data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ژاں پال سارتر نے کہا ہے کہ ’’دوسرے‘‘ (ہمارا) جہنم ہیں۔ یہ تصور مغربی فکر میں متعین انسان کی تعریفات کے عین مطابق ہے۔ مغربی فکر کا فرد ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی طرح ہے۔ ایسی ریاست کی طرح جو دوسری ریاستوں سے ’’سفارتی‘‘ تعلقات رکھتی ہے اور وہ کسی دوسری ریاست کو اپنی حدود میں در آنے کی اجازت نہیں دیتی۔ افراد کے درمیان سفارتی تعلقات کی بات مذاق نہیں۔ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ ایسی زبان میں گفتگو کرنے لگی ہے جس سے سفارت کاری کی بو آتی ہے۔ انسان کی گرم جوشی اور سرد مہری، ہم مشربی اور کشیدگی پر بھی سفارت کی مہر کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے کہ ایک جانب جذبات و خیالات کی شدت بڑھتی نظر آرہی ہے اور دوسری جانب ان کی گہرائی عنقا ہوتی جارہی ہے۔ ان دونوں رجحانات میں اِرتباطِ باہمی کی نشاندہی ہونی چاہیے، لیکن جس شدت کی ہم بات کررہے ہیں اس کا تعلق گہرائی سے نہیں سطحیت سے ہے اور سطحیت سفارتی تعلقات کا دوسرا نام ہے۔
آزاد اور خود مختار ریاست کا تصور بظاہر بڑا متاثر کن معلوم ہوتا ہے، لیکن ہماری مذہبی فکر میں انسان کو کائناتِ اصغر کہا گیا ہے۔ کائنات اصغر کے مقابلے پر خود مختار ریاست کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن یہ کائنات کوئی خود مکتفی کائنات نہیں بلکہ اس کا اپنی جیسی دوسری کائناتوں اور خود کائنات اکبر سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس کے وجود کی پوری معنویت اسی تعلق سے متعین ہوتی ہے۔ لیکن اس عہد کا المیہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے کائنات اصغر نہیں، خود مختار اور آزاد ریاست ہونے پر اصرار ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس آزاد اور خود مختار ریاست کو فی نفسہٖ کسی دوسرے وجود کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص اپنے لیے کافی ہے۔ ذرا مغربی دُنیا کے منظر نامے کو دیکھیے۔ والدین کو اولاد کی اور اولاد کو والدین کی ضرورت نہیں اور اگر یہ ضرورت ہوتی بھی ہے تو ایک عرصے کے بعد گویا ختم ہوجاتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے بعد وہاں شادی کا ادارہ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شادی طلاق حاصل کرنے کے ایک بہانے کے سوا کچھ نہیں۔ چناں چہ وہاں عارضی اور تجرباتی تعلق کا رجحان سکہ رائج الوقت بن گیا ہے جو شادی کے ادارے کی نفی کے مترادف ہے۔ مغرب جنسی زندگی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مغرب میں لوگ شوہر اور بیوی نہیں، بلکہ صرف مرد اور عورت ہوتے ہیں، لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ عرصے کے بعد وہاں مرد اور عورت کو بھی ایک دوسرے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ صورتِ
حال دوسرے کو اپنے وجود کی سرحد سے دور کردینے اور اسے اپنے وجود کے دائرے میں در آنے سے روکنے کی شعوری یا لاشعوری خواہش ہی کا نتیجہ ہے۔ تو کیا دوسرے واقعتاً ہمارا جہنم ہیں؟ کیا ہمیں دوسروں کی ضرورت نہیں؟ کیا دوسرے ہماری زندگی میں مداخلتِ بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں؟ کیا وہ ہمارے وجود کے ارتقا کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ ہم میں بیشتر افراد یقیناًاِن تمام سوالات کا جواب نفی میں دیں گے۔ اس لیے کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں، ہم مقدس کتابوں اور رسولوں اور نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں، ہم دین حنیف کے پیروکار ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم دوسری بہت سی چیزوں کی طرح زیر بحث موضوع اور رجحانات کے حوالے سے بھی مغرب کے زیر اثر آچکے ہیں۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، ہم بھی ’’دوسرے‘‘ کو اپنے لیے عذاب سمجھنے لگے ہیں، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سیکڑوں مظاہر اس کا ثبوت ہیں۔ ناقابلِ تردید ثبوت۔ ہم مذاہب، ممالک، صوبوں، زبانوں، علاقوں، مکاتب فکر اور سیاسی نقطہ ہائے نظر کے حوالے ہی سے نہیں، والدین اور اولاد، شوہر اور بیوی، بہن، بھائی، عزیزوں اور احباب کی سطح پر بھی ’’دوسرے‘‘ کے مسئلے کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے کا مطلب غیر یا اجنبی نہیں۔ تو کیا دوسرے واقعتاً ہمارا جہنم ہیں؟ کیا ہم سب خود مختار اور آزاد مملکتیں ہیں؟ کیا دوسرے ہمارے راستے کی دیوار ہیں؟
یہ ایک بہت رسمی اور سامنے کی بات ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے بعد کافی عرصے تک زندہ رہنے کے لیے ’’دوسروں‘‘ کا محتاج ہوتا ہے۔ ان دوسروں میں صرف اس کے خاندان کے لوگ ہی نہیں، دوسرے بہت سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن انسان کو بھول جانے کا مرض لاحق ہے۔ اسے کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ وہ کسی کو اپنا محسن تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود ہی بڑا ہوگیا۔ انسان بڑا ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب اسے کسی کی ضرورت نہیں، لیکن انسانوں کی بہت بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے، جن کی مسرتیں دوسروں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔
انسان کامیاب ہوتا ہے اور کامیابی پر خوش ہوتا ہے، لیکن اس کی خوشی محض کامیابی کی خوشی نہیں ہوتی، اس میں خود نمائی یا Vanity کا عنصر بھی ہوتا ہے، جو ہمیشہ دوسروں کی وجہ سے اور دوسروں ہی کے لیے بروئے کار آتا ہے۔ انسان کی بیشتر خود پسندی کی جڑیں دوسرے کے احساس میں پیوست ہوتی ہیں۔ آقا کی آقائیت غلاموں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ غلام نہیں تو آقا بھی نہیں اور اس کی آقائیت بھی نہیں۔ ہم ایک ایسے صاحب سے واقف ہیں، جن کا تعلق ملک کے ایک دیہی علاقے سے ہے، لیکن وہ نقل مکانی کرکے کراچی میں آباد ہوگئے اور یہاں انہوں نے پے در پے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں، لیکن ہم نے انہیں اپنی کامیابیوں پر کبھی مسرور ہوتے نہ دیکھا۔ ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ وہ جذبات کے اظہار کے قائل نہیں لیکن رفتہ رفتہ ہم پر کھلا کہ وہ مسرور تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی مسرت میں ایک گہری اداسی بھی موجود ہوتی ہے۔ ہم نے تجزیہ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ شہر میں ان کے عزیز بھی ہیں اور دوست احباب بھی، لیکن یہ لوگ عمرانی اصطلاح میں ان کے بنیادی یا ابتدائی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا بنیادی گروہ ان کے آبائی دیہی علاقے میں رہ گیا اور حالات کچھ ایسے تھے کہ وہ کبھی اپنے ابتدائی گروہ میں جا کر گھل مل نہ سکے اور نہ ہی اس گروہ میں سے کوئی ان کے قریب آکر رہ سکا۔ ہم نے یہ تجزیہ ایک دن ان کے سامنے رکھا تو وہ حیران ہوئے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسا ہی ہے، لیکن انہیں اس بات کا اس طرح ادراک نہ تھا۔ انسانوں کی اکثریت سماجی نفسیات کے اسی دائرے میں زندگی بسر کرتی ہے۔
انسان کے لیے خود آگہی سے زیادہ اہم کیا ہوسکتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دوسرے ہماری خود آگہی کا اہم حصہ ہیں۔ سقراط سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ تم نے دانش کہاں سے حاصل کی؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ احمقوں سے۔ حقیقت یہی ہے کہ دوسرے ہمارے لیے ہمارے وجود کے انکشاف کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان انسانوں میں نہ سہی، انسانوں سے متعلق قصے کہانیوں اور ان کے متعلق واقعات میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے داخلی ارتقا کا انحصار کسی نہ کسی حد تک اس بات پر ہے کہ انسان دوسروں کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔
رویے سے مراد یہاں یہ ہے کہ کوئی انسان دوسروں کے لیے اپنے اندر کتنی گنجائش نکالتا ہے اور دوسروں کی قبولیت کے سلسلے میں اس کی استعداد کا کیا عالم ہے۔ انسانوں کی قبولیت کے حوالے سے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ کھد بد ہوتی ہے کہ شاید ان کے لیے اچھائی اور بُرائی اور گناہ و ثواب کے پیمانوں اور معیارات کو ساقط کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ پیمانے اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں دوسروں کو قبول کرنے کی کافی فطری استعداد ہوتی ہے، لیکن اکثر لوگ دوسروں کے لیے درکار قبولیت کو شعوری کوشش ہی سے پیدا کرسکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دوسروں کو قبول کرنا ایک سخت رُوحانی، نفسیاتی اور جذباتی ریاضت ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ وسعت کی خواہش بھی رکھتا ہے اور اس سے خوف بھی کھاتا ہے۔ فی زمانہ یہ خوف ہولناک حد تک بڑھ گیا ہے اور دوسروں کو قبول کرنے کی گھٹتی ہوئی استعداد اس کا ایک ثبوت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ انسانوں میں دوسرے انسانوں کی قربت اور انہیں قبول کرنے کی خواہش دم توڑ گئی ہے۔ یہ خواہش موجود ہے، لیکن اس کے محرکات بڑے خوفناک ہیں۔ ان میں سے تین محرکات اہمیت کے حامل ہیں:ْ
-1 دوسروں پر حکمرانی یا ان کے استیصال کی خواہش یا انہیں معمول بنالینے کی تمنا۔
-2 دوسروں کو مقابلے، موازنے اور مسابقت کا ذریعہ سمجھنے کی مریضانہ آرزو۔
-3 سماجی، معاشی یا اسی قسم کے کسی بھی فائدے کے امکانات۔
فی زمانہ انسانوں کی قربت اور قبولیت کے ڈھونگ کی پشت پر یہی محرکات کام کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ایسی قربتوں اور ایسی قبولیتوں کا انجام اور نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ بھول گئے؟؟ سارتر نے کہا ہے دوسرے ہمارا جہنم ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خود مختار ریاست کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان انسانوں کی دوسروں کی کیا دوسرے دوسروں کو ہے اور اس جہنم ہیں ہوتے ہیں یہ ہے کہ ہوتا ہے ہیں اور لیکن ان ہوتی ہے اور خود کے لیے گیا ہے کے بعد
پڑھیں:
احتجاجی تحریک کا ماحول
پاکستان میں ویسے تو حالات نارمل ہیں۔ ملک میں کوئی ہیجان نہیں ہے۔ سڑکیں پر امن ہیں۔ لوگ آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالات پر امن ہیں۔ سیاسی استحکام بھی ہے۔ سیاسی طور پر ریاست کو کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ پارلیمان کام کر رہی ہے۔ قانون سازی بھی ہو رہی ہے۔ آئین سازی بھی ہو رہی ہے۔ چاروں صوبائی حکومتیں بھی کام کر رہی اور مستحکم ہیں۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مستحکم حکومت ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کی ایک مستحکم حکومت ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنا وزیر اعلیٰ نہائت آرام سے تبدیل کیا ہے۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔ بلوچستان میں ویسے تو اسٹبلشمنٹ کی مرضی کی حکومت ہی ہوتی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ سب کی مرضی کی حکومت ہے۔ اس لیے ایک مستحکم حکومت ہے۔
کیا پنجاب میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلنے کے امکانات ہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پنجاب سیاسی طور پر پر امن نظر آرہا ہے۔ پنجاب کے عوام کسی بھی سیاسی عدم استحکام کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لوگ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ سندھ میں بھی امن ہے۔ کراچی میں بالخصوص کسی بھی سیاسی جماعت میں تحریک چلانے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ تحریک انصاف بھی کراچی میں احتجاج کرنے میں ناکام ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کراچی سیاسی طور پر خاموش ہے۔ اس وقت کوئی سیاسی جماعت کراچی کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اس لیے کراچی جہاں سے احتجاج جنم لیتا تھا۔ پر امن ہے۔ وہاں کرائم ہے۔ لیکن کرائم کم بھی ہوا ہے۔ لیکن جب لاہور اور کراچی کا تقابلی جائزہ ہوتا ہے۔ تو لاہور آگے نظرآتا ہے۔ اس حوالے سے کراچی کے لوگ پریشان ضرور ہیں۔ وہ کراچی میں ترقی چاہتے ہیں۔مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لاہور سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کراچی میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلا سکے۔
کے پی میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وہاں کے لوگ امن چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی طور پر کے پی کسی سیاسی تحریک کے لیے تیار نہیں ہے۔ حال ہی میں 7دسمبر کو پشاور میں ہونے والا جلسہ بھی کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا۔ حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی وجہ دے دی تھی۔ لیکن لوگ باہر نہیں نکلے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کو یہ پتہ چل گیا ہوگا کہ لوگ فوج کے خلاف باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ امن چاہتے ہیں۔ لوگ وہاں مزید بد امنی نہیں چاہتے ہیں۔
پشاور پر امن ہے۔ وہاں کوئی سیاسی تحریک نظر نہیں آرہی جن علاقوں میں دہشت گردی کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں امن ہے۔ یہ امن تحریک انصاف کی سیاست کے لیے پیغام ہے کہ لوگ کسی سیاسی جماعت کے لیے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ چند دن پہلے ایک احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ صوابی انٹر چینج پر لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ لیکن کتنے لوگ تھے، چند سو۔ بڑی تعداد میں لوگ تب بھی باہر نہیں نکلے۔ بات سمجھیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ سیاسی اجتماعات اور احتجاج کے لیے سرکاری وسائل استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی احتجاجی طاقت کافی کم ہوگئی ہے۔ اسی لیے سات دسمبر کے جلسہ میں کوئی اگلا لائحہ عمل نظر نہیں آیا ہے۔ ایک خاموشی ہے۔
بلوچستان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ لیکن سیاسی طورپر بلوچستان پر امن نظر آتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ وہاں احتجاجی تحریک کے حالات ہی نہیں ہیں۔ لیکن آپ دیکھیں بلوچستان یکجہتی کونسل جن کو دہشت گرد جماعتوں کا سیاسی ونگ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی کوئی سیاسی احتجاج نہیں کر سکی ہیں۔ ماہ رنگ کی گرفتاری پر بھی کوئی بڑاحتجاج نہیں ہوا ہے۔
مینگل صاحب کے دھرنے میں بھی کوئی ہزاروں لوگ نہیں آئے تھے۔ حالانکہ وہ ماہ رنگ کے حق میں تھا۔ اس لیے بلوچستان میں تحریک انصاف تو شاید اپنا جود ختم کر چکی ہے۔ وہاں تحریک انصا ف کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی بھی بلوچستان کی کوئی بڑی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ اپنی سیٹ بڑی مشکل سے جیتتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں بلوچستان ان کی ہوم گراؤنڈ تھی۔ لیکن انھیں بلوچستان سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا۔ وہ فوج کے خلاف ہیں۔ لیکن انھیں کوئی عوامی حمائت حاصل نہیں۔ وہ لوگوں کو باہر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ سارا منظر نامہ لکھنے کا مقصد اپنے ان نادان دوستوں کو بتانا ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے۔ عوام پر امن ہیں، کسی سیاسی جماعت کے لیے لوگ سڑکوں پر نہیں ہیں۔ کوئی ہزاروں لوگ اڈیالہ نہیں آتے۔ اس لیے یہ منطق کے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ غلط ہے۔ سیاسی عدم استحکام کب ہوتا ہے۔جب لوگ سڑکوں پر ہوں۔ احتجاج کر رہے ہوں۔ جب پارلیمان کام نہ کر رہی ہو، پارلیمان فعال نہ ہو۔ ایسا کچھ نہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی جو طوفان ہے۔ وہ پاکستان کی سڑکوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہے۔ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام ہیں۔ ُ
ٹرینڈ کے نتیجے میں بھی چند ہزار لوگ بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان میں ان کا کوئی اثر نہیں۔ باہر سے شروع ہوتے ہیں۔ باہر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ شاید لوگ تفریح کے لیے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن اثر نہیں لیتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوستوں کی رائے کہ خوف ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں پنجاب میں خوف ہے۔ کے پی کا بتائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کے پی میں بہت غصہ ہے۔ لیکن وہ غصہ کہیں نظر نہیں آیا۔
مجھے پاکستان میں اس وقت کوئی بڑی احتجاجی سیاسی تحریک چلتی نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بتدریج اپنی احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کی طاقت کم کر لی ہے۔ انھوں نے طاقت کو بے جا استعمال کیا ہے۔ جس کا اب انھیں نقصان ہو رہا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔