Daily Mumtaz:
2025-12-11@21:39:45 GMT

چین: 30سال بعد شہری کے پیٹ سے فعال لائٹر برآمد

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

چین: 30سال بعد شہری کے پیٹ سے فعال لائٹر برآمد

چین (نیوزڈیسک)ایمرجنسی گیسٹرو اسکوپی کے بعد ڈاکٹروں نے اس شخص کے معدے میں مکعب شکل کی ایک چیز دیکھی جس کی ساخت کو معدے کے تیزاب نے بگاڑ دیا تھا۔

تاہم، اس کی ہموار اور چکنی سطح کی وجہ سے متعدد کوششوں کے باوجود نکالا نہیں جا سکا۔

طبی ٹیم نے اس شے کو نکالنے کے عمل کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اس سے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔

جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ کیا اس کو کچھ اندازہ ہے کہ اسکے پیٹ میں موجود یہ مستطیل شکل کی شے کیا ہو سکتی ہے تو اس کو 1990 کی دہائی کے شروع کا ایک واقعہ یاد آگیا جب اس نے دوستوں کے ساتھ شراب کے نشے میں شرط لگا کر پلاسٹک کا لائٹر نگل لیا تھا۔

انہوں نے اس متعلق اپنے خاندان والوں کو کبھی نہیں بتایا اور ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے جسم سے کافی عرصہ قبل نکل چکا ہے۔

اس موقع پر انہیں ماضی میں متعدد بار بغیر کسی وجہ کے ہونے والا پیٹ کا درد یاد آیا لیکن ان کے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا سبب وہ لائٹر ہوگا جو انہوں نے تین دہائیوں قبل نگل لیا تھا۔

لائٹر کی تصدیق ہونے کے بعد ٹیم نے اس کو نکالنے کی ترکیب پر غور کیا اور اس کے گرد گھیرا بنا کر اس کو باہر کھینچ لیا۔

اگرچہ، لائٹر کی بیرونی سطح تیزاب سے خراب ہوگئی تھی لیکن اس میں گیس موجود تھی اور ڈاکٹر یہ دیکھ کر رہ گئے کہ وہ لائٹر ابھی بھی جل رہا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

انسان اور چھوٹی کائنات (پہلا حصہ)

یہ انسان جو اپنے آپ کو بہت طرم خان، عقل کُل اور ہمہ دان سمجھتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور پوری کائنات کو فتح کرنے کا مدعی ہے۔

اتنا نادان اتنا ناسمجھ اور اتنا بے خبر ہے کہ باہر باہر دور دور اس وسیع کارخانہ قدرت کو ایک طرف کردیجیے کہ پہاڑ کے مقابل چیونٹی بھی نہیں ہے، کائنات میں موجودات، ستاروں اور سیاروں کہکشاؤں کے بارے میں تو کیا جانے گا کہ خود اپنے جسم کی اس چھوٹی کائنات کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا۔

مثال کے طور پر انسان کو اپنے بارے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں خود اس کائنات کا ایک چھوٹا سا نمونہ یا ماڈل ہوں اور میرے اندر بھی ایک وسیع کائنات موجود ہے۔

اب یہ جو ہم سانس لیتے ہیں ہم اتنا تو جانتے ہیں کہ اس سے ہم زندہ ہیں لیکن کیوں کیسے؟یہ جو ہم سانس لیتے ہیں یہ ایک نہیں دو ہیں اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف متضاد اور الگ الگ ہیں، یوں کہیے کہ ان میں بھی کائنات کا بنیادی نظام ازواج یا ثنویت یا منفی و مثبت کا زوج کار فرما ہے۔

جو سانس ہم اندر کھینچتے ہیں وہ آکسیجن ہوتی ہے اور جو باہر نکالتے ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے، یوں کہیے کہ آکسیجن زندہ جسم کا’’فیول‘‘ ہے اور کاربن دھواں ہے، خوراک ہے زندگی ہے

یہ آکسیجن پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہوجاتی ہے پھر پھیپھڑے اسے دل کو دیتے ہیں اور دل اس صاف’’خون‘‘ کو جسم میں پمپ کرتا ہے اور اس کی جگہ استعمال شدہ کاربن سے بھرا ہوا خون کھینچ کر پھیپڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے، پھیپھڑے اس سے کاربن نکال کر باہر نکال دیتے ہیں اوراس کی جگہ خون میں آکسیجن بھر کر دل کو واپس بھیجتے ہیں۔

اس مرحلے میں ان دو عضویات دل اور پھیپھڑوں کی کارکردگی کا ذکر ضروری ہے۔ پھیپھڑے تو دوسرے انسانی اعضا اور کائنات کی ہر چیز کی طرح دو کا زوج ہیں لیکن دل جو بظاہر ایک دکھائی دیتا ہے’’ٹو ان ون‘‘ ہے یعنی اس کے بھی دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جو پھیپھڑوں سے تازہ آکسیجن سے بھرا خون لے کر جسم کو پمپ کرتا ہے اور دوسرا جسم سے کاربن بھرا خون کھینچ کر پھیپھڑوں کو صفائی کے لیے بھیجتا ہے۔

یوں جسم میں آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رہتا ہے اور انسان جب آرام سے بیٹھا ہوتا ہے تو تب بھی اس کی سانس ہموار رہتی ہے، آکسیجن اور کاربن اپنا اپنا کام کررہی ہوتی ہیں توازن کے ساتھ۔لیکن کوئی انسان متحرک ہوتا ہے تو آکسیجن تیزی سے خرچ ہوکر کاربن میں بدلنے لگتی ہے آکسیجن کی کھپت زیادہ ہونے کا لازمی نتیجہ کاربن کا بڑھ جانا ہوتا ہے، جسم جتنا زیادہ متحرک ہوتا ہے اتنا ہی آکسیجن زیادہ خرچ ہوتی ہے اور کاربن بڑھتی ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سخت کام کرنے والوں اور بھاگ دوڑ کرنے والوں کی سانس پھول جاتی ہے ایسے میں انسان شعوری طور پر یہ کرتا ہے کہ رُک جاتا ہے، کام چھوڑ کر آرام کرتا ہے۔لیکن جسم کا نظام خود بھی خودکار طریقے پر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔

کیونکہ ضروری نہیں کہ رُکنے، بیٹھنے لیٹنے آرام کرنے کا موقع جسم کو میسر ہو۔  چناں چہ وہ گانے لگتا ہے آوازیں نکالنے لگتا ہے ہنسنے لگتا ہے اور کسی طرح کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سے کاربن نکلے اور آکسیجن آئے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ملاح، مزدور، مسافر وغیرہ اونچی آواز میں گاتے ہیں ہلہ ہلہ ہاو ہو کرتے ہیں ،ہنستے ہیں ایک دوسرے کا مذاق اڑاکر قہقہے لگاتے ہیں اور یہ سب لاشعوری طور پر جسم کا خودکار نظام کرتا ہے آکسیجن اور کاربن کا توازن برقرار رکھنے کے لیے۔

صرف انسان ہی نہیں جانور اور چرند پرند بھی ایسا کرتے ہیں آوازیں نکالتے ہیں، کتے بھونکتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں باقی جانور بھی کوئی نہ کوئی آواز نکالتے ہیں۔یہ سب ان کے جسموں کا خود کار نظام کرتا ہے اور مسئلہ وہی ہے آکسیجن کھینچنے اور کاربن نکالنے کا۔

کیونکہ آکسیجن اور کاربن قوت ہے عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی بستیوں میں دن کو تو سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں لیکن شام کو کسی جگہ اکٹھے ہوکر گاتے بجاتے ہیں، کھیلتے ہیں مذاق کرکے ہنستے اور قہقہے لگاتے ہیں، ناچتے ہیں یا ہلکے پھلکے کھیل کھیلتے ہیں ، جب کہ خانہ بدوش اور مسافر لوگ کہیں بیٹھ کر گاتے بجاتے ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں یا آلاؤ کے گرد ناچتے یا اور کوئی دلچسپ مظاہرہ کرتے ہیں۔

یہ سب ان سے ان کے جسموں کا خودکار نظام کراتا ہے اور جو ایسا نہیں کرتے ہیں یا دن میں سخت کام نہیں کرتے وہ جمائیاں لیتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔انھی چیزوں نے آخر ان سرگرمیوں کو جنم دیا جنھیں ہم ’’ثقافت‘‘ یا کلچر کہتے ہیں۔

اگرچہ زمانے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام کام جو ابتدا میں تفریح تھے کاروبار اور پیشے بھی ہوتے چلے گئے لیکن ابتدا بہرحال اسی بنیاد پر ہوئی ہے۔اور اگر ہم بہت پیچھے جاکر تحقیق کریں تو ابتدا میں اکثر آلات موسیقی پھونک اور سانس والے تھے پہلے صرف سیٹیاں پھر ہلہ ہلہ آ آ۔

اور پھر بانسری نفیری شہنائیاں وغیرہ۔اس سلسلے میں ’’شنک‘‘ یعنی آبی جانوروں کی سیپیاں اور شیل جانوروں کے سینگوں سے بنائے گئے آلات لفظ’’قرتا‘‘ قرن یعنی سینگ سے ہے۔ ہندیوں کے دیوتا شیو کو اسی لیے سنکر (شینک بجانے والا بھی کہتے ہیں)کہ پیالہ تیرے نام کا۔

یہ ’’پیالہ‘‘ بھی ایک خاص پس منظر رکھتا ہے جس پر کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔’’حدی خوان ‘‘ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو قافلوں میں چلتے چلتے گایا کرتے تھے اور الفاظ بہت کم لیکن آوازیں بلند ہوتی تھیں ۔کچھ ہی عرصہ پہلے ہم نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی اجتماعی کام ہوتا تھا جیسے بوائی کٹائی اور گہائی تو ایک ڈھول والا ڈھول بجاتا تھا اور کام کرنے والوں میں سے کوئی ناچنے لگتا باقی اس کے گرد کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے اور گاتے یا ہاہو کرتے اور آوازیں نکالتے۔

خلاصہ ان ساری باتوں کا یہ ہے کہ گانا بجانا ہنسنا مسکرانا قہقہے لگانا اور آوازیں نکالنا ایک سانس والی مخلوق کی فطری ضرورت ہیں اوراسی کو اکثر مدنیت، ثقافت، اجتماعیت اور کلچر کہتے ہیں جو غلط ہے۔

بہتر ہوگا کہ ہم اس سلسلے میں استعمال ہونے والے ان الفاظ کا بھی تھوڑا سا تجزیہ کرلیں جو اکثر غلط استعمال کیے جاتے ہیں ثقافت، تمدن، تہذیب وغیرہ جسے انگریزی لفظ کلچر میں بھی ادا کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف الگ الگ الفاظ ہیں بلکہ ان کے معانی و مفاہیم بھی الگ ہیں، سب سے پہلے ثقافت جو عربی لفظ ’’ثقف‘‘سے بنا ہے، ثقات عرب میں اسے بہت معنی دیے گئے ہیں لیکن مجموعی اور متفقہ معنی ہیں کسی کام یا چیز یا ہنر میں مہارت حاصل کرنا اور اس میں جیت حاصل کرنا ممتاز ہونا خاص ہونا۔  (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • چین: فعال لائٹر شہری کے پیٹ سے 30 سال بعد برآمد
  • میرپورخاص،نئی تعمیر رورل ہیلتھ سینٹر کی عمارت غیر فعال ،عوام پریشان
  • انسان اور چھوٹی کائنات (پہلا حصہ)
  • ہم اور دوسرے
  • پشاور، عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں میں شام کی شفٹ فعال کردی گئی
  • معیشت ڈنڈے سے نہیں چلائی جاسکتی،پیار سے چلتی ہے ، وزیراعظم سینٹرلائزیشن، ہم ڈی سینٹرلائزیشن پر یقین رکھتے ہیں، بلاول
  • پشاور: عوام کو جلد انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں میں شام کی شفٹ فعال کردی گئی
  • پنجاب حکومت کا نیا اقدام، کینسر اور دل کے مریضوں کے لیے خصوصی کارڈ متعارف
  • صحت کی سہولت: پنجاب حکومت لانے جا رہی ہے کینسر اور دل کے مریضوں کے لیے خصوصی کارڈ