data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مظفر آباد: آزاد کشمیر میں متوقع ان ہاؤس تبدیلی کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس کی اندرونی تفصیلات ذرائع کے ذریعے سامنے آگئی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزرا احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور وزیرِ امورِ کشمیر انجینئر امیر مقام نے شرکت کی، جبکہ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سمیت پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان اور مرکزی عہدیداران بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

اجلاس میں آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال، ممکنہ ان ہاؤس تبدیلی، اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر تفصیلی مشاورت کی گئی، ن لیگ نے آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر اپنی مشاورت مکمل کر لی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی نئے وزیراعظم کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کی تبدیلی کے عمل میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے گی لیکن نئی حکومت میں شامل نہیں ہوگی،  پارٹی رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریکِ عدم اعتماد اور قائدِ ایوان کے انتخاب دو الگ معاملات ہیں، اس لیے پارٹی اس حوالے سے اپنی خودمختار پالیسی برقرار رکھے گی۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پیپلز پارٹی سے آزاد کشمیر میں جلد انتخابات کے انعقاد سے متعلق مشاورت کی جائے گی تاکہ سیاسی عمل کو شفاف اور مستحکم بنایا جا سکے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اجلاس کے دوران سیاسی رابطہ کمیٹی نے آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کو پیپلز پارٹی سے طے شدہ فارمولا پر اعتماد میں لیا جبکہ آئندہ کی سیاسی حکمتِ عملی پر بھی تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس دوران آزاد کشمیر کی قیادت سے مستقبل کے لائحہ عمل اور تجاویز بھی طلب کی گئیں۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں طے پایا کہ سیاسی رابطہ کمیٹی وزیراعظم شہباز شریف کو وطن واپسی پر اجلاس کی تمام تفصیلات اور سفارشات سے آگاہ کرے گی،  مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر میں سیاسی استحکام اور شفافیت کو ترجیح دے رہی ہے اور کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتی جو خطے میں غیر یقینی سیاسی صورتحال پیدا کرے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی اجلاس میں مسلم لیگ

پڑھیں:

خطرہ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے جیسا ہوگا، پیپلز پارٹی ایسی کسی ترمیم یا اقدام کی حمایت نہیں کرے گی جو وفاق کو کمزور کرے اور صوبوں کے حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو جمہوریت سے 1973 کا متفقہ آئین اور پسماندہ طبقات کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا فلسفہ دیا۔

بلاول بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے 58 ویں یوم تاسیس پر میڈیا سیل بلاول ہاؤس میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ڈیجیٹل جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی تاریخی سیاسی جدوجہد آج کی سیاسی صورت حال اور مستقبل پر اس کے ممکنہ اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف اس وقت دشمن سازش کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔

ایک جانب بھارت ہے جو میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے ساتھ تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بجا طور پرکہا کہ ہمیں دشمن کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

بلاول بھٹو نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے یہ موقف اختیارکیا کہ ملک میں ایک آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا۔

واضح رہے کہ یہ میثاق جمہوریت آج سے 19 سال پہلے 14 مئی 2006 کو پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان لندن میں ہونے والا معاہدہ ہے جس میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترمیم، جمہوریت میں غیر سیاسی اداروں کی حیثیت، نیشنل سیکیورٹی، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں سیاسی جماعتوں کے نکتہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔

یہ معاہدہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جس پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے دستخط بھی موجود ہیں، اسے عرف عام میں چارٹر آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ نہایت اہم اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہیں۔

بالخصوص ملک میں امن و امان کی صورت حال، دہشت گردی کے واقعات، بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ سے ہونے والی دراندازی جس نے کے پی کے اور بلوچستان کو طویل عرصے سے نشانہ بنا رکھا ہے، اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے افسر اور جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، کے پی کے اور بلوچستان میں امن کے قیام اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن چالاک، مکار اور عیار دشمن وقفے وقفے سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو لمحہ فکریہ بھی ہے ۔

بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ ہمیں دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے یک جان ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

اس تناظر میں جب ملک کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو صورت حال ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ اتحادی حکومت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں اعتماد کا گہرا فقدان ہے۔

سندھ میں نہروں کی تقسیم سے لے کر 18 ویں ترمیم تک پیپلز پارٹی کے مطالبات کو حکمران (ن) لیگ توجہ دینے میں ناکام ہیں۔ کے پی کے میں پی پی پی کے گورنر کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

گورنر سندھ کو ہٹانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کہیں سندھ کی تقسیم اور نئے صوبوں کی بحث چھیڑی جا رہی ہے اور صوبوں کے حقوق اور 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ ادھر اپوزیشن کے ساتھ بھی حکمران اتحاد کے تعلقات میں اعتماد کی کوئی جھلک پروان چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

کے پی کے میں گورنر راج لگانے کی افواہوں نے حکومت اپوزیشن کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو گورنر راج کی صورت میں سخت ردعمل دینے کی تیاری کر رہی ہے۔

ایسے حالات میں ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ سیاسی اختلافات وطن عزیز اور قومی یکجہتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • لاہور: ن لیگ کے صدر نوازشریف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پارٹی رہنماﺅں سے گفتگو کررہے ہیں
  •  گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو این ایف سی میں فوری حصہ دیا جائے، نواز شریف کا مطالبہ
  • پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے،نواز شریف
  • گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف
  • نواز شریف نے اگلے  ماہ آزاد کشمیر کے دورے کا اعلان کر دیا
  • آزاد کشمیر الیکشن، نواز شریف نے اہم اجلاس طلب کر لیا
  • تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی سے سیاسی مفاہمت کیلئے تیار
  • پی ٹی آئی کا 20 دسمبر کو قومی کانفرنس بلانے کا اعلان
  • خطرہ
  • پی ٹی آئی کا پیپلز پارٹی سے رابطے کا فیصلہ