ماہ رمضان کے ثمرات کو محفوظ رکھیے۔۔۔۔ !
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
الحمدﷲ! ہم پر رمضان کا بابرکت مہینا سایہ فگن رہا، اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں سے نوازتا رہا، ہم سب ماہ رمضان کی فضیلتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ اﷲ سبحان و تعالیٰ کی توفیق سے رمضان کے روزے رکھے، نماز، تراویح، قیام لیل، ذکر و اذکار کی کثرت، تہجد اور طاق راتوں میں شب قدر کے حصول کے لیے شب بیداری کا بھی اہتمام کیا۔ مخلوق خدا کے ساتھ ہم دردی و غم گساری کا برتاؤ کیا۔
صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اﷲ کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ الحمدﷲ! ہم میں سے بہت سے لوگوں کو بہ توفیق الٰہی اعتکاف کی سعادت بھی نصیب ہوئی، بلاشبہ! اعتکاف افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ اعتکاف کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ بقرہ میں آیا ہے، مفہوم پیش خدمت ہے: ’’اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک کر دو۔‘‘
اعتکاف کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے کہ اعتکاف رسول کریم ﷺ کی سنّت ہے۔ حضرت علی (زین العابدین) بن حسینؓ اپنے والد امام حسینؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرے کے برابر ہے۔‘‘
(بہیقی، شعب الایمان)
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کے پاس جتنا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے وہ اس کی حفاظت کے لیے بھی اتنا ہی فکر مند اور چوکس رہتا ہے۔ اس کی حفاظت ہی اس کی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ رمضان کے روزوں، شب بیداری اور تمام عبادات کا اولین مقصد تقویٰ کا حصول ہوتا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ رمضان میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں لیکن رمضان کے اختتام پر شیاطین آزاد ہو جاتے ہیں اور ان تمام اعمالِ قبیح اور اخلاقِ رزیلہ جن کو ہم نے رمضان میں ترک کیا ہُوا تھا، مائل کرنے پر اکساتا اور آمادہ کرتا ہے۔ لہٰذا رمضان کی ان نیکیوں اور تقویٰ کو شیطان کے ہاتھوں ضایع ہونے سے اپنے آپ کو بچانا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔
عالم اسلام کے مشہور عالم و دانش ور مولانا ابوالحسن ندویؒ نے ’’دو روزے‘‘ کے خوب صورت عنوان پر چھوٹا اور بڑا روزہ کے دل نشیں استعارے کو استعمال کرتے ہوئے جو گفت گُو کی ہے اس کا مختصر خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’روزے دو طرح کے ہیں ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ چھوٹا روزہ 12 یا 13 گھنٹے کا ہوتا ہے، چھوٹے روزے کا قانونی ضابطہ یہ ہے کہ اس روزے کی پابندیاں محدود ہیں۔ یہ رمضان المبارک کا روزہ ہے۔ یہ روزہ طلوع فجر سے شروع ہو کر غروب آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس چھوٹے روزے کی افطاری لذیذ کھانوں اور عمدہ مشروب ہیں۔ یہ روزہ کھجور اور ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے۔ اس چھوٹے روزے کے احکامات اور پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے۔ اسلام خود ایک روزہ ہے۔
یہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اس کی سحری پہلی سانس سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑا روزہ مومن کے آفتابِ عمر کے غروب ہونے پر ختم ہوگا۔ یہ بڑا روزہ ایمان والے کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ اس کا دورانیہ معین نہیں ہے، تقریباً 60 سال، 70 سال،80 سال یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ زندگی کا یہ طویل روزہ کس چیز سے کھلے گا۔۔۔ ؟ حضرت رسول کریم ﷺ کے دست مبارک سے جامِ کوثر سے کھلے گا۔
اگر وہ روزہ پکا ہے اور اس روزے کی شرائط پر پورے اترے تو یہ محض اﷲ کی توفیق اور اس کا فضل و کرم ہے کہ ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے، یہ بڑا روزہ اسی وقت ختم ہو جاتا ہے، اس کا افطار اس کی ضیافت یہی کلمۂ طیّبہ ہے۔ یہ بڑا روزہ ہر اس کام سے ٹوٹ جاتا ہے جس کے کرنے سے اﷲ سبحان و تعالیٰ نے منع کیا، جیسے چھوٹے روزے میں غیبت منع ہے ایسے ہی بڑے روزے میں بھی غیبت منع ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا، فحش بولنا، رشوت کا لین دین، سود خوری، اسراف، فضول خرچی ممنوع ہے، اس چھوٹے روزے کے اختتام پر ہم ہرگز آزاد نہیں ہیں، وہ بڑا روزہ برابر چلتا رہے گا، وہ بڑا روزہ اس چھوٹے روزے پر بھی سایہ فگن ہے۔
یہ چھوٹا روزہ اس بڑے روزے کا جُز ہے۔ وہ بڑا روزہ چلتا رہے گا، رمضان ختم ہونے کے بعد یہ نہ سمجھیں کہ چلو چھٹی ہوئی، اب ہم آزاد ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، ہم بالکل آزاد نہیں، ہمارے گلے میں اسلام کے بڑے روزے کا طوق پڑا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، اﷲ کے ہاں اس روزے کا حساب کتاب ہوگا جو چیز حرام ہے، قیامت تک حرام رہے گی۔
کوشش یہ کیجیے کہ آپ کا یہ بڑا روزہ کا صحیح طریقے پر افطار ہو۔ جیسے کوئی روزہ دار سورج ڈوبتے ہوئے، کسی کے کہنے پر بھی ایک سیکنڈ پہلے روزہ نہیں توڑتا، اسی طرح جب آفتابِ عمر ڈوبنے کے قریب ہو تو اب کوئی جتنا بھی کہے یہ حرام چیز لے لو، یہ حرام دوا کھا لو، تو آپ کو زندگی کا بڑا روزہ زندگی کی آخری سانس تک نہیں کھولنا، پوری زندگی اﷲ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، اس کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا ہے، جیسے ہم رمضان کے روزے میں آخر وقت تک اجتناب کرتے رہے۔
ہم رمضان کو رخصت کرتے وقت اس تصور سے خوش ہیں کہ اﷲ کا شُکر یہ روزہ تو ختم ہوگیا، اگر زندگی رہی تو پھر اگلا رمضان ہوگا۔ لیکن ہم اور ہماری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ البتہ وہ طویل اور مسلسل روزہ رہے گا۔ وہ بڑا روزہ مبارک ہو، اس روزے کا خیال رکھیے گا، یہ روزہ نہ توڑیے گا، یہ روزہ ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا۔ دین اسلام، ایمان سب بگڑ جائے گا، بس یہی دو روزے ہیں، ایک روزہ قریب المیعاد ہے وہ رمضان کا دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا، جب تک مومن کی سانس اور جان میں جان ہے اس وقت تک ہے۔‘‘
ماہِ رمضان کے گزر جانے کے بعد ہمیں خود شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھتے ہوئے رمضان کی نیکیوں، عبادات اور اعمال صالحہ کی حفاظت کرنی ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں اس پر استقامت کی دعا مانگنی ہے اور اپنی زندگی کے معمولات، مخلوقِ خدا کے ساتھ ہم دردی و غم گساری اور تعلقات کو قانون خداوندی کی اطاعت و فرماں برداری اور تقویٰ کے راستے پر گام زن کرنے کی کوشش و سعی میں مصروف رہنا ہے، ذکر و اذکار کی پابندی کرنا ہے تاکہ اﷲ سبحان و تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔ سورۃ النساء کی ایک آیت کا مفہوم پیشِ خدمت ہے:
’’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اﷲ کا ذکر کرتے رہو۔‘‘
ماہ رمضان کی عبادات مقبول و منظور ہونے کی علامت یہی ہے کہ ہم ماہ صیام کے بعد بھی اعمالِ صالحہ اور عبادات کو جاری رکھیں۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام عبادات اور اعمال صالحہ کو جاری رکھنے کی اور برائیوں سے اجتناب کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی
ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب
ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟
ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر