ہم ’’اغوا‘‘ ہونے کے لیے تیار ہیں
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
ایک لڑکے اورلڑکی میں محبت ہوگئی ، لڑکی والے کچھ بڑے لوگ تھے، اس لیے رشتے سے انکار کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی بھاگ کر لڑکے کے گھر آگئی ، لڑکی کے خاندان نے اعلان کردیا کہ وہ ’’بدلہ ‘‘ لے کر رہیں گے۔ اس لڑکے کی ایک غیر شادی شدہ بہن تھی۔ بدصورت ہونے کی وجہ سے اس کوکسی نے اسے قبول نہیں کیا تھا، اس نے بدلے کا سنا تو جان بوجھ کر کھلے عام پھرنے لگی، اکثر دشمنوں کے گلی کوچوں میں پھرنے لگی کہ شاید وہ لوگ اپنا بدلہ لینے کے لیے ’’اسے‘‘ اٹھا لیں لیکن بیچاری کی امید پوری نہیں ہوئی۔
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے، ہم سنتے تھے کہ اکثر صحافی کسی نہ کسی کے ہاتھوں خودکو فروخت کردیتے ہیں یاکو ئی ان کو اپنے ’’پے رول‘‘ پر رکھ لیتا ہے اور وہ لفافے والے صحافی بن جاتے ہیں،پرمٹ ،پلاٹ یااوربہت کچھ حاصل کرلیتے ہیں، چنانچہ ہم نے ادھر ادھر پھرنا شروع کردیا، ٹاپ کلاس کے جھوٹ بولے اور لکھے لیکن کسی نے بھی گھاس نہیں ڈالی ۔
لوگ بازار میں آکے بک بھی گئے
میری قیمت لگی کی لگی رہ گئی
برسراقتدار لوگوں کے سامنے خود کو آگے پیچھے کیا، متوقع اقتدار میں آنے والوں کی مدح خوانی کی جن جن ممالک سے کچھ توقع ’’داد‘‘ پانے کی تھی، ان کے سامنے بھی ادھرادھر ہوئے، جن لوگوں پر شک تھا کہ ’’اہل لفافہ‘‘ ہیں ، ان کے بھی آگے پیچھے ہوئے لیکن کسی نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا ، ایک زمانے میں کچھ ایسا تاثردیا جسے مسلم لیگی حکمران ہمارے فین ہوں لیکن یہ تو قع بھی نقش بر آب ثابت ہوئی ، ہماری طرف سے ’’ہاں‘‘ تھی لیکن اس طرف سے۔
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
’’بھولے‘‘ تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے
اے این پی سے ہمارا تین پشتوں کاتعلق ہے لیکن اس کی تو پالیسی غلط ہے کہ اپنے تو بہرحال اپنے ہیں، پرایوں کو اپنا بناؤ چنانچہ وہ پرایوں کو اپناتے رہے اوراپنوں کو پرایا کرتے رہے، جن میں ہم بھی شامل تھے ،کسی نے بھی نہ پوچھا کہ بھیا کیسی۔
لفاف اورلفافہ تو اپنے نصیبوں میں نہیں تھا ، نہیں پاسکے لیکن اس دوڑ میں ہم خود گم ہوگئے ، نہ تین میں شامل ہوسکے نہ تیرہ میں ، صحافی یہ کہہ کر ہمیں ’’دورپرے‘‘کہتے ہیں کہ ہم تو صحافی نہیں، ادیب ہیں اورادیب ہمیں صحافی کہہ کر دھتکارتے ہیں ، شاعر ہمیں ڈرامہ نگار کہہ کر دھتکارتے ہیں اورتو اور پشتو والے ہمیں اردو کی طرف دھکیلتے ہیں اوراردو والے ہمیں پشتون یعنی پشتو بولنے والا سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ مزاح نگار ہمیں سنجیدہ اورسنجیدہ ہمیں مزاح نگار کہہ کر منہ پھیرتے ہیں اورہم وہ لڑکی بن کر رہ گئے جو اغوا ہونے کی حسرت میں بوڑھی ہوگی تھی۔
ہم تو بالکل مایوس ہوگئے تھے اورصبر شکر کرکے بیٹھ گئے کہ اللہ صابرین وشاکرین کو پسند کرتے ہیں کہ اچانک اس خراب آباد میں ’’بانی‘‘ کی ولادت باسعادت ہوئی ، شاید اس ملک کے بداعمال لوگوں کو سزا دینے کے لیے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ راتوں رات لوگ کوڑے دان سے اٹھ کر محل نشین ہوگئے۔ یہ حالات دیکھے تو ہماری بنجر کھیتی ایک مرتبہ پھر سرسبز ہونے لگی ، سوچا، اگر کسی طرح معاون یا مشیر کارتبہ پکڑمیں آجائے تو شفق ، دھنک، مہتاب ، ہوائیں بجلی تارے قمقمے پھول ، کھل اٹھیں گے۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ بدنصیب یہاں بھی بدنصیب اورسات سمندر پاربھی بدنصیب ۔ ساری دنیا پانی پانی ہوجائے بلکہ’’بانی بانی‘‘ ہوجائے جن کی قسمت میں ’’چاٹنا‘‘ لکھا ہوتا ہے، وہ ’’چاٹتے‘‘ رہ جاتے ہیں۔یاجن کے گلے میں سوراخ ہو، اس کانصیبہ صرف بارش کے قطرے ہوا کرتے ہیں۔ہماری تو دعا بھی قبول نہیں ہوتی حالانکہ خیبر پختونخوا میں ’’بانی‘‘ کے طویل دورمیںلوگ کیا سے کیا ہوگئے۔ ہم نے کوشش بہت کی ،ہم سے بھی ماڑے مٹے لوگ نہ جانے کیا کیا بن گئے اور پھر اپنے لیے کیاکیا بناگئے۔
اب یہ جو نئی صوبائی تبدیلی آگئی ہے، ہماری توقع بھی پھر جاگ اٹھی ہے ، سوکھے دھانوں میں پھر پانی پڑ گیا ہے، اس لیے اپنی لیاقت اورقابلیت ایک مرتبہ پھر مشتہرکرتے ہیں ۔اس منصب کے لیے جو خوبی درکارہوتی ہے وہ ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود ہے یعنی جھوٹ ہم ایسا بولتے ہیں، ایسا بول سکتے ہیں کہ اورتو اوربولنے کے بعد ہم خود بھی اپنے جھوٹ کو ’’سچ‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ایک وکیل سے اس کے موکل نے بری ہونے کے بعد کہا، وکیل صاحب! آپ نے عدالت میں جو دلائل میرے حق میں دیے، انھیں سن کر خود میں نے بھی محسوس کیا جیسے چوری میں نے نہیں کسی اورنے کی تھی۔ مطلب ہمارے اندرایک مکمل مشیر یامعاون موجود ہے گرقبول افتد رہے عزو مشرف
مجھ کو معلوم ہے میں جنس گراں ہوں لیکن
لیکن اب ایسا خریدار کہاں سے لاؤں
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خطرات کی زد میں (دوسرا اور آخری حصہ)
ظلم و ستم گری اور غیر منصفانہ رویے کے حوالے سے لوٹ مار کرنے والے گروہ بے حد بے رحم ہے۔ پولیس اپنی کارکردگی اور اپنے فرائض منصبی سنبھالنے میں ناکام ہو چکی ہے، کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں خواتین کو الحمدللہ عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شاید اسلامی تعلیمات کے اثرات تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ زائلہوتے جا رہیہیں اب تو سیاسی جلسوں اور نعروں کی صداؤں یا بہت معمولی باتوں پر انھیں بالوں سے پکڑ کرکھینچا جاتا ہے اور پولیس موبائل میں جانوروں کی طرح دھکیل دیتے ہیں اور سیاسی انتقام کی خاطر گھروں میں کود کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے میں کسی بھی قیمت میں کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
ان حرکات کی وجہ سے ایک نہیں سیکڑوں گھرانوں میں حزن و ملال کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے۔ گھر کا ہر فرد پریشان ہے۔سندھ کی صورت حال دوسرے صوبوں سے پھر بھی بہتر ہے ابھی ہماری پولیس نے سفاکیت کا درس نہیں سیکھا ہے۔ ایک آدھ واقعہ ضرور رونما ہوا ہے لیکن اتنا سنگین نہیں۔ سیاسی حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور معاشی دکھوں نے بھی یہاں کے مکینوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ کاش! ہمارے حکمران کراچی کے حالات پر نظر کرم کرتے تو آج معصوم بچے، خواتین، پورے پورے دن کی بھوک کی اذیت میں مبتلا ہرگز نہ ہوتے، اب بجلی کے بعد گیس کا عذاب بھی نازل ہوچکا ہے؟
اس کی وجہ بھی ہمارے حکمران ہیں، یہ حضرات عوام کی ضرورتوں سے بالکل بے پرواہ ہوچکے ہیں یوں لگتا ہے کہ انھیں عوام کے جینے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے والے ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ وہ اپنے فرائض پورے کرنے میں کس قدر دیانت دار ہیں۔ خود تو وہ تمام آسائشوں کے ساتھ زندگی کا لطف لے رہے ہیں۔ کراچی کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں گیس پورا پورا دن نہیں آتی ہے۔ ان کے بچے بغیر ناشتہ کیے اسکول و کالج جاتے ہیں اور گھر آ کر باسی کھانے سے گزارا کرتے ہیں۔ رات کے کھانے کا بھی ایسا ہی حال ہے لوگ انھیں ووٹ اس لیے نہیں دیتے ہیں کہ وہ طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے سخت دل ہو جائیں کہ انھیں تڑپتے سسکتے لوگوں کی سسکیاں اور آہیں سنائی نہ دیں۔
بے شک اقتدارکا نشہ ہو یا دوسری چیزوں کا، انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں جو لوگ دولت اور شہرت کے نشے میں ڈوب گئے ہیں وہ لوگ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ مقتدر حضرات ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے عذاب جاں بن چکے ہیں، آنکھوں پر دولت کی پٹی باندھ لی ہے، ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کی چمک نے ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہے۔ ان کی نگاہ معاشرتی مسائل اور معاشی دکھوں کا احاطہ نہیں کرتی ہے، لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے، اغواء اور ڈکیتی کی وارداتیں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں۔
نوزائیدہ بچوں کی چوری دن دہاڑے اسپتال کے عملے کی مدد سے کی جاتی ہے، ملزموں سے کوئی پوچھنے والا نہیں،اکثر اوقات پولیس کی کوششوں سے یہ بچے مل بھی جاتے ہیں اور کئی خاندان حزن وملال سے بچ جاتے ہیں، آئے دن ایسی صورت حال سے والدین کو واسطہ پڑتا ہے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں تو غیر اخلاقی و غیر انسانی حرکات و سکنات کا بازار بغیرکسی پابندی کے سجتا ہے ان جرائم میں ملوث ملزمان کو پکڑا اور نہ سزا کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔ گویا ان کے لیے محض بڑے افسران کی سفارش اور حمایت کی وجہ سے کوئی قانون نہیں ہے، ان سب کو قانون شکنی کی پوری اجازت ہے، غریب کا بچہ روٹی کا نوالہ بھی بھوک کی حالت میں چرا لے یا چھوٹے موٹے جرم میں ملوث ہو جائے تو ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔
اگر آج حکومت تعلیم کو اپنے ملک کے ہر شہری کے لیے ضروری قرار دیتی اور پولیو کے قطرے پلانے والوں کی طرح ہر گھر سے بچوں کو اسکول میں داخلے کے لیے مجبور کرتی، کتابیں، قلم اور دوسری چیزیں مفت فراہم کی جاتیں تو یہ معاشرہ جو درندوں کا بن چکا ہے، تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں پر مشتمل ہوتا۔ لیکن ایسا کرنے میں خسارہ حکومت کا ہی تھا۔ دولت کی طمع نے اشرف المخلوقات کے درجے سے اٹھا کر ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے لیکن احساس نام کی کوئی چیز نہیں، احساس جب سیلاب زدگان کا نہیں ہو سکا جو بے چارے آج بھی کھلے آسمان تلے چارپائی یا مٹی کی ڈھیریوں پر لیٹنے، بیٹھنے پر مجبور ہیں، کراچی کے شہری زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے عرصہ دراز سے محروم ہیں، بڑی گاڑیوں اور بڑے مکانوں، بنگلے کوٹھیوں، حویلیوں اور محلوں پر تو مقتدر حضرات کا حق ہے یہ لوگ غریب کے پیسوں سے آسائش زندگی خریدتے ہیں اور مفلس انسان دانے، دانے کے لیے محروم کر دیا گیا ہے، یوٹیلیٹی بلز کا ادا کرنا بھی ان کے لیے ناممکن ہے۔
کے ای کے افسران اعلیٰ اور ورکرز آنکھیں بند کرکے ان غریب گھرانوں میں بلوں کی ترسیل کرتے ہیں جو بے چارے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کے اذیت ناک پل گزار رہے ہیں۔ بل ہزاروں روپے ماہانہ موصول ہوتا ہے چونکہ ایک دو پنکھے اور اسی طرح بجلی کے بلب تین، چار سے زیادہ ہرگز نہیں، ایک کمرے میں ایک پورا خاندان اس لیے گزارا کرتا ہے کہ دوسرا پنکھا یا لائٹ نہ جلانا پڑے اور بل کم سے کم آئے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہزاروں اور لاکھوں کا بل جسے آنکھیں بند کرکے یا نشے میں مدہوش ہو کر بنایا گیا تھا۔ وہ جب صاحب خانہ کو ملتا ہے تو پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے اور انسانی وجود خلا میں معلق ہو جاتا ہے۔ بندہ مرتا ہے اور نہ جیتا ہے اگر دفتر جا کر شکایت درج کی جائے تب یہ ظالم اپنے ورکرز کو حکم صادر کرتے ہیں کہ بجلی کاٹ دی جائے اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے دنیا کا جہنم غربا و مساکین اور قیامت کا جہنم زر پرستوں کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے۔