پاکستان میں خواتین رپورٹرز کی نمائندگی میں خطرناک کمی دیکھنے میں آئی ہے جو سنہ 2020 میں 16 فیصد تھی اب سال رواں میں گھٹ کر صرف 4 فیصد رہ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حق کی شمع جلائے رکھنے والی صحافی زبیدہ مصطفیٰ نے بعد از مرگ بھی زندگیوں میں روشنی بھردی

ڈان کے مطابق یہ اعداد و شمار گلوبل میڈیا مانیٹرنگ پروجیکٹ کی رپورٹ میں سامنے آئے ہیں جسے بدھ کے روز عکس ریسرچ سینٹر نے جاری کیا۔

گلوبل میڈیا مانیٹرنگ پروجیکٹ ایک عالمی مطالعہ ہے جو ہر 5 سال بعد ایک دن کے نیوز مواد کا جائزہ لیتا ہے۔ اس سال چوتھی بار عکس نے پاکستان کے قومی پارٹنر کی حیثیت سے ڈیٹا اکٹھا کیا۔

رپورٹ کے مطابق 6 مئی 2025 کو پاکستان میں گلوبل میڈیا مانیٹرنگ پروجیکٹ کی مانیٹرنگ کی گئی۔ یہ وہ دن تھا جب نیوز کوریج زیادہ تر پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری کشیدگی کے گرد گھومتی رہی۔ اس صورتحال کے باعث خواتین سے متعلق خبریں تقریباً غائب رہیں۔

مزید پڑھیے: صحافیوں میں بڑھتے نفسیاتی امراض، ایک تحقیقاتی جائزہ  

بیان میں کہا گیا کہ6  مئی کو ٹی وی، ریڈیو یا انٹرنیٹ نیوز میں کوئی بھی خاتون رپورٹر ریکارڈ نہیں کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق سرحدی کشیدگی، سیاسی بیانات اور عسکری تجزیوں نے میڈیا کا بیشتر حصہ گھیر لیا جس کے باعث خواتین کی کہانیاں خبروں سے تقریباً باہر ہو گئیں۔

اگرچہ اس مخصوص دن کی صورتحال نے نتائج پر اثر ڈالا لیکن طویل المدتی ڈیٹا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔

صنفی بنیاد پر تشدد کی کوریج بھی انتہائی محدود مانیٹرنگ کے دوران تمام میڈیا میں اس سے متعلق صرف ایک خبر سامنے آئی جس میں گھریلو تشدد کے ایک واقعے میں خاتون کو صرف متاثرہ کے طور پر پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ایران میں قید خاتون اطالوی صحافی رہائی کے بعد اپنے ملک پہنچ گئیں

رپورٹ کے مطابق اس خبر میں نہ انسانی حقوق کا زاویہ شامل تھا اور نہ متعلقہ قانونی پہلوؤں کا ذکر کیا گیا۔

خبروں میں خواتین کی بطور موضوع نمائندگی بھی کم

سنہ2025  میں خبروں میں خواتین بطور خبر موضوع صرف 13 فیصد رہیں جو سنہ 2020 میں 18 فیصد تھیں۔

بیان کے مطابق خواتین سے متعلق تمام خبریں مرد رپورٹرز نے ہی رپورٹ کیں۔

ایک شعبے میں بہتری

اس حوالے سے ایک شعبے میں بہتری دیکھی گئی۔ سماجی اور قانونی خبروں میں خواتین کی نمائندگی 14 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو گئی۔

عالمی صورتحال

94  ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق دنیا بھر میں بھی خبری میڈیا میں صنفی مساوات کی پیشرفت تقریباً رک گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی صحافی خواتین: ہمت، جدوجہد اور تبدیلی کی کہانی

روایتی میڈیا میں نظر آنے یا بطور ماخذ شامل ہونے والے افراد میں خواتین کا حصہ 26 فیصد ہے۔

ڈیجیٹل نیوز میں یہ شرح 29 فیصد ہے اور یہ دونوں اعداد گزشتہ 10 سال سے تقریباً تبدیل نہیں ہوئے۔

کھیلوں کی خبروں میں خواتین کی نمائندگی انتہائی کم یعنی 15 فیصد رہی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں دگنا زیادہ بار بطور متاثرہ پیش کیا جاتا ہے خصوصاً گھریلو تشدد اور جرائم کی خبریں اس رجحان کا بڑا سبب ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ملک کی ویٹرن صحافی زبیدہ مصطفیٰ نہیں رہیں

اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا میں خواتین ماہرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن مجموعی طور پر خواتین اب بھی ماہرین کے طور پر کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔

مزید برآں خواتین صحافیوں کی تیار کردہ رپورٹس میں خواتین موضوعات اور صنفی زاویہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر خبر رساں اداروں میں صنفی تشدد پر مبنی خبروں کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے جو بڑی عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

مزید پڑھیں: مریم ابو دقہ، اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والی خاتون صحافی کون ہیں؟

رپورٹ کے مطابق سنہ2025  کی مجموعی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ تبدیلی کی رفتار واضح طور پر سست ہو چکی ہے اور موجودہ طریقے صنفی مساوات میں کوئی بڑی بہتری نہیں لا پا رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان میں خاتون رپورٹرز پاکستان میں خواتین صحافی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان میں خاتون رپورٹرز پاکستان میں خواتین صحافی خبروں میں خواتین رپورٹ کے مطابق میں خواتین کی پاکستان میں کی نمائندگی میڈیا میں یہ بھی

پڑھیں:

تیزاب حملے، تشدد اور زندگی کا خاتمہ، پاکستان میں خواتین کی مشکلات کی کہانی

کراچی سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ طالبہ راحیلہ کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے، لیکن 2015 میں راحلیہ کو تیزاب کے حملے کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ان کا چہرہ اور جسم بری طرح جھلس گیا، اور وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئیں۔

یہ انتقامی حملہ ایک پولیس اہلکار ذیشان عمر نے کیا تھا، جب راحیلہ کے والدین نے اس کی شادی کی پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: خواتین پر ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے کے لیے متحد ہونا ہوگا: صدر آصف زرداری

راحیلہ کے انکار کو وہ برداشت نہ کر سکا اور پیچھا کرنے لگا۔ حملہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے روز اس وقت کیا گیا جب راحیلہ گھر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ حملہ آور نے کہا تھا، ’اگر تم میری نہیں ہو سکتی تو کسی اور کی بھی نہیں رہو گی‘۔

راحلیہ نے ’وی نیوز‘ کا بتایا کہ تیزاب سے نہ صرف میری جلد اتر گئی، بلکہ گود میں موجود میری بہن کا 6 ماہ کا بچہ بھی متاثر ہوا۔

انہوں نے کہاکہ حملے کے بعد جب میں نے پہلی بار آئینہ دیکھا تو میں خود کو پہچان نہیں پائی، جبکہ میرے لیے اب عام زندگی کے معمولات بھی ایک چیلنج بن گئے ہیں۔

تیزابی حملہ کرنے والے مجرم ذیشان عمر کو مقامی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور راحیلہ کو 10 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ تاہم راحیلہ کے مطابق انہیں اب تک جرمانے کی رقم موصول نہیں ہوئی۔

صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف 16 روزہ اگاہی مہم کیا ہے؟

پوری دنیا میں ہر سال 25 نومبر سے 10 دسمبر تک مسلسل 16 دن صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ یہ مہم 1991 سے شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔

واضح رہے کہ اس مہم کا پہلا دن 25 نومبر دراصل ’خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن‘ ہے، جبکہ اس مہم کا آخری دن 10 دسمبر ’عالمی یومِ انسانی حقوق‘ کا ہے۔

GBV مہم کا اصل مقصد کیا ہے؟

اقوام متحدہ (UN) کے زیر اہتمام، Gender-based violence (GBV) کے خلاف 16 روزہ مہم کا اصل مقصد خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ ہے۔ یہ مہم صنفی بنیاد پر تشدد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر اجاگر کرتی ہے اور دنیا بھر میں افراد، حکومتوں اور تنظیموں کو اس کے سدباب کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پر متحرک کرتی ہے۔

چونکہ دورِ جدید میں انٹرنیٹ کا استعمال قریباً ہر شعبے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے، اسی لیے انٹرنیٹ قریباَ ہر انسان کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ جب یہی انٹرنیٹ لڑکیاں اور خواتین استعمال کرتی ہیں تو انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ کچھ واقعات میں یہ ڈیجیٹل وائلنس سے آگے بڑھ کر فزیکل وائلنس بھی بن جاتا ہے۔

صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کا اعلامیہ پہلا انٹرنیشنل ٹول ہے، جو خواتین اور کمزور طبقات پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

پائیدار ترقیاتی اہداف، خصوصاً SDG5 جو صنفی مساوات سے متعلق ہے میں خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق اہداف شامل ہیں۔

GBV کی روک تھام کے حوالے سے قوانین کیا ہیں؟

پاکستان کا آئین آرٹیکل 25 اور 34 مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کو یقینی بناتا ہے، جو GBV کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کی بنیاد ہے۔ پاکستان میں سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے ‘پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ (PECA) 2016 جنسی دھمکیوں، ہتک عزت، اور بغیر رضا مندی کے تصاویر یا ویڈیوز شئیرنگ جیسے اقدامات کو جرم قرار دیتا ہے۔

GBV کے اعداد و شمار کیا ہیں؟

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ سال ٹیکنالوجی سے سہولت یافتہ صنفی بنیادوں پر تشدد کے 3 ہزار 171 شکایات درج ہوئی ہیں، ان میں سے ایک ہزار 772 خواتین نے درج کرائیں۔

واضح رہے کہ یہ GBV کی ٹوٹل تعداد نہیں، کیونکہ بہت سی خواتین خوف، شرم، عدم اعتماد اور رسائی نہ ملنے کی وجہ سے شکایت درج ہی نہیں کرا پاتیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 65 فیصد تک ہے۔

نیشنل کمشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق قریباً 40 فیصد پاکستانی خواتین دہندگان نے ڈیجیٹل سائبر بلینگ یا ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔

اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا شکار ہیں، اس میں قریباً نصف خواتین اپنی شکایات کہیں درج نہیں کراتیں، اور صرف 0.4 فیصد خواتین عدالت سے رجوع کرتی ہیں۔

وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 2021 سے 2024 کے دوران 7500 سے زیادہ خواتین کو قتل کیا گیا، جن میں سے 1553 غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔

سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف 2024 میں 32 ہزار 616 کیسز صنفی بنیادوں پر تشدد کے ریکارڈ ہوئے۔ جن میں ریپ کے 5 ہزار 339، اغوا کے 24 ہزار 439، گھریلو تشدد کے 2 ہزار 238 اور غیرت کے نام پر قتل کے 547 کیسز شامل ہیں۔

GBV کی میڈیا رپورٹنگ کتنی ہوتی ہے؟

بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنی والی تنظیم ‘ساحل’ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر منیزہ بانو نے اس حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ صنفی بنیادوں پر تشدد کا ریکارڈ جمع کرتے ہوئے بہت خوفناک قسم کی کہانیاں سامنے آئی ہیں، جیسا کہ ایک 17 سالہ لڑکی کو شادی کے دو مہینے بعد اس شخص نے قتل کردیا، جس کے رشتے سے لڑکی نے انکار کر دیا تھا۔

ڈاکٹر منیزہ نے کہاکہ یہاں اگر کوئی خاتون شادی کے بعد یہ کہے کہ اسے یہ ازدواجی تعلق آگے نہیں بڑھانا تو اسے سسرال میں یا پھر میکے میں بھی مار دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشرے کی لڑکیاں نہ سسرال میں محفوظ ہیں اور نہ ہی میکے میں۔

ڈاکٹر منیزہ نے کہاکہ مردوں کو سمجھنا ہوگا کہ بیوی پر تشدد کرنے سے مرد اپنے بچوں کے لیے بھی مسائل کھڑے کر رہے ہوتے ہیں، جس کا انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

ساحل کے ساتھ گزشتہ 15 سالوں سے لیگل ایڈ کوآرڈینیٹر امتیاز سومرو ایڈووکیٹ نے کہاکہ بچوں اور عورتوں کے خلاف ہر سال تشدد کے کیسز میں اصافہ ریکارڈ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ساحل نے یکم جنوری سے نومبر 2025 تک ملک بھر سے 81 اخبارات سے تشدد کے جو واقعات جمع کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں۔

‘سال 2025 میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد (Violence Against Women – VAW) کے کل 6 ہزار 543 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ سال 2024 میں رپورٹ ہونے والے 5 ہزار 253 کیسز کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتی ہے۔‘

رپورٹ میں تشدد کی مختلف اقسام کا احاطہ کیا گیا ہے، جن میں تشدد، قتل، عصمت دری، غیرت کے نام پر قتل، خودکشی اور اغوا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ایک ہزار 414 سادہ قتل، ایک ہزار 60 تشدد کے کیسز، 649 خودکشی اور 585 عصمت دری کے واقعات درج کیے گئے۔

جغرافیائی تقسیم اور محرکات

صنفی بنیاد پر تشدد کے زیادہ تر واقعات صوبہ پنجاب میں رپورٹ ہوئے، جہاں کُل 5 ہزار 77 کیسز (78 فیصد) سامنے آئے، اس کے بعد سندھ میں 934 (14 فیصد) کیسز درج کیے گئے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں فیصل آباد ایک ہزار 103 کیسز کے ساتھ سرفہرست رہا، جس کے بعد گوجرانوالہ (438) اور رحیم یار خان (401) شامل ہیں۔ قتل کے کیسز کی وجوہات میں سب سے زیادہ تعداد گھریلو تشدد کی رہی، جس کے 124 کیسز رپورٹ ہوئے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ 3 ہزار 959 واقعات متاثرہ خواتین کے اپنے ہی مقام (Victim’s Place) پر پیش آئے۔ کیسز کی رجسٹریشن کے حوالے سے 5 ہزار 67 واقعات پولیس میں رجسٹرڈ کیے گئے، جبکہ 79 واقعات غیر رجسٹرڈ رہے، اور کیسز 2 میں پولیس نے رجسٹریشن سے انکار کردیا تھا۔

تشدد کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد جاننے والے یا تعلق دار (Acquaintance) کی رہی، جن کے 2 ہزار 96 کیسز رپورٹ ہوئے، اس کے بعد اجنبی ایک ہزار 127 اور شوہر (801) شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: خواتین کی ہراسانی اور تشدد کا شکار بچوں کی مدد کے لیے سینٹر کا افتتاح

امتیاز سومرو ایڈووکیٹ نے کہاکہ بہتر ‘رپورٹنگ میکنزم’ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم اصل کیسز کی تعداد بتانے سے قاصر ہیں، جبکہ اول کیسز کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ جن صوبوں یا اضلاع میں GBV کے کیسز کم ریکارڈ ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ وہاں خواتین کسی بھی وجہ سے اپنا کیس میڈیا یا پولیس تک نہیں پہنچا سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انسانی حقوق تشدد کا خاتمہ تیزاب گردی خواتین کا قتل صنفی مساوات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ، آئی ایم ایف کی رپورٹ جاری
  • طالبان کی ضد نے افغانستان کی معیشت ڈبو دی، کراچی کا راستہ بند ہونے سے اشیا کی لاگت دگنی ہوگئی
  • تیزاب حملے، تشدد اور زندگی کا خاتمہ، پاکستان میں خواتین کی مشکلات کی کہانی
  • پاکستان میں شفافیت میں اضافہ، کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے: رپورٹ
  • پاکستان میں 80 فیصد آبادی کو پینے کیلئے صاف پانی دستیاب نہیں: ایشیائی ترقیاتی بینک
  • پاکستان میں شفافیت میں اضافہ اور کرپشن میں کمی ہوئی: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
  • پاکستان کو شدید آبی بحران کا سامنا، 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم، رپورٹ
  • پاکستان میں کرپشن کے تاثر میں واضح کمی؛ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹ جاری
  • سوڈان: اسپتال اور اسکول حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 63 بچوں سمیت 114 ہوگئی