پاکستان مہاجرین کی آڑ میں داعش کے جنگجو افغانستان بھیج رہا ہے، امریکہ کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
باوثوق ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے سابق امریکی ایلچی نے کہا ہے کہ انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اس افراتفری کو افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کی بے دخلی کی آڑ میں داعش کے جنگجوؤں کو افغانستان منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خلیل زاد کے مطابق باوثوق ذرائع نے انہیں آگاہ کیا کہ پاکستان اس افراتفری کو افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے یہ خدشات افغان عبوری حکومت کے ان بیانات سے مطابقت رکھتے ہیں جن میں سرحد کے پار بلوچستان میں داعش کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی تھی اور عالمی برادری سے بروقت اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ واضح رہے بلوچستان میں ٹرین کو یرغمال بنائے جانے سمیت پاکستانی کی طرف سے یہ عندیہ جاتا رہا ہے کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے، جس کے جواب میں افغان طالبان کیطرف سے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے داعش کی سرپرستی اور افغانستان میں افغان طالبان کیخلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ پاکستان
پڑھیں:
طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
افغانستان کی طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کئی صوبوں میں انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کی جا سکے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پہلے مرحلے میں انٹرنیٹ پابندی شمالی افغانستان کے پانچ بڑے صوبوں قندوز، بدخشاں، بغلان، تخار اور بلخ میں نافذ العمل ہوگی۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی فی الحال صرف فائبر آپٹک انٹرنیٹ کنکشنز پر ہوگی موبائل فون کے ڈیٹا پیکجز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت فی الحال دستیاب رہے گی۔
طالبان حکام کی جانب سے کاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان صوبوں میں فائبر کنکشن منقطع کر دیے گئے ہیں۔ جس کے باعث گھروں، دفاتر اور کاروباری مراکز میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوگا۔
طالبان حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ضروریات کے لیے متبادل فراہم کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس طالبان نے اخلاقی ضابطوں پر مشتمل قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنا اور مردوں کے لیے داڑھی رکھنا لازمی جب کہ عوامی مقامات پر موسیقی چلانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
طالبان نے 2021 کو اگست کے وسط میں افغانستان کا اقتدار سنبھالا اور تب سے خواتین کے ملازمتوں اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں پر پابندی عائد ہے۔
ملک میں خواتین کے بیوٹی پارلرز بھی بند کردیئے گئے ہیں اور بڑی عمر کی لڑکیوں پر مدرسے جانے پر بھی پابندی ہے۔