ویمن بمقابلہ مشینز، لاہور ڈیجیٹل فیسٹیول کی نمائش
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
لاہور:
لاہور ڈیجیٹل آرٹس فیسٹیول (ایل ڈی ایف) کی جانب سے منعقد کی گئی منفرد نمائش "ویمن بمقابلہ مشینز" کامیابی کے ساتھ ختم ہوگئی، نمائش نے شائقین پر گہرا تاثر چھوڑا اور صنف، ٹیکنالوجی اور کھیلوں کے حوالے سے اہم مکالمے کو جنم دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور کی نجی یونیورسٹی میں چھ روزہ اس نمائش کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا جو اپنے جُرات مندانہ موضوعات، متنوع آوازوں اور تخلیقی اندازِ پیشکش کے باعث نمایاں رہی۔
نمائش نومبر نومیریک پروگرام کے تحت منعقد کی گئی جو فرانسیسی سفارت خانے، آلیانس فرانسیز لاہور اور دی لِٹل آرٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ بی این یو کے اسکول آف ویژول آرٹس اینڈ ڈیزائن میں لگنے والی یہ نمائش ڈیجیٹل آرٹ، کھیلوں میں خواتین کی جدوجہد اور کیوریٹوریل کہانی گوئی کا حسین امتزاج تھی۔
نمائش میں نو خواتین فنکاروں اور پانچ باہمت خواتین کھلاڑیوں نے شرکت کی، جنہوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنف، ٹیکنالوجی اور کھیل کے بدلتے تعلقات کو اجاگر کیا۔
اس تخلیقی تصور اور کیوریٹوریل تھیم کو لاہور ڈیجیٹل آرٹس فیسٹیول کے بانی نجمالاسر نے ترتیب دیا۔
نمائش کی کامیابی کے بعد "ویمن بمقابلہ مشینز" کا دوسرا مرحلہ نومبر 2025ء اور اوائل 2026 میں لاہور کے مختلف مقامات پر پیش کیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
ایل ڈی ایف کی اسپیشل پراجیکٹس مینیجر انعم شفیق نے کہا ہمیں ایسے مزید منصوبوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے دور میں جب مصنوعی ذہانت کے اثرات خواتین کے حقوق کو نئے اور غیر متوقع چیلنجز سے دوچار کر رہے ہیں۔ ویمن بمقابلہ مشینز ایک اہم قدم ہے جو ان ضروری مباحث کو اجاگر کرتا ہے۔
کیوریٹر روحما خان نے کہا یہ نمائش اور ہمارا ایل ڈی ایف کے ساتھ اشتراک دراصل ایک فکری اور تخلیقی حکمتِ عملی ہے ،ایک ایسی جگہ جو مزاحمت اور مرمت، اور دوبارہ تخیل کے لیے کھلتی ہے۔
فنکارہ ماہ نور علی شاہ کا کہنا تھا جہاں آرا نبی (سوئمر) کے ساتھ تعاون میرے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ یہ اشتراک میرے فن کو ایک نئی سمت میں لے گیا۔ نمائش کی کیوریٹنگ نہایت مربوط تھی اور تمام تعاون کو خوبصورتی سے یکجا کیا گیا۔
ایتھلیٹ اور موٹر سائیکلسٹ زینت عرفان نے کہا یہ تجربہ ناقابلِ فراموش تھا، میں نے ایک ایسی فنکارہ کے ساتھ کام کیا جس نے میرے روزمرہ سفر اور چیلنجز کو بخوبی سمجھا اور ڈیجیٹل آرٹ کے ذریعے اس کا اظہار بہت طاقتور انداز میں کیا۔
نمائش کے آخری روز "دی لٹل آرٹ" کے عبوری ڈائریکٹر عمیر مشتاق نے کہا ویمن بمقابلہ مشینز ایک پیغام ہے کہ فن، نظاموں کو چیلنج کر سکتا ہے اور کہانیاں تحریک کا سبب بن سکتی ہیں، ہم ہر اس فنکار، ایتھلیٹ، اور ناظر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس جگہ کو معنی خیز اور خوبصورت بنایا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویمن بمقابلہ مشینز ڈیجیٹل آرٹ کے ساتھ
پڑھیں:
انسانیت کے نام پر
افغانستان کی خاتون صحافی فرشتہ سدید کا تعلق ’ کیسا ‘ صوبہ سے ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ جب افغانستان میں حالات بہتر تھے تو وہ ایک ریڈیو بہار میں کام کرتی تھیں۔ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا اور کابل میں ان کی حکومت قائم ہوگئی تو طالبان حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ طالبان کی شوریٰ نے فتویٰ دیا کہ خواتین بغیر محرم گھر سے نکل نہیں سکتیں ، خواتین کے لیے ملازمت کرنا مشکل بنا دیا گیا ، یوں فرشتہ سدید کے برے دن شروع ہوگئے۔
انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کسی طرح جان جوکھوں میں ڈال کر سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ یہاں فرشتہ اور ان کے اہلِ خانہ نے امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لیے عرض داشتیں بھجوانی شروع کردیں۔ فرانس کی حکومت نے عرض داشت پر مثبت کارروائی پر اتفاق کیا اور اس بارے میں باقاعدہ دفتری کارروائی شروع ہوگئی۔ چند برس کے بعد حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی پالیسی اختیارکی۔
گزشتہ سال سیکڑوں افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن افغانستان بھیج دیا گیا۔ پھر پاکستان سے واپس وطن جانے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی اور جب گزشتہ ماہ رضاکارانہ واپسی کے لیے بڑھائی گئی یہ مدت پوری ہوئی تو اسلام آباد، پنجاب اور سندھ پولیس نے ان پناہ گزینوں کو ٹرانزٹ کیمپوں میں منتقل کرنے کے لیے آپریشن شروع گئے۔ اسلام آباد میں مقیم پناہ گزینوں کی لسٹ میں شامل افغان صحافی بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔ فرشتہ بھی تین دن تک ٹرانزٹ کیمپ میں قیام پذیر رہی۔ البتہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر فرشتہ کو کمیپ سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
افغانستان میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو شروع شروع میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن میں خواتین کو کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے ایک وزیر نے ایک خاتون اینکر پرسن کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ پھر شاید قندھار گروپ کے رجعت پسندوں نے کابل میں فیصلہ سازی پر بالادستی حاصل کر لی اور ایک دن یہ اعلان ہوا کہ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن بند کردیے گئے ہیں۔
افغانستان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے صحافی جن میں مرد اور خواتین شامل تھے، حالات سے دلبرداشتہ ہوکر سرحد عبور کر کے اسلام آباد پہنچ گئے۔ ان پناہ گزینوں نے خود کو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر میں رجسٹر کرایا اور امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ امریکا میںجب تک ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں براجمان رہے، تب تک پاکستان میں مقیم پناہ گزین افغان صحافیوں، غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والے افغان شہریوں اور وہ لو گ جو امریکی اداروں میں کام کرتے تھے، انھیں امریکا کا ویزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب ان سب کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
ان میں سے کئی وہ ہیں جو امریکا اور برطانیہ کے اداروں میں کام کرتے تھے۔ امریکا کی اس وقت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس کیٹیگری میں شامل صحافیوں اور دیگر افراد کو امریکا میں آنے کے لیے ویزے دیے جائیں گے ۔ خاصے افراد امریکا چلے بھی گئے مگر اکثریت ابھی تک امریکا اور یورپ جانے کی منتظر ہے، لیکن اب صدر ٹرمپ کی تبدیل شدہ پالیسی نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ ایسے افغان پناہ گزین جن میں صحافی بھی شامل ہیں، تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ گزشتہ مارچ میں افغان پناہ گزین سینئر صحافی محمود کونجی اور ان کے صاحبزادے کو واپس بھیجنے کے لیے پکڑا گیا تھا۔ محمود کونجی نے Onlineویزہ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے روحِ رواں اقبال خٹک کی قیادت میں افغان جرنلسٹس سالیڈیرٹی نیٹ ورک کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اقبال خٹک کی تحقیق کے مطابق 300افغان پناہ گزین صحافیوں اور ان کے اہل خانہ یورپی ممالک کے ویزے کے منتظر ہیں، ان کے تمام کاغذات متعلقہ سفارت خانوں میں جمع ہیں مگر ویزہ کا عمل طویل ہونے کی بناء پر وہ تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اب وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں ۔ بی بی سی نے افغانستان میں خواتین کے حالتِ زار کے بارے میں رپورٹیں تیار کی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو خواتین تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی کا اظہارکرتی ہیں انھیں مدارس میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ایک اور تعلیمی سال لڑکیوں کی تعلیمی اداروں میں موجودگی کے بغیر ختم ہوگیا۔
ایک افغان روشن خیال شخص قاری حامد محمودی نے صحافیوں کو بتایا کہ جب اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند ہوتے تھے تو ان کی بیٹی ذمنہ کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہوگئی۔ انھوں نے سوچا کہ ایک مدرسہ قائم کیا جائے جس میں لڑکیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ بارہویں جماعت تک درسی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح محمودی نے ابتدائی طبی امداد اور دیگر کورسز شروع کرائے، مگر مجموعی طور پر افغانستان میں لڑکیوں کے لیے دینی تعلیم کے مدارس میں بھی ماحول افسردہ ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈز یونیسیف کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی خواتین مخالف پالیسی کی بناء پرکئی لاکھ بچیوں کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
افغانستان کے قونصل جنرل کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر آچکے ہیں، اس بناء پر افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس جانا چاہیے مگر وہ خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حق کے حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبات کو اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک طالبہ نے یونیسیف کی ٹیم کو بتایا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی تھیں مگر اب طالبان کے مدارس میں جانا پڑگیا ہے جہاں صرف مخصوص کتابوں سے تعلیم دی جاتی ہے اور سیاسی بحث پر پابندی عائد کی گئی ہے، یوں ان بچیوں میں ڈپریشن کے علاوہ کچھ نہیں بچ پارہا۔
حکومت پاکستان نے مالیاتی بحران،غیر ملکی امداد بند ہونے اور سیکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر افغان مہاجرین کو ان کے اپنے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا سندھ اور بلوچستان میں بھی خیرمقدم کیا گیا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کا بیشتر بوجھ کراچی، حیدرآباد اورکوئٹہ پر ہے۔ البتہ ایسے افغان پناہ گزین جو یورپی ممالک کے ویز ے آنے کے منتظر ہیں ، انھیں انسانی بنیادوں پر جب تک وہ یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ نہ چلے جائیں، پاکستان میں قیام کی اجازت ہونی چاہیے۔ پاکستانی حکومت کو انسانیت کی بنیاد پرکچھ فیصلے کرنے چاہئیں۔