اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے برطانیہ کے پارلیمانی انڈر سیکرٹری برائے مذاہب ، کمیونٹیز اور آبادکاری لارڈ واجد خان نے آج وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران وزیراعظم نے لارڈ واجد خان کا پاکستان میں خیرمقدم کیا اور اوورسیز پاکستانیز کنونشن میں شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے تعاون کو سراہا جو پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ہز میجسٹی کنگ چارلس سوم کے ساتھ ساتھ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے پاکستان برطانیہ کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور عوامی تبادلوں اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا۔ ۔ وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ تعلقات کو فروغ دینے اور تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے میں لارڈ خان کی کوششوں کو سراہا۔

ملاقات میں لارڈ واجد خان نے وزیراعظم کو اپنی حالیہ سرگرمیوں اور اقدامات سے آگاہ کیا جن کا مقصد پاکستان-برطانیہ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لارڈ واجد خان تعلقات کو

پڑھیں:

سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ سے نئی وفاقی جیل منتقلی کادعویٰ

سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ سے نئی وفاقی جیل منتقلی کادعویٰ

سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیا ہے کہ قیدی نمبر 804 (عمران خان)کو اڈیالہ کی صوبائی جیل سے اسلام آباد کی نئی وفاقی جیل میں منتقل کیا جا رہا ہے نئی جیل تیاری کے مراحل میں ہے اور اپنے نئے مہمان کی منتظر ہے کہ جیل وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سےیہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستان کے ہر بڑے حکمران، صدر، وزیراعظم اور فوجی سربراہوں کی امریکی یاترا اور امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ملک کی خارجہ اور اندرونی پالیسی میں حیرت ناک تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔قائدملت وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1950ء میں پہلے سربراہ مملکت کے طور پر امریکا کی یاترا کی اور صدر ہیری ٹرومین سے ملاقات کی اس ملاقات کے بعد پاکستان امریکی کیمپ میں چلا گیا روس اس کا مخالف ہو گیا پاکستان کو امریکی امداد اور سرپرستی حاصل ہو گئی اندرونی طور پر لیاقت علی خان پہلے طاقتور ترین لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔
خادمِ ملت گورنر جنرل پاکستان غلام محمد نے1953میں امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی ، 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی اسمبلی توڑ دی تب ہی غلام محمد ملک کے برادری بھائی جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کے تحت اسمبلی توڑنے کو جائز قرار دیا، اسی سال پاکستان نے امریکی سرپرستی میں قائم فوجی اتحاد سیٹو میں شمولیت اختیار کی تب ہی مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو بے اثر بنانے کی کوشش کی گئی۔
حسین شہید سہروردی بھی امریکا گئے مگر کوئی نمایاں کامیابی نہ مل سکی پھر جنرل ایوب خان کی امریکی صدور آئزن ہاور اور جانسن سے 1961ء 1962ء اور 1965ء میں تین اہم ترین ملاقاتیں ہوئیں وُہ 1958ء کے مارشل لاکے نفاذ سے پہلے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اور پینٹاگون سے مسلسل رابطے میں تھے انہوں نے پارلیمانی نظام کو خداحافظ کہا 1956ء کے متفقہ آئین کو کالعدم قرار دیا اس آئین پر مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کے زعماء نے اتفاق کیا تھا۔
ایوب خان کے دور میں ہی پاک بھارت جنگ ہوئی سیاست کا خاتمہ ہوا مگر دوسری طرف ایوب خان نے 10 سال پوری طاقت سے حکمرانی کی،صدر یحییٰ خان 1970ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن سے ملے انہی کے دور میں وزیر خارجہ ہنری کسنجر خفیہ طور پر پاکستان کے راستے چین گئے تھے اور یوں امریکا چین سفارتی روابط بحال ہوئے تھے اندرونی طور پر یحییٰ خان نے 1970ء کے انتخابات کروائے مگر اقتدارکی منتقلی میں لیت و لعل کرتے رہے کیونکہ وُہ چاہتے تھے کہ صدر وُہ رہیں وزیر اعظم چاہے کوئی بھی ہو پھر 1971ء کی جنگ ہوئی پاکستان دو لخت ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔
تاریخ کے جھروکے سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی امریکی صدر رچرڈ نکسن سے 1973ء اور 1975ء میں دو ملاقاتیں ہوئیں مگر ایٹم بم کے مسئلے پر شدید اختلاف ہو گیا ہنری کسنجر نے گورنر ہاؤس لاہور میں دھمکی آمیز تقریر کی تو بھٹو نے بہادروں کی موت کی مثال دیکر بھرپور جواب دیا پھر 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ چلی اور بھٹو جیل چلے گئے۔صدر ضیاء الحق نے 1980ء 1982ء اور 1985ء میں امریکاکے تین دورے کئے صدر رونالڈ ریگن سے ملے یاد رہے کہ وُہ ان ملاقاتوں سے پہلے ہی بھٹو کو پھانسی لگا کر پاکستان میں ایک مستقل محاذ آرائی اور عدم استحکام کی بنیاد رکھ چکے تھے امریکی شہ پر 1979ء میں افغان جہاد شروع ہوا۔
اندرونی طور پر ضیاء الحق مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے پیپلز پارٹی کو کوڑوں پھانسیوں اور جیلوں کے ذریعے سے کارنر کرنے کی کوشش کی گئی 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات نے ملک کو برادریوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے ایک نئے سیاسی ماڈل کی بنیاد رکھی جس میں ترقیاتی کام اراکین اسمبلی کو دیکر ان کے کِلّے مضبوط کئے گئے اور یوں سیاسی نظام میں بدعنوانی کی بنیاد پڑی۔
امریکی اتحادی کے طور پر جنرل ضیاء الحق نے 11 سال طویل حکمرانی کی،ضیاء الحق نے افغانستان کے مسئلے پر امریکاسے دہری چالیں شروع کر دیں، اسی دوران ضیاء الحق کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی 1986ء میں صدرر یگن سے ملاقات ہوئی پہلے تو جونیجو نے مارشل لااٹھوایا پھر جنرل ضیاء الحق کی مرضی کے خلاف جنیوا معاہدے پر دستخط کئے1987ء میں بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آگئیں۔
یوں پاکستان کا سیاسی منظر تبدیل ہونا شروع ہو گیا،1988ء کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو 1989ء میں امریکاگئیں وہاں امریکی صدر جارج بش سینئر سے ملیں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزاز ملا، صدر بش سے ذاتی تعلقات ہونے کے باوجود نیو کلیئر اور خارجی امور پر امریکی ڈیپ اسٹیٹ سے ان کے معاملات چل نہ سکے اور وُہ 18ماہ کے مختصر ترین عرصے میں اقتدار سے فارغ کر دی گئیں صدر فاروق لغاری نے 1994ء میں امریکا کا سرکاری دورہ کیا صدر بل کلنٹن سے ملاقات کی اور پھر وُہ اپنی ہی لیڈر بے نظیر بھٹو کے خلاف صف آرا ہوئے اور دوسری دفعہ بینظیربھٹو اپنے ہی نامزد کردہ صدر کے نشانے کا شکار ہوگئیں۔
وزیراعظم نوازشریف، صدر کلنٹن سے تین بار 1997ء، 1998ء اور1999 میں ملے نوازشریف نے طالبان کیخلاف مہم امریکی دورے کے بعد شروع کی نواز شریف اقتدار سے نکالے گئے تو صدر کلنٹن نے ان کی سعودی عرب جلا وطنی میں مدد کی، صدر جنرل مشرف نے امریکاکے پانچ دورے کئے اور وُہ جونیئر بش کے دوست بن گئے اندرونی طور پر صدر مشرف نے سیاسی پارٹیوں کو کمزور کیا اپنی سیاسی جماعت بنائی افغانستان کی القاعدہ اور طالبان جنگ میں بطور پارٹنر رہے، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور شوکت عزیز بھی امریکی دوروں پر گئے مگر کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہوا۔
وزیراعظم عمران خان جولائی 2019ء میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملے ملاقات کی کامیابی کا غلغلہ تو بہت ہوا مگر اس کے کوئی ایسے نتائج نہ نکل سکے جن کی توقع کی جارہی تھی، ابھی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات نے سب کو حیران کر دیا اس سے پہلے جنرل کیانی، امریکی صدر سے ملے تھے مگر وُہ سلام دعا سے زیادہ کی ملاقات نہ تھی اس بار تو جنرل عاصم منیر ظہرانے پر وائٹ ہاؤس مدعو کئے گئے جو انتہائی غیرمعمولی تھا ،ظہرانے میں جنرل عاصم منیر، سکیورٹی مشیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل عاصم ملک اور وزیر داخلہ محسن نقوی شامل تھے مگر آج تک نہ امریکا اور نہ پاکستان دونوں نے اس ملاقات کی کوئی تصویر، کوئی فوٹیج جاری کی۔
میں کوئی جوتشی نہیں لیکن اگر ماضی کی ہر پاک امریکا اعلیٰ ملاقات کے اثرات پڑتے رہے ہیں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس بار بھی سب کچھ بدلے گا،اس دورےکا پہلا نتیجہ تو یو ایس ایڈ کی بحالی کی شکل میں سامنے آگیا ہےجبکہ پاکستان کی سیاست پر پہلا اثر یہ پڑنے والا ہے کہ قیدی نمبر 804 کو اڈیالہ کی صوبائی جیل سے اسلام آباد کی نئی وفاقی جیل میں منتقل کیا جا رہا ہے نئی جیل تیاری کے مراحل میں ہے اور اپنے نئے مہمان کی منتظر ہے کہ جیل وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔اس ملاقات کا فوری اثر پاکستان کی سفارتی اہمیت پر پڑا ہے، ایران، افغانستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی سرگرمیوں میں پاکستان کا اہم کردار ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ابراہیم معاہدہ کھٹائی میں پڑ رہا ہے اور اس سے بہتر کسی حل کی کوشش ہو رہی ہے ایران میں حکومت ختم نہ کرنے میں سعودی عرب اور بالخصوص پاکستان کا بہت ہاتھ ہے اور ایران پاکستان کے کردار کو سراہ بھی رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کو پاکستان کی شکل میں ایک مضبوط مسلم اتحادی مل گیا ہے اور پاکستان کو بھارت کے مخالف اونچا مقام مل گیا ہے ، اندازہ ہے کہ پس پردہ سرگرمیاں صدر ٹرمپ کے دورۂ پاکستان کی راہ ہموار کرنے کیلئے کی جارہی ہیں، بہت کچھ بدل گیا ہے بہت کچھ بدلنے والا ہے، دیکھتے جائیے تبصرے بعد میں ہوں گے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
  • چینی بھائیوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • چینی باشندوں کی سیکیورٹی کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • ایڈمرل نوید اشرف سے وائس ایڈمرل عبدالرحمن الغریبی کی ملاقات، دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کا عزم
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا اسلام آباد میں سیف سٹی، کیپٹل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا دورہ
  • امیر البحر سے سربراہ سعودی بحریہ کی ملاقات، دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کا عزم
  • سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ سے نئی وفاقی جیل منتقلی کادعویٰ
  • بارشوں اور سیلاب سے نقصان ،متاثرہ خاندانوں کی فوری اور مکمل مدد کی جائے: وزیر اعظم
  • وزیراعظم شہباز شریف کا شہزادہ الولید بن خالد کے انتقال پر اظہارِ افسوس
  • وزیراعظم شہباز شریف کا سیف سٹی اور مختلف علاقوں کا دورہ