘ رانا اعظم کی ایک شاندار تصنیف ہے۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی جدوجہد میں صرف کیا ہے۔ وہ بائیں بازو کے ان کارکنوں میں شامل ہیں جنھوں نے سوشلسٹ لٹریچر باریک بینی سے پڑھا اور پھر مارکسزم کے عمومی نفاذ کو اپنی زندگی کا ایک بڑا مقصد بنالیا۔ ان کی یہ کتاب 12 حصوں اور 319 صفحات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب میں نظریاتی مسائل، فلسفہ، عالمی کمیونسٹ تحریک سے لے کر بائیں بازوکی صورتحال، پارٹی بلڈنگ، ریاست کا کردار، وادئ سندھ کی تہذیب، تاریخی واقعات، نوید فکر اور بہت کچھ شامل ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر نظریاتی مباحث کی ایک کتاب ہوتی اور عملی معاملات پر ایک اور کتاب مرتب ہوتی تو مجھ جیسے ناقص العقل قاری کو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوجاتی، مگر اس پرآشوب دور میں کتاب شایع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بقول بنگالی زبان کے عظیم شاعر ٹیگور کے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی تک انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ اس طرح دانش سے بانجھ اس معاشرے میں ایسی کتاب شایع ہونے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اس معاشرے میں سوچنے والے کچھ موجود ہیں۔

صاحب کتاب کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر نیشنل عوامی پارٹی اور 70ء کے ان کے آبائی علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کی یاد تازہ ہوگئی، نیپ نے سیکولر سیاست کو تقویت دی تھی، اگر بنگلہ دیش ہمارے ساتھ رہتا تو اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی انتہا پسندی اتنی طاقتور نہ ہوتی۔ بہرحال 2025 برصغیر ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا 100واں سال ہے۔ مصنف کا بائیں بازوکی سیاست سے وابستگی کا بھی پچاسواں سال ہے۔ انھوں نے ابتداء میں یہ بات لکھ دی ہے کہ کتاب ایک سیاسی کارکن کی پاکستان سمیت تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور طبقاتی ساخت کی روشنی میں بنیادی سماجی تبدیلی، محنت کشوں کے استدلال کے عمل کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس کوشش میں مکمل طور پرکامیاب ہوگئے ہیں۔ مصنف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمیں اپنے درست افکار اور دنیا کی سچائیوں کو دہراتے رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ کا یہی اصول ہے کہ اگر پیغام کو بار بار دہرایا جائے تو رائے عامہ تبدیل ہوجاتی ہے۔

مصنف نے پہلے باب میں ’ مارکسزم اپنی عنصریت کھوچکا ہے‘ کے موضوع پر خاصی بحث کی ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل میں لکھا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کو نظریہ کی شکست قرار دیتے ہوئے واحد سپر پاور کے کھڑے کیے گئے مینارِ نور سے یہ اعلان کیا گیا۔ دنیا اب پہلے سے زیادہ پر امن اور خوشحال ہوجائے گی مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارکسزم اب بھی زیادہ Relevant ہے مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جدید دورکے تقاضوں کے مطابق اب نظریہ میں کوئی تبدیلیاں ہونی چاہئیں ناکہ مارکسزم کو کلاسیکل انداز میں ہی دیکھنا چاہیے۔ کتاب کے دوسرے باب میں مارکسزم کے بنیادی اصول جامع اور سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس طرح مارکسی کے تصور تاریخ میں مصنف نے شیکسپیئر اور مرزا غالب کا موازنہ کیا ہے۔

مارکسی نقطہ نظر سے دنیا کے دو بڑے شاعروں کے ادوارکا موازنہ ایک دلچسپ امر ہے۔ اس موازنہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مارکس نے بھی دنیا کے اس وقت کے ادب کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اس دورکے حالات کے مارکسی نقطہ نظر سے تجزیے نے نوجوانوں کو ایک وسیع ذہن کے طور پر دنیا بھر کے ادب کے مطالعے کو تقویت دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ برطانیہ میں میگنا کارٹا معاہدہ اور آئینی بادشاہت کے قیام کے بارے میں معلومات اہم ہیں مگر میگنا کارٹا معاہدہ کی تاریخ شاید درست نہیں ہے۔ مصنف نے ’’ ارتقاء اور پڑاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک اور اہم بات تحریرکی ہے، اس تحریر پر بہت زیادہ بحث و مباحثے کے دروازے کھلتے ہیں۔ سوویت یونین کے انقلاب کے بعد نئی راہیں ڈھونڈنا ایک قدرتی عمل ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ قدرتی اور طبقاتی سوال کی اس جدوجہد میں کی حیثیت ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم باب فرینکفرٹ اسکول اور نیو مارکسزم سے متعلق ہے، جس میں اہم مباحث کے بارے میں فرینکفرٹ اسکول کے دانشوروں نے گزشتہ صدی میں مارکسزم اور فلسفہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ 1960 میں طلبہ میں سیاسی شعور جاگا۔ ان طلبہ کو فرینکفرٹ اسکول کے معروف فلسفیوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں سے کچھ فلسفیوں نے ماہر نفسیات فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریے کو تسلیم کیا۔ مارکسی دانشوروں نے فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریہ پر تنقید کی ہے، فرائیڈ کا بنیادی نظریہ جنس سے متعلق ہے۔

ظاہر ہے کس مارکسی دانشور سماج میں صرف جنس کے تضاد کو ہی بنیاد نہیں سمجھتے، اگرچہ فرینکفرٹ اسکول کے دانشور جا جین ہیبر مارس کے نظریہ قدر زائد پر تنقید کی ہے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایسا معاشرہ جو بھرپور طریقہ سے ٹیکنالوجی پر ٹھہرا ہے وہاں قدر زائد محنت کش طبقے کی محنت سے وارد نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا ورود یا استخراج اس معاشرے کی انتہائی میکانیکلی اور تکنیکی جدت طرازیوں کی مرہونِ منت ہے۔ فری مارکیٹ کی بنیاد ہی بنیادی طور پر قدر زائد پر ہے۔ مصنف نے ’’متبادل کی تلاش ‘‘ کے عنوان میں امریکی بورژوا دانشور ایمانوئیل والرٹین کا حوالہ دیا ہے۔ اس دانشورکا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ سوشلسٹ اکنامی لے گی۔ اگرچہ یہ دانشور 1980کی دہائی میں یہ کہہ چکا تھا کہ وہ نہیں جانتا کون سا ورلڈ سسٹم سرمایہ داری کا متبادل ہوگا مگر سوشلسٹ اکنامی کی اصطلاح کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف نے ’’ نظریاتی قحط اور فکری مغالطے‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی کا ذکر کیا ہے۔

انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی 1950 میں مقبول پارٹی تھی۔ اس کی قیادت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ پارٹی کا فوکس دیہی علاقہ سے تھا۔ پارٹی جبری مشقت کے خلاف تھی اور زمینوں پر قبضہ کی حوصلہ افزائی کرتی تھی مگر پھر امریکی سامراج کی نگرانی میں انڈونیشیا کی سہارتو حکومت نے پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کا قتل عام کیا۔ تقریباً 30 لاکھ کے قریب کارکن قتل کیے گئے مگر اس کے ساتھ اس وقت کے امریکا مخالف صدر ڈاکٹر سیکارنور اور ان کی جماعت کا ذکر ضروری ہے۔ انڈونیشیا کی فوج نے سیکارنو کا تختہ الٹا تھا، انڈونیشیا کی فوج ایک انقلابی فوج میں تبدیل نہ ہوئی، اگر کیوبا کی طرح اس فوج کو انقلابی فوج میں تبدیل کردیا جاتا تو پھر انڈونیشیا، سوشلسٹ انڈونیشیا ہوتا۔ میری رائے میں انڈونیشیا کا معاملہ پارٹی کی نوجوان قیادت سے زیادہ وہاںکے اس وقت کے حالات کے تجزیے سے حقیقی نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔

 (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انڈونیشیا کی دنیا کے کیا ہے

پڑھیں:

جنرل ساحر کی ملاقات ڈاکٹر یونس نے گریٹر بنگلہ دیش ولی کتاب تحفہ دی بھارتی میڈیا کو مروڑ 

 اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) بنگلا دیش کے چیف ایڈوائرز اور نوبیل انعام یافتہ معاشی ماہر ڈاکٹر محمد یونس کی جانب سے پاکستان کی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو دی جانے والی کتاب کے سرورق پر بنے نقشے نے بھارتیوں کو آگ بگولہ کر دیا۔ ڈاکٹر محمد یونس کی جانب سے جنرل ساحر شمشاد مرزا کو The Art of Triumph کے عنوان والی ایک کتاب کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ اس کتاب کے سرورق پر بنے نقشے کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس نے جو کتاب پاکستان کی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کو بطور تحفہ پیش کی اس کے سرورق پر بنے نقشے میں بھارتی ریاست آسام اور دیگر شمال مشرقی حصوں کو بنگلا دیش کاحصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ گریٹر بنگلہ دیش کا نقشہ ہے۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو پیش کی جانے والی کتاب کے تحفے کی تصاویر جیسے ہی ڈاکٹر محمد یونس نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں تو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین پر طوفان برپا ہو گیا۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم بھارتی میڈیا پر بنگلا دیش کے چیف ایڈوائرز کے خلاف الزامات کا محاذ کھل گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے دورہ بنگلہ دیش کے دوران چیف ایڈوائزر محمد یونس اور بنگلا دیش کی فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں اور دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک نے عسکری تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ گزشتہ سال اگست میں عوامی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس کے باعث تجارت اور دوطرفہ روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے سرکاری دورہ بنگلا دیش کے دوران چیف ایڈوائزر محمد یونس، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل محمد ناظم الحسن، چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل حسن محمود خان اور آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقاتوں میں بدلتی ہوئی علاقائی و عالمی صورت حال اور سکیورٹی کے چیلنجز پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس موقع پر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے پاکستان کی جانب سے بنگلادیش کے ساتھ دیرینہ برادرانہ تعلقات کو سراہا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان تعلقات کو باہمی احترام اور خودمختار مساوات کی بنیاد پر مزید گہرا کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سلہٹ میں سکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس کا بھی دورہ کیا، جہاں انہوں نے اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کی۔ بنگلادیش کی سول و عسکری قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کے اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار اور دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو سراہا۔ سناکونجو پہنچنے پر جنرل مرزا کو ایک چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا، جس کے بعد انہوں نے شِکھا انیربان پر پھول چڑھائے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 20 سال بعد جوائنٹ اکنامک کمیشن کی ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اعلامیہ کے مطابق بنگلہ دیش جوائنٹ ایکشن کمیٹی اجلاس میں دو طرفہ اقتصادی اور ترقیاتی تعاون مضبوط کرنے، براہ راست پروازیں شروع کرنے کا کام تیز کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ استعمال کرنے کی پیشکش کی۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان  کے وفاقی وزیر پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ نے صالح الدین نے بھی کی۔ دونوں ممالک نے قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ تجارت، سرمایہ کاری اور صنعت، زراعت، ٹرانسپورٹ، تعلیم، ٹیکسٹائل، توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور آئی ٹی میں تعاون، طبی شعبے اور مذہبی سیاحت میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اقتصادی کمیشن کے نویں اجلاس کے متفقہ منٹس پر دستخط کئے گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان حلال ٹریڈ میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں استاد کا تشدد؛ کتاب نہ لانے پر طالبعلم کا بازو توڑ دیا، مقدمہ درج، ٹیچر گرفتار
  • راولپنڈی میں استاد کا طالبعلم پر تشدد، کتاب نہ لانے پر بازو توڑ دیا
  • راولپنڈی میں کتاب نہ لانے پر ٹیچر نے تشدد کر کے طالب علم کا بازو توڑ دیا
  • راولپنڈی؛ کتاب نہ لانے پر ٹیچر نے تشدد کر کے طالبعلم کا بازو توڑ دیا، مقدمہ درج، معلم گرفتار
  • خضدار: ’کتاب میلہ، کھیل و ثقافتی فیسٹیول‘ بلوچستان کی جنریشن زی کی تخلیقی صلاحیتوں کا جشن
  • جنرل ساحر کی ملاقات ڈاکٹر یونس نے گریٹر بنگلہ دیش ولی کتاب تحفہ دی بھارتی میڈیا کو مروڑ 
  • ایشین یوتھ گیمز: پاکستان کی مینز والی بال ٹورنامنٹ کے فائنل میں رسائی
  • ایشین یوتھ گیمزوالی بال مقابلے میں پاکستان کی انڈونیشیا کو شکست دے کر فائنل میں رسائی
  • ایشین یوتھ گیمزوالی بال مقابلے میںپاکستان نے انڈونیشیا کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کرلی