Express News:
2025-04-25@09:49:52 GMT

دل کے امراض میں تشویشناک اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

پاکستان بھرمیں دل کی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں ہرسال تقریباً 2 لاکھ افراد دل کے امراض کے باعث دنیاچھوڑجاتے ہیں، بزرگوں اورنوجوانوںکے بعد بچے بھی دل کی بیماریوں میں تیزی سے مبتلا ہو رہے ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ اموات دل کی بیماریوں کے باعث ہو رہی ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں غیر متوازن غذا، ورزش سے اجتناب، پان،گٹکے وغیرہ کا استعمال اورتمباکو نوشی وغیرہ شامل ہیں۔ دل کے دورے اوردل کی بیماریاں جوکسی زمانے میں بڑی عمر کے افرادکو لاحق ہوتی تھیں، اب یہ30 اور 40 سال کی عمر کے افراد میں خطرناک حد تک عام ہوچکی ہیں۔

ایک حالیہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں غیرمتعدی امراض میں اضافہ ہواہے، جن میں دل کے امراض سرِفہرست ہیں۔ اسی طرح کم عمر افراد میں دل کے امراض میں اضافے کی بڑی وجہ احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی کافقدان ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپا جیسے امراض جوکبھی بڑی عمر کے افراد میں نظر آتے تھے، اب نوجوانوں میں عام ہیں۔

اس تناظرمیں اگرخیبر پختون خواکی بات کی جائے تویہاں دل کے امراض کے حوالے سے صورت حال دیگرصوبوں کے مقابلے میں ابتر دکھائی دے رہی ہے جس کا واضح ثبوت صوبے کا واحد امراض قلب کا سرکاری ہستپال، پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے، جس میں مریضوں اورسرجریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

صرف ایک سال میں ادارے میں دل کے مریضوں کی تعداد میں 50 فی صد اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے،سرکاری اعداد وشمارکے مطابق 2024 میں پی آئی سی میں ایک لاکھ سے زائد دل کے مریضوں کاعلاج معالجہ کیاگیا، 2023 میں یہ تعداد 61 ہزارتک تھی، بچوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھاگیا جو 2023 میں 9 ہزارتھی جب کہ 2024 میں یہ بڑھ کر 14ہزار سے تجاوز کرگئی۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق دل کی سرجریوں میں بھی نمایاں اضافہ ریکارڈکیاگیا۔ 2023 میں 1326 سرجریاں کی گئیں جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر1900ہو گئی، ان میں 236 بچوں کے دل کی سرجریاں بھی شامل ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہسپتال اب پیچیدہ اورخطرناک نوعیت کے آپریشنز انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

انٹروینشنل کارڈیالوجی میں بھی یہی رجحان دیکھاگیا، اینجیوگرافی اوراینجیو پلاسٹی کے کیسز2023 میں 11ہزارسے بڑھ کر 2024 میں15ہزار143 ہو گئے، ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی، 2023 میں 13ہزارمریض آئے تھے جب کہ 2024 میں یہ تعداد 18ہزارسے تجاوزکرگئی جودل کے شدید امراض کے کیسز میں اضافہ ظاہرکرتی ہے۔

پی آئی سی نے بچوں کے انٹروینشنل پروسیجرزکی تعداد بھی دوگنی کردی، جو 2023 میں 450 تھی اور2024 میں بڑھ کر811 ہو گئی۔ دوسری جانب ہسپتال، صحت کارڈ پلس پروگرام بھی علاج تک رسائی بڑھانے میں اہم کردار اداکر رہا ہے۔ 2023 میں 15ہزار 600 مریضوں کو مفت علاج فراہم کیاگیا جب کہ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر19ہزار 701 ہو گئی، جو نہ صرف اس پروگرام کی وسعت بلکہ کم آمدنی والے طبقے میں دل کی بیماریوں کے بڑھتے بوجھ کا ثبوت بھی ہے۔

اس حوالے سے پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد شاہ نے بتایا کہ پی آئی سی نے صرف مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تکنیکی طور پر بھی خود کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔ 2024 میں ادارے نے متعدد نئی جدید سہولیات متعارف کرائیں،جن میں کم سے کم کٹائی والی والو تبدیلیاں، بائی پاس سرجریز اورمٹراکلپ پروسیجرز شامل ہیں۔ 2023 میں ادارہ خیبر پختونخوا میں پہلا (Transcatheter Aortic Valve Implantation) کرنے والا ہسپتال بنا ،انہوں نے مزیدکہاکہ ادارے کوقومی وبین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔

یہ پاکستان کاپہلاآئی ایس او سرٹیفائیڈ سرکاری ہسپتال ہے اورخیبر پختون خوا کا واحد کیٹیگری اے ہسپتال بھی ہے۔ اب اسے سول سرونٹس کی تربیت کے نصاب میں بھی شامل کر لیاگیا ہے، کئی بین الاقوامی فیلو بھی پی آئی سی میں جدیدکورونری انٹروینشنزکی تربیت کے لیے آچکے ہیں۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے پروفیسر شاہ کاراحمد نے کہا کہ پی آئی سی خیبر پختون خوا میں سیٹلائٹ سینٹرزکھولنے کے لیے تیار ہے تاکہ اعلیٰ معیارکی دل کی نگہداشت پس ماندہ اضلاع تک بھی پہنچائی جاسکے اور ادارہ پورے خطے میں دل کے علاج کا مرکز بن سکے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں میں پیدائشی دل کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ عام لوگوں میں شوگر ، بلڈپریشر، ذہنی دباؤاوردیگر بیماریوں کے باعث دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ لوگوں کا لائف سٹائل اورخوراک بھی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ اب لوگ ورزش اورپیدل چلنے سے اجتناب کرتے ہیں جس کے باعث بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹرشاہکاراحمد شاہ نے کہاکہ دل کی بیماریوں کواجتماعی طورپرقلبی امراض (CVD) کہاجاتا ہے،جن کی کچھ عام اقسام یہ ہیں:

کورونری آرٹری ڈیزیز: یہ دل کی ان شریانوں میں مادے جمنے سے ہوتی ہے جودل کوخون فراہم کرتی ہیں اورسینے میں درد (انجائنا) ، سانس لینے میں دشواری اوردل کے دورے کاسبب بنتی ہے۔

دل کا دورہ (مایوکارڈیل انفیکشن): جو اس وقت ہوتا ہے جب دل کے پٹھوں کے حصے کو ضرورت کے مطابق خون نہیں ملتا۔

ہارٹ فیلیئر: دل کی ناکامی کے نام سے بھی جاناجاتا ہے، یہ اس وقت ہوتاہے جب دل جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی خون پمپ نہیں کرسکتا۔

اریتھیما: جس کے نتیجے میں ہونے والی علامات میں دھڑکن تیزہونا، چکرآنا، سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد اور بے ہوشی شامل ہوتی ہے۔

کارڈیومایوپیتھی:جو دل کے لیے جسم کے باقی حصوں میں خون پمپ کرنے میں دشواری کا باعث بنتی ہے اوردل کی ناکامی کا باعث بن سکتی ہے۔

دل کے والوزکا عارضہ: یہ ایک یا ایک سے زیادہ دل کے والوزکو پہنچنے والا نقصان ہے جودل کے ذریعے خون کے بہاو میں خلل ڈال سکتا ہے۔

دل کے پیدائشی نقائص: یہ دل کے ساختی مسائل ہیں جن کے ساتھ ایک شخص پیدا ہوتا ہے اور ان میں سادہ نقائص سے لے کر شدید جان لیواعلامات کے ساتھ پیچیدہ مسائل تک شامل ہیں۔

شہہ رگ کی بیماری: ایسی حالتیں جوشہ رگ کومتاثرکرتی ہیں، شہہ رگ ایک بڑی شریان ہوتی ہے جوخون کودل سے باقی جسم تک لے جاتی ہے۔

پیریفرل آرٹری ڈیزیز: یہ ایسی حالت ہے جس میں خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اوراعضا تک خون کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے، اسکے نتیجے میں چلتے وقت ٹانگوں میں درد، سْن ہونا، ٹانگوں کی کم زوری یا ٹانگ کے نچلے حصے یا پاؤں میں سردی لگنا شامل ہے۔

دل کی اس قسم کی بیماریوں، ان کی علامات اورصحت پر ان کے اثرات کوسمجھنے سے عارضہ قلب کا جلد پتہ لگانے، اس کی روک تھام یا علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر شاہ کار احمد نے کہا کہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ دل کی بیماریوں سے کیسے بچاجاسکتا ہے؟دیکھیں ہماری طرزِزندگی کے بہت سے ایسے عوامل ہیں جودل کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ غیرصحت بخش خوراک اورکم جسمانی سرگرمیاں بھی دل کی بیماری کا اسی طرح سبب بن سکتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، شراب نوشی، نفسیاتی تناؤ اور موٹاپا وغیرہ۔ اس لیے ہرکھانے میں ایک پھل اورسبزی شامل کرنا ضروری ہے، دن میں 30 منٹ کی چہل قدمی تناؤکی سطح کوکم کرنے اوردل کی بیماری اوردوسرے عارضوں کوروکنے میں مددکرتی ہے۔

اس کے علاوہ قلبی امراض کے علاج میں سائنسی اورتکنیکی ترقی کے باوجود اس کی روک تھام اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگرچہ اس بیماری کی علامات درمیانی عمرمیں ظاہر ہوسکتی ہیں لیکن یہ بیماری خود ایک دہائی قبل وجود میں آنا شروع ہو جاتی ہے،اس لیے ہمارے پاس اس سے جلد بچاؤ کے لیے کافی وقت ہے،جس کے لیے غیرمتوازن خوراک کوکبھی نہیں بھولناچاہیے جو وزن میں اضافے اور ذیابیطس کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ دل کی بیماری کے خطرے کو بڑھانے میں اہم کرداراداکرتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دل کے لیے صحت مند طرز زندگی کواپنایا جائے، جس میں متوازن خوراک برقراررکھنا اور باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ باقاعدگی سے طبی معائنہ کروائیں اورہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس اور کولیسٹرول کی باقاعدگی سے جانچ کریں تاکہ بات بگڑنے سے پہلے سنبھالی جاسکے۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جب کہ 2024 میں یہ دل کی بیماریوں بیماریوں میں دل کی بیماری میں یہ تعداد کی تعداد میں دل کے امراض کا باعث بن پی ا ئی سی میں اضافہ میں دل کے اضافہ ہو امراض کے شامل ہیں میں بھی کے باعث بڑھ کر کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

ہنی ٹریپ گینگ کے 16 کارندے گرفتار، راولپنڈی پولیس کے 5 پولیس اہلکار اور خواتین بھی شامل

راولپنڈی:

راولپنڈی پولیس نے ہنی ٹریپ کرکے شہریوں کو لوٹنے  والے دو سرگرم گینگز کے 16ملزمان کو گرفتار کرلیا  جس میں پولیس کے پانچ حاضر سروس اہلکار بھی شامل ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق راولپنڈی پولیس نے ہنی ٹریپ کر کے شہریوں کو لوٹنے والے دو گروہوں کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک گروہ میں پانچ راولپنڈی پولیس کے حاضر سروس اہلکار بھی شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق دوسرا گینگ مشرقی افریقن ملک ملاوی کی شہریت کی حامل پاکستانی نژاد خاتون آپریٹ کرتی تھی، ملزمان سے مجموعی طورپر شہریوں سے ہتھیائی گی ساڑھ سات لاکھ روپے نقدی برآمد ہوئی ہے۔

 ملزمان سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے شہریوں کو پھانس کا تاوان اور بلیک کرکے رقوم ہتھیاتے تھے۔

ایس ایس پی آپریشن راولپنڈی کاشف ذوالفقار نے کہا کہ ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف جوڈیشل کروائی کے ساتھ محکمانہ کاروائی کرتے ہویے محکمے سے  ڈسمس کیا جارہا ہے۔

ایس ایس پی آپریشن راولپنڈی کاشف ذوالفقار  نے ایس پی راول کے ہمراہ پریس کانفرنس  کرتے ہویے بتایاکہ کچھ عرصہ قبل تک کچے کے علاقے سے شہریوں کو  ہنی ٹریپ کرکے تاوان طلب کرنے اور لوٹے جانے کی اطلاعات سامنے آتی تھیں لیکن اب راولپنڈی سمیت جڑواں شہروں میں  ہنی ٹریپ کے واقعات سامنے آئے اور راولپنڈی پولیس نے اس پر زیرو ٹالرینس رکھ کر کاروائی کرتے ہوئے نہ صرف مشرقی  افریقہ کے ملک کی شہریت رکھنے والی پاکستانی نژاد خاتون و اسکے خاوند کے 6 رکنی  گینگ کو گرفتار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ خود احتسابی کے تحت پولیسں ملازمین کے ملوث ہونے کا پتہ چلا تو 5 پولیس ملازمین سمیت  اس دوسرے  دس رکنی گینگ کو بھی گرفتار کرلیا۔

ایس ایس پی آپریشن کاشف ذوالفقار کا کہناتھاکہ ہنی ٹریپ سے شہریوں کو لوٹنے والے 2بڑے گینگز کے مجموعی طور 16 ملزمان جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں کو گرفتار کرکے ساڑے سات لاکھ روپے کی نقدی  اسلحہ اور دیگر اشیا برآمد کی ہیں۔

پولیس افسر کے مطابق گینگز صدر بیرونی اور صادق آباد پولیس نے گرفتار کیے، دونوں گینگز کے ارکان سوشل میڈیا کے زریعے شہریوں کو ٹریپ کر کے ان کو لوٹتے و بلیک میل کرکے رقوم ہتھیاتے  تھے۔

ایس ایس پی آپریشن نے بتایاکہ مرینہ خان گینگ کی سرغنہ مشرقی افریقن ملک ملاوی کی شہریت رکھتی ہے اور بلال نامی شخص کو اپنا خاوند بتاتی ہے جو دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پیج کے ذریعےشہرہوں جو ٹریپ کرکے لوٹتے اور بلیک کرتے تھے۔

گینگ کی لیڈی سرغنہ مرینہ خان اسکے شوہر بلال اور  فاروق، طیب، کامران اور عبدالجبار تمام چھ ملزمان کو گرفتار کرلیا جن سے ڈھائی لاکھ نقدی اور اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ 

ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزمان نے دیگر مختلف وارداتوں کا بھی انکشاف کیا ہے جبکہ صادق آباد پولیس نے10رکنی آفتاب عرف تابی گینگ گرفتار کیا، جس میں تھانہ صادق آباد کے کانسٹیبل سے ہیڈ کانسٹیبل سطح کے 5 پانچ حاضر سروس اہلکار شامل ہیں۔

گینگ میں شامل پولیس اہلکاروں کی شناخت کانسٹیبل مبشرعنصر ، کانسٹیبل افضال، کانسٹیںل نعمان، 
ہیڈ کانسٹیبل فضل عباس، ہیڈ کانسٹیبل رضا عباس شامل ہیں جبکہ دیگر ملزمان میں  آفتاب عرف تابی، حمزہ، شان اور دو خواتین مسماتہ ہاجرہ اور مسماتہ عظمیٰ شامل ہیں۔

ایس ایس پی آپریشن کاشف ذوالفقار کا کہنا تھا کہ آفتاب عرف تابی گینگ سے 5 لاکھ روپے اور اسلحہ برآمد ہوا، ملزمہ ہاجرہ مخصوص سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے شہریوں کو ٹریپ کرتی تھی۔

شہری کو ملنے کے بہانے بلایا جاتا تھا اور ان کی نازیبا ویڈیوز، تصاویر بنا کر بلیک میل کیا جاتا تھا، گینگ جڑواں شہروں کے شہریوں کو ہنی ٹریپ کے زریعے بلیک میل کر کے لوٹنے کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے،گینگ میں شامل پولیس اہلکار گینگ کے دیگر ممبران کی پشت پناہی کرتے اور شہریوں کو بلیک میل کرنے میں ان کا ساتھ دیتے تھے۔

ایس ایس پی آپریشن کاشف ذوالفقار کا کہناتھاکہ پولیس اور سوسائٹی میں جرائم کا ایسا  رجحان افسوسناک ہے کہ اس میں خواتین اور محکمہ پولیس کے لوگ ملوث پائے جارہے ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کرمنل کروائی کے ساتھ ساتھ محکمانہ کاروائی بھی کرکے انکو محکمے سے ڈسمس کیا جارہا ہے۔

ایس ایس پی کاشف ذوالفقار کا کہنا تھا ایسے جرم پر شہری خاموش نہ رھیں مزکورہ گروہوں سمیت دیگر کسی کے متلعق ایسا گھناونا فعل کرنے کی اطلاع موجود تو پولیس کو ضرور آگاہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • سینٹ اجلاس کا 12 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا گیا
  • پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
  • طورخم بارڈر سے مزید 2258 افراد واپس افغانستان چلے گئے
  • وفاقی حکومت نے او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو کردی
  • پنجاب: تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • تعلیمی اداروں میں داخلے سے قبل طلبہ کا تھیلیسیمیا سمیت جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • مدارس سمیت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک لازمی قرار
  • ہنی ٹریپ گینگ کے 16 کارندے گرفتار، راولپنڈی پولیس کے 5 پولیس اہلکار اور خواتین بھی شامل
  • صرف ایک چمچ شہد کا استعمال کن بیماریوں سے بچاسکتا ہے؟جانیں
  • لاہور: بڑی تعداد میں بھکاریوں کو ہٹانے کا دعویٰ